دوستی ایک پائیدار رشتہ ہے، ایک
جذبہ ہے ایسا جذبہ جو خلوص و مروت کی خوبیوں سے گندھا ہے۔یہ وہ تعلق ہے جو
انسانوں کے ذہنی فاصلے ختم کر کے انہیں ایک دوسرے کے قریب لے آتا ہے۔یہ دو
لوگوں کے درمیان ایک مثبت رابطہ ہے۔زندگی رابطوں کا نام ہے۔اگر انسانوں کے
درمیان دوستی کا رابطہ ہے تو زندگی پرلطف ہے ۔بصورتِ دیگر بے کیف ہے ،ویران
ہے ،اُجا ڑ ہے۔
دوستی کی بہار انسان میں سرور کی کیفیت پیدا کرتی ہے او ر یہ ہی وہ کیفیت
ہے جو انسان کو اس کے وجودمیں تنہا نہیں ہونے دیتی ۔یہ ایک دل کا پیغام ہے
جو دوسرے دل کے نام ہے۔ ایک ایسا کاندھا ہے جس پر سر رکھ کر انسان چند
لمحوں کے لئے ہر فکر ہر غم سے نجات حاصل کر کے سکون کی وادیوں میں اتر جاتا
ہے۔دوستی میں ایسی طاقت ہے جو انسانی زندگی میں انقلاب بپا کر دیتی ہے یہ
انسان کو خاک سے لاکھ اور لاکھ سے خاک بنا سکتی ہے۔بزرگوں کا قول ہے دوستوں
کی صحبت اثر کرتی ہے۔اخلاقی طور پر دیکھا جائے تواچھا دوست انسان کو فرش سے
اٹھا کر عرش پر پہنچا سکتا ہے۔یہ اﷲکی محبت اور دوستی ہی تھی جس نے اپنے
پیارے حبیبﷺ کو وقت کی حدود و قیود سے ماورا کر کے عرش کی سیر کروائی۔وہ
لوگ جو دوستی کے جذبے سے منہ موڑ کے اﷲ کو تلاش کرتے ہیں وہ منہ کی کھاتے
ہیں۔ اﷲ کا خوف اچھی بات ہے لیکن اﷲ سے دوستی بہت بڑی بات ہے اور یہ ہی وہ
نکتہ ہے جو انسان سمجھ لے تو کبھی احسنِ تقویم کی چوٹی سے اسفل السافلین کی
پستی میں نہ گرے۔انسان انسان کا دوست ہو، خدا کا دوست ہو، ماحول سے رابطہ
رکھے، اپنی کتاب کو عزیز جانے، اپنے نبیﷺ کی بات مانے۔یہ ہی انسانیت کی
معراج ہے۔اﷲ کی محبت اور دوستی انسانوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔یہ ممکن ہی
نہیں کہ ایک انسان اﷲ کا دوست ہو اور انسان کا دوست نہ ہو۔لوگوں سے منہ موڑ
کر اﷲ سے دوستی کادعویٰ شریعت کا حکم نہیں۔یہ غروروتکبر کا اظہار ہے، اﷲ کے
حکم سے انکار ہے۔حدیثِ نبویﷺ کے مطابق روحیں دنیا میں آنے سے پہلے باہم جڑی
ہوئی تھیںپھر اﷲ نے انہیں الگ الگ جسم کی صورت میں دنیا میں اتار دیا۔کبھی
کبھی کوئی راہ چلتا اجنبی جانا پہچانا سا لگتا ہے تو میں سوچتی ہوں کہ شاید
یہ ناطہ اِس دنیا کا نہیں بلکہ اُس دنیا کا ہے جب روحوں کی تجسیم نہیں ہوئی
تھی۔
تاریخ پر نظر دوڑائیے حضرت محمدﷺ اور حضرت ابوبکرصدیقؓ کے تعلق کی شکل میں
ہمیں دوستی کی بہترین مثال نظر آتی ہے۔وہ حضرت ابوبکرصدیقؓ کہ جنہوں نے
