عامل کامِل اَبُو شامِل قسط ۔17 (طمانچہ )۔

گُذشتہ(۱۶)۔ اقساط کا خُلاصہ۔۔۔

یہ کہانی ہے۔ ایک ایسے نُوجوان کامِل علی کی جِس کے سر سے اُسکے والد کا سایہ بچپن میں ہی اُٹھ گیا۔۔۔ والدہ کی نوجوانی میں بیوگی سے بے شُمار مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔ حالات سے تنگ آکر کامل علی کی بیوہ والدہ پھر سے مولوی رمضان کی دُلہن بن جاتی ہے۔ ۔ کامِل علی کو اپنے ہمسائے چاچا ارشد کی بیٹی نرگس سے بُہت دِلی لگاوٗ پیدا ہُوجاتا ہے۔جُو دھیرے دھیرے مُحبت میں تبدئل ہُوجاتا ہے۔

حالات اُور زمانے کے بار بار ستائے جانے پر کامل علی رُوحانی عملیات کی جانب راغب ہُوجاتا ہے۔ تُو وہ تمام زمانے سے خاص کر چاچا ارشد سے بدلہ لینا چاہتا ہے۔ لیکن بار بار چلہ کاٹنے کے باوجود بھی ناکامی اُسکا مقدر ٹہرتی ہے۔ وُہ ایک بنگالی جادوگر کی شاگردی اِختیار کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ہر بار ایک مَجذوب(بابا صابر) اُسکے راستے میں دیوار کی مانند کھڑا ہُوجاتا ہے۔ اُستاد عبدالرشید کے بار بار سمجھانے پر بھی جب کامل علی عملیات سے باز نہیں آتا۔ تب اُستاد عبدالرشید اُسے ایک اللہ کے ولی ،،میاں صاحب ،، کے پاس بھیجتا ہے۔ لیکن یہاں بھی ناکامی کامل علی کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ اُور وہ خالی ہاتھ ہی اپنے گھر لُوٹ آتا ہے۔

افلاطون نامی ایک نوجوان کامل علی کے گھر میں گُھسنے کی کوشش کرتا ہے ۔ لیکن کامل علی دھکے دے کر اُسے گھر سے نِکال دیتا ہے۔ لیکن جب وُہ دروازے میں کنڈی لگا کر پلٹتا ہے۔ تُو اُسی نوجوان کو اپنے بستر پر دراز دیکھتا ہے۔ افلاطُوں جسکی کُنیت ابو شامل ہے۔ اُسے بتاتا ہے ۔ کہ وُہ ایک جِن زادہ ہے۔ اُور ایک عامِل اُسکے پیچھے پڑا ہے کیونکہ وُہ کافی طاقتور جن ہے۔ افلاطُون پیشکش کرتا ہے کہ اگر کامل علی اُس عامل سے بچانے میں اِسکی مدد کرے تُو،، افلاطُون دُوست بن کر دُنیا کی ہر شئے کو اسکے قدموں میں لاکر ڈال سکتا ہے۔ کامل علی افلاطون کی پیشکش قبول کرلیتا ہے۔ دُونوں جہلم جلباب سے مُلاقات کا پروگرام بنا لیتے ہیں۔ جلباب سے مُلاقات کے بعد ٹیکسی میں سفر کرتے ہُوئے ابو شامل ڈرائیور کی مدد کرتے ہُوئے اُسے ٹیکسی کی رقم قرض میں دینے کی آفر کرتا ہے۔

اَب مَزید پڑھیئے۔۔۔

ابو شامل نے گولف کورس گراؤنڈ آنے پر ٹیکسی سے اُترتے ہُوئے زَمان کو یقین دِلایا کہ۔۔۔ وُہ کل رات اِسی ٹائم اُور اِسی مقام پر اُسکا انتظار کرے گا۔ اِسلئے کل وُہ اپنے ڈاکومینٹس لیکر یہیں آجائے۔ ڈاکومینٹس جمع کروانے کے ایک ہفتے کے اندر اندر اُسے ٹیکسی خریدنے کیلئے مطلوبہ رقم مِل جائے گی۔ زمان نے ابو شامِل کا شُکریہ اَدا کرتے ہُوئے کہا۔۔۔۔ صاحب جی۔۔۔اگر ایسا ہُوگیا تو میں اُور میرے بچے تازِندگی آپکو اپنی دُعاؤں میں ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے۔ زمان کے لہجے سے اِحسان مندی اُور تشکر کے جذبات کا اِظہار ہُورَہا تھا۔۔۔۔

کیا تُم واقعی اُسکی مدد کیلئے جہلم واپس آؤ گے۔۔۔؟ یا یُونہی وقت پاس کرنے کیلئے اُس غریب ڈرائیور کیساتھ کھیل رہے تھے۔۔۔؟ زَمان کے جاتے ہی کامل علی نے استفہامیہ انداز میں ابو شامل کو دیکھتے ہُوئے سوال کیا۔۔۔ نہیں یار میں اُن لوگوں میں سے نہیں ہُوں۔ جو کسی کے جذبات کے ساتھ کھیلتے ہیں یا کِسی کو جھوٹی اُمید دِلاتے ہیں۔۔۔ میں واقعی اُسکی مدد کرنا چاہتا ہُوں اُور اسکے لئے مجھے چاہے جتنی مرتبہ بھی جہلم آنا پڑے میں ضرور آؤنگا۔۔۔اُور ڈاکومینٹس بھی صرف خانہ پُری کیلئے مانگ رَہا ہُوں تاکہ اُسے شک نہ پڑے۔۔۔ جہلم دُوبارہ آنے کا ایک مقصد جلباب کے شوہر کی اِصلاح کا کُچھ سامان کرنا بھی ہے۔ وُہ لاتوں کا بھوت ہے جو صِرف باتوں سے ماننے والا نہیں۔۔۔ اسلئے میں نے اُسکے لئے بھی کُچھ پلاننگ سُوچ کر رکھی ہے۔ کُچھ خوراک تو آج ہی دینی ہے۔۔۔اسلئے جب تم نرگس سے مِلو گے تب میں واپس آکر ارشد کو کُچھ مزہ چکھانے کی کوشش کرونگا۔ ابو شامل نے حتمی لہجے میں جواب دیتے ہُوئے اپنی بات مُکمل کی۔

ویسے یار ایک بات کہوں آج جلباب سے بار بار جھوٹ بولتے ہُوئے میرے تُو اِس سردی میں بھی پسینے چُھوٹ گئے تھے۔ اُوپر سے تُم نے سیالکوٹ کا تذکرہ چھیڑ دِیا۔ ۔۔ کامل علی نے اَبو شامل کو متوجہ کرتے ہُوئے کہا۔۔۔کُچھ نہیں ہُوتا یار۔۔۔ دھیرے دھیرے سب سیکھ جاؤ گے۔۔۔ ابو شامل نے اپنے بالوں سے کھیلتے ہُوئے اپنے ہیر اِسٹائل کو یکسر تبدیل کرڈالا۔۔۔۔ نہیں بھائی میں کوئی پروفیشنل ادکار یا سیاست دان تُو ہُوں نہیں جو بڑے اعتماد سے جھوٹ بولتا چلا جاؤں۔ ویسے بائی دا ۔وے کیا میں پُوچھ سکتا ہُوں۔ کہ یہ سیالکوٹ کا تذکرہ ایویں مذاق میں آگیا تھا گُفتگو کے دُوران ۔۔۔ یا اِس میں بھی کوئی خاص راز چُھپا ہے جناب من۔۔۔ کامل نے سردی کا اِحساس ہُوتے ہی اپنے ہاتھ جیکٹ میں چھپاتے ہُوئے شُوخی سے کہا۔

