خزاں کے پھول

انسانی شجر پرخزاں کی آمد ایسے ہے جیسے جلتے صحرا میں بارش کی پہلی بوند,جیسے خشک پنکھڑی پر شبنم کا پہلا قطرہ,توبہ کا پہلا آنسو,جیسے پہلی محبت کا احساس,ماں کے کان میں بچے کی پہلی چیخ.,جیسے بھٹکے مسافر کیلیےستارہ سحری,جیسے رات کا آخری پہر,جیسے شب کی دوشیزہ چاندنی کا پیرہن پہنےہو جیسے کلی کی اوٹ میں مہکتی خوشبو ,جیسے کوئلے کی کان میں ہیرے کا مسکن,جیسے عروسی جوڑے کی پہلی خواہش,جیسے سورج کی پہلی کرن ,جیسے بیوہ کی پہلی آہ.خزاں انسانی شجر پر ایسے برگ و بار پیدہ کرتی ہے جو نہ صرف شاخوں بلکہ جڑوں کا بوجھ بھی اٹھاتے ہیں.انسان ایک ایسا دریا ہے جب خشک ہوتا ہے تو سیراب کرتا ہے وہ ایک ایسا گلاب ہے جب شاخ سے ٹوٹتا ہے تو کسی کی آرائش کرتا ہے,وہ مکئی کا دانہ ہے جب جلتاہے تو رزق بنتا ہے,وہ ایک ایسا بانس ہے جب سوکھتا ہےتو توانا ہوتا ہے,وہ ایک ایسا کپڑا ہے جب ٹکڑے ٹکڑے ہوتا ہے تو لباس بنتا ہے,وہ ایک ایسا سایہ ہے جو جتنا بڑ تا ہے اتنا کم ہوتا ہے,وہ روٹی کا ٹکڑا ہے جب ریزہ ریزہ ہوتا ہے تو بھوک مٹاتا ہے,وہ سورج کی طرح اپنا آنگن جلا کر دوسروں کے گھر روشن کرتا ہے,وہ زمین کی طرح ہے جب ریزہ ریزہ ہوتی ہے بیج نمو پاتا ہے,وہ ایک آسمان کی طرح ہے جھکتا ہے تو بغیر سہارے کے بھی گرتا نہیں,جب بھوکا ہوتا ہے تو کھلاتا ہے,جب روتا ہے تو دوسروں کو خوشی دیتا ہے,جب گرتا ہے تو دوسروں کو سہارا دیتا ہے,جب جیتا ہے تو ہر پل موت کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے جب مرتا ہے تو نا ختم ہونے والی زندگی حاصل کر لیتا ہے.انسانی آنگن بغیر خزان کے غریب بچے کی طرح ہوتا ہے جس پر عہد طفلی کی بہار تو ہوتی ہے مگر بچپن کی خزاں کے پکے ہوئے پھل نہیں.وہ ایک ایسا عبادت گزار ہوتا ہے جس کی آنکھ میں پانی تو ہوتا ہے لیکن آنسو نہیں خزاں کی عندلیب عراق دلنشیں سے انسانی ظلمت کدوں کو زندہ رکھتی ہے.مصائب وآلام انسانی روح کی خوابیدہ کلی کو چٹخاتے ہیں دکھوں کی ناؤ انسان کو لہروں سے لڑنا سکھاتی ہے ہر پریشانی انسان کو اس کی کمزوری سے آگاہ کرتی ہے درد کا ساون اس کے عملی اور شعوری بانجھ پن کو زرخیز کرتا ہے .شب غم چشم بینا کیلیے تجلی ہوتی ہے.خوشیوں کی آندھی ہمارے خلوص کو لپیٹ کر تعصب اور حسد کے بیابان میں دفن کر دیتی ہے جبکہ دکھوں کی فضائے بسیط اسے محبت اور خلوص کے بام فردوس پر اکٹھا کرتی ہے.تنہائی کا دکھ انسان کو اپنے جلوت کدے بنانا سکھاتا ہے بے وفائی کا زہر اسے جام الفت اٹھانے پر مجبور کرتا ہے رشتوں کی سولی اسے طائر گردوں کی آزاد فضاؤں سے ہمکنار کرتی ہے.ھمارے دکھ ھمارے اپنے ہوتے ہیں اور ہماری خوشیاں ہماری اپنی نہیں ہوتیں جیسے ہمارا وجود ہمارا نہیں لیکن ہمارا سایہ ہمارا اپنا ہوتا ہے.