رسولﷺ سے تعلق کے سبب بےشمار تکالیف برداشت کیں لیکن آپﷺ کی محبت سے منہ نہ
موڑابلکہ اس رابطے کو مزید مضبوط کرنے کے لئے اپنی بیٹی حضرت عائشہؓ کا
نکاح آپﷺ سے کر دیااور ہمارے پیارے نبیﷺ نے بھی فرمادیا کہ میں نے اپنی
زندگی میں ہر شخص کا حق ادا کر دیا لیکن ابو بکرؓ کے مجھ پر اتنے احسانات
ہیں کہ میں ان کا حق ادا نہیں کر سکااﷲ تعالیٰ روزِقیامت انہیں اس کا اجر
عطا فرمائے گا۔
دوست صرف انسان ہی نہیں بلکہ حیوانات نباتات اور جمادات بھی ہیں۔لحنِ داﺅدی
مشہور ہے۔حضرت داﺅدؑ پرسوز آواز میں زبور کی تلاوت کرتے تو انسان ہی نہیں
چرند،پرند،پھول ،پودے اور پتھر بھی جھوم جھوم جاتے۔نبوت سے پہلے آپؑ کی
آوازبربط کے سنگ ہوا کے دوش پر سفر کرتی ہوئی دور دور تک سنی جاتی تو ماحول
ساکت ہوجاتا۔یہ خاموشی پکار پکار کے آپؑ سے اپنی دوستی کا اظہار کرتی۔آپؑ
کی دشمن قوم میں ایک شخص تھا جالوت جو بہت طاقت ور اور قوی الجثہ تھا۔ایک
دفعہ دونوں قومیں آمنے سامنے تھیں۔جالوت روزانہ اپنے لشکر سے نکل کے بنی
اسرائیل کو للکارتا لیکن کوئی شخص مقابلے کی ہمت نہ پاتا۔جالوت انہیں بزدلی
کے طعنے دیتا ہوا واپس لوٹ جاتا۔حضرت داﺅدؑ اس وقت کم سن بھی تھے اورجالوت
کے مقابلے میں کمزور بھی جب آپؑ نے یہ حال دیکھا تو برداشت نہ کر سکے اور
ایک غلیل اور لاٹھی لے کر غنیم سے مقابلے کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ابھی پہاڑ
سے اترے ہی تھے کہ آواز آئی مجھے اٹھالو جھکے تو دیکھا کہ یہ آواز ایک پتھر
سے آرہی تھی۔ آپؑ نے پتھر اٹھا کر اپنی جیب میں ڈال لیا۔تھوڑی دور چلے تو
پھر آواز آئی آپؑ نے یہ پتھربھی اٹھا کراپنی جیب میں ڈال لیا اس طرح پانچ
پتھروں سے آواز آئی اور آپؑ نے پانچوں پتھرا ٹھا کراپنی جیب میں ڈال
لئے۔مقابلے کے لئے پہنچے تو دیکھا کہ غنیم سر تا پا لوہے کا لباس پہنے ہوئے
ہے۔آپؑ کو دیکھا تو ہنسنے لگا۔ہنستے ہوئے اس کے سر پہ رکھا خود اوپر ہوااور
اس کی پیشانی نظر آنے لگی۔آپؑ نے اﷲ کا نام لے کر غلیل میں وہی پتھر رکھ کر
نشانہ لیاپتھر اس کی پیشانی میں گھستا ہواسر کے پچھلے حصے سے باہر نکل گیا
۔پتھر نے حقِ دوستی ادا کیا اور وہ گوشت کا پہاڑ وہیں ڈھیر ہو گیا۔میرے
خیال کے مطابق دوستی اپنے اندر چند عظیم خوبیاں سموئے ہوئے ہے جو مندرجہ
ذیل ہیں۔
دوستی۔ د :دیانت و: وفا س: سچائی ت: تابعدار ی اور ی: یقین
اگریہ خوبیاں ہیں تو دوستی ہے، اپنائیت ہے، لگاﺅ ہے اور اگر یہ خوبیاں نہ
ہوں تو یہ تعلق محض خاک کا ڈھیر ہے اور کچھ نہیں۔ |