تُم نے صحیح پہچانا۔سیالکوٹ کا تذکرہ واقعی میں نے ایک سبب سے کیا تھا میرے یار۔ ۔۔مگر میں ابھی تُم کو کچھ نہیں بتاؤنگا۔ بلکہ گھر پُہنچ کر تمہیں اُسکی وجہ بتاؤں گا۔۔ کیونکہ ابھی تُو ہمیں نرگِس کے گھر بھی جانا ہے ۔اُور یہاں کھلے میدان میں سَردی بھی غضب ڈھارَہی ہے۔۔۔نرگِس کا تذکرہ کرتے ہُوئے ابو شامل نے شرارت بھری نظروں سے کامل علی کی جانب دیکھا۔۔۔ کامل علی کے چہرے پر شرم کی وجہ سےکئی رنگ آکر گُزر گئے۔۔۔۔ بڑی شرم آرہی ہے جناب کو۔۔۔۔۔؟ ابوشامِل نے شرارت کرتے ہُوئے کامل علی کی کَلائی کو زُور سے بھینچتے ہُوئے کہا۔۔۔ افلاطُون کلائی تُو چُھوڑ دُو یار۔بُہت درد ہُو رہا۔۔۔ ایسا محسوس ہُورہا ہے۔۔ جیسے کِسی آہنی شکنجہ میں میرا ہاتھ پھنس گیا ہُو۔۔۔! کامل علی نے اپنی خِفت مِٹانے کیلئے بات بنائی۔۔۔۔۔۔ لُو جی چُھوڑ دِیا آپکا ہاتھ۔۔۔ ابو شامل نے یکدم کامل علی کا ہاتھ جھٹکے سے چُھوڑتے ہُوئے کہا۔۔۔ کامل علی اِس غیر متوقع جھٹکے کیلئے قطعی تیار نہیں تھا۔جِس کی وجہ سے وُہ اپنا توازن سنبھال نہیں پایا۔اُور زمین پر ڈھیر ہُوگیا۔۔۔۔ یار یہ کونسا طریقہ ہے ہاتھ پکڑنے اُور چُھوڑنے کا۔۔ کامل علی نے ناراضگی کا اِظہار کرتے ہُوئے کہا۔

بھائی صاحب محبوب کے دیس پُہنچنے کیلئے چُھوٹے مُوٹے جھٹکے تُو برداشت کرنے ہی پڑتے ہیں۔ابو شامِل نے فِضا میں اپنے دُونوں ہاتھ بُلند کرتے ہُوئے انگڑائی لی۔۔۔۔ محبوب کے تذکرے پر کامل علی نے دائیں بائیں دیکھا تو وُہ حیران رِہ گیا۔۔۔۔ گُولف کُورس کا دُور دُور تک نام و نِشان نہیں تھا۔ اب وُہ ایک جگمگاتی شاہراہ پر گُول چُورنگی کے نذدیک کھڑے تھے۔ کامل علی نے اتنی پُررُونق اُور وسیع شاہراہ اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھی تھی۔ یہاں گاڑیاں صرف زمین پر ہی نہیں چل رہی تھیں بلکہ فضا میں معلق سڑک پر بھی بڑی بڑی گاڑیاں رَواں دَواں تھی۔۔۔ کامل علی کے مُنہ سے بے ساختہ نِکلا۔۔۔ یار اَبو شامل یہ کونسی جگہ ہے۔۔۔؟

یہ کراچی ہے میری جان۔۔۔ جِسے روشنیوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔۔۔ اُور یہ فلائی اُوور ہے۔۔۔۔ جِسے تم اتنے غُور سے دیکھ رہے ہُو۔۔۔۔ ابو شامل نے کامل علی کی مُتجسس نگاہوں کا تعاقب کرتے ہُوئے اُسے آگاہ کیا۔۔۔۔ اچھا تُو یہ ہے کراچی۔۔۔۔ یار یہاں کی سڑکیں تُو واقعی بُہت بڑی بڑی ہیں۔۔۔۔ میں نے اُستاد عبدالرشید سے سُنا تھا۔ وُہ بتارہے تھے کہ یہاں آنے والوں پر یہ شہر اپنا سحر طاری کردیتا ہے۔ جُو یہاں ایکبار آجائے وُہ پھر واپس جانے کا نام نہیں لیتا۔۔۔۔

ہاں میرے دُوست یہ شہر کبھی ایسا ہی ہُوا کرتا تھا۔ جیسا ابھی تُم نے بیان کیا ہے۔۔ مگر اب شائد یہ کسی بد نظر کی منحوس نِگاہوں کا شِکار ہُوگیا ہے۔ رُوزانہ بے شمار لُوگ یہاں اندھی گولیوں کا نِشانہ بن جاتے ہیں۔۔۔ گھر سے باہر جانے والوں کا انتظار گھر والے ایسے کرتے ہیں۔۔۔ جیسے وُہ گھر سے باہر نہ گیا ہُو ۔بلکہ مقتل گاہ میں چلا گیا ہُو۔۔۔۔ ابو شامل نے حَسرت و یاس کی مِلی جُلی کیفیت میں تبصرہ کرتے ہُوئے کہا۔۔۔

مگر ہم یہاں آج کیوں آئے ہیں۔ آج تُو ہمیں نرگس کے گھر جانا تھا نا۔۔ کامل علی نے اپنی کلائی میں وقت دیکھتے ہُوئے کہا۔۔ جہاں رات کے پونے دُو بج رہے تھے۔۔۔۔ اُو میرے بُھولے بادشاہ محبوبہ تیری ہے۔ اُور تُجھ ہی کو خبر نہیں کہ آجکل میڈم نرگس صاحبہ اپنے ایک بچے کیساتھ ناظم آباد کے ایک فلیٹ میں رِہتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا مجھے تُو واقعی کوئی خبر نہیں تھی۔۔۔۔ پھر کہاں ہے نرگس کا فلیٹ۔۔۔؟ کامل علی کے لہجے میں بچوں جیسا اشتیاق مُوجود تھا۔۔۔۔۔۔۔ وُہ سامنے والے اپارٹمنٹ کے تھرڈ فلور پر موجود ہے۔۔۔ جا میرے یار مزے کر میں صبح واپس آؤنگا۔۔۔۔ ابو شامل نے کامل علی کو آنکھ مارتے ہُوئے کہا۔۔۔۔۔

نہیں یار ایسے کسطرح چلاجاؤں ۔ وہاں اُسکا شوہر بھی تُو موجود ہُوگا۔ اُور پھر اپارٹمنٹ کا چوکیدار نہیں ہُوگا کیا۔۔۔؟ اُس سے کیا کہوں گا۔۔۔ نہیں تُم ساتھ چلو۔۔۔ بلکہ ایسا کرو مجھے رات بھر کیلئے غائب کردُو۔ کامِل علی نے کُچھ سُوچتے ہُوئے کہا۔۔۔۔۔ اُو بھائی پہلی بات تو یہ ہے کہ تُمہاری نرگس وہاں اپنے شوہر کیساتھ نہیں بلکہ تنہا اپنے بچے کیساتھ رہتی ہے ۔ کیونکہ اُس کے شُوہر نے تیسری شادی کسی شُوبز ڈانسر سےکرلی ہے۔ اُور آجکل موصوف اکثر وہیں پائے جاتے ہیں۔ ۔۔ دُوسری بات یہ ہے کہ وُہ تُمہاری محبوبہ ہے ۔ ہم دُونوں کی مشترکہ نہیں ۔ تیسری بات یہ ہے کہ اِس اپارٹمنٹ میں سیکیورٹی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔۔۔ سیکیورٹی تُو دُولت مندوں کو چاہیئے ہُوتی ہے ۔اُور اِس اپارٹمنٹ میں تو سبھی متوسط طبقہ کے لُوگ رہتے ہیں۔۔ جُو خُود ہی ایک دوسرے کی ٹوہ میں بھی لگے رہتے ہیں۔ اُور ساری رات گپ شپ کی وجہ سے خُود ہی سیکیورٹی کے فرائض بھی انجانے میں ادا کرتے رِہتے ہیں۔ ہاں البتہ میں یہ کردیتا ہُوں کہ تُمہیں نرگس جی کے دروازے کے سامنے کردیتا ہُوں۔ اِتنا کہہ کر ابو شامل نے کامل علی کو ہلکا سا پُش کیا جسکی وجہ سے کامل علی نے خُود کو ایک دروازے کے سامنے پایا۔ کامل علی نے یہاں وَہاں نظریں دُوڑائیں لیکن ابو شامل کہیں بھی نظر نہیں آیا۔۔۔

کامل علی کُچھ لمحات تک اپنی گھبراہٹ پر قابو پانے کی کُوشش کرتا رَہا۔ یہاں تک کہ اُسکی سانسوں کی لے نارمل ہُوگئی۔ اُسے ایک طرف جلد سے جلدنرگس کو دیکھنے کی تمنا تھی۔ تو دوسری طرف یہ خطرہ بھی موجود تھا کہ کوئی اچانک آ نہ جائے۔۔۔ اُور اگر کسی نے پُوچھ لیا کہ میاں رات کے ۲ بجے یہاں کیسے کھڑے ہُو ۔ تو بُہت گڑ بڑ ہوجانے کا اندیشہ ہے۔۔۔۔۔ یہی سُوچ کر کامل علی نے دھڑکتے دِل سے فلیٹ کی ڈور بیل پر ہاتھ رَکھ دیا۔ وُہ