جب انسانی حیات کا سورج شام کی دلہن کو مہندی لگاتا ہے تو انسان عزلت کے تاریک راستے پر اپنا عکس دیکھتا ہے .اداس یادوں کا گلبانگ اسے اپنی ہستی کے روبرو کرتا ہے انسان خزاں کے در ایاغ پر صبر کے جام جنبش لب سے نوش کرتا ہے.وہ تلخی ایام کو اپنی لوح حیات پر درج کرتا رھتا ہے اور بشاشت کے چراغ لے کر اپنے وجود کے آنگن کو روشن کرتا رھتا ہے.دکھ سکھ سے آتے ہیں اور سکھ دکھ سے جیسے آنسو آنکھ سے آتے ہیں اور بیناںی آنسوؤں سے.پریشانی کا دیا ہمیشہ ٹمٹماتا رہتا ہے کبھی بجھتا نہیں اور خوشیوں کا سورج اپنی روشنی سے ہی بغاوت کر جاتا ہے.خزاں کی حشمت انسانی گلشن کے ماتھے پر دمکتا ہوا ستارہ ہوتی ہے جو بہار کے چند جھونکوں سے کبھی ماند نہیں پڑتا-

خزاں کی دستک انسان کے ان مقفل دروازوں کو کھولتی ہے جو غفلت کے طوفان سے زنگ آلود ہو چکے ہوتے ہیں.انسان جب خزاں کا تختہ مشق بنتا ہے تو اپنی ذات کے ان حصوں کی گرہ کشائی کرتا ہے جن سے پہلے وہ خود لاعلم ہوتا ہے وہ اپنی کشت ویراں پر ایسی آبیاری کرتاہے کہ لہلہاتے ہوئے برگ وبار اس کے وجود بے رنگ کو شگفتگی بخشتے ہیں.خزاں کے پرآشوب شہر میں وہ صلیب وقت پر لٹک کر وہ موتی تلاش کرتا ہے جو اس کی زندگی کو گراں قدر بنا دیتے ہیں .خزاں کے پرخار رستوں پر طلسم ظلمت شب میں اس کو ایسا ذوق تکلم حاصل ہوتا ہے جو شبستان رنگ و بو میں اذان سحری کی طرح گونجتا ہے .. .خزاں کی آتش اس کے تن مردہ کو اس طرح گرماتی ہے جیسے لوہے کو گرما کر زنگ اتارا جاتا ہے پھر اس کا شفاف وجود اپنے آپ میں اپنا عکس دیکھتا ہے.خزاں کے لبادے میں وہ ایسا خرقہ پوش ہوتا ہے جو یدبیضا لیے عالم ہستی کو تابناک کرتا ہے.خزاں کے آتش کدے کی مقدس آنچ اسے کے اندر روحانیت کی پوشیدہ چنگاری کو بھڑکاتی ہے.خزاں کی صبحیں اسے ایسی تازگی بخشتی ہیں جو طلوع آفتاب کے کچھ دیر بعد اوس کے قطرے اڑتے ہی سبزہ گل پر نمودار ہوتی ہے.انسان کی زندگی خون آلود ستیزہ گاہ ہے اسے اگر کامرانی حاصل کرنی ہے تو پھر قلب سلیم اور ذوق سلیم سے اپنے آپ کو زیب تن کرنا ہوگا.کانٹے منزل کو تو دور کر دیتے ہیں لیکن کارواں کے عزم کواور بھی مستحکم کرتے ہیں پھول لمہ بھر کی خوشیاں دے کر یژمردہ ہو جاتے ہیں یا پھر خاک مرقد کے ساتھ خاک ہو جاتے ہیں.خزاں میں پتے خشک نہیں ہوتے بلکہ تجربات اور مشاہدات کی بھٹی میں جل کر کندن بنے ہوتے ہیں جیسے یلغار وقت کھجور کو چھوارا بنا دیتا ہے.عروس زندگی کا حسن اسی راز میں مضمر ہیے انسان بدلتی ہوئی حنا کےرنگوں سے اپنے آپ کوآلود رکھے..
rabnawaz
About the Author: rabnawaz Read More Articles by rabnawaz: 12 Articles with 12991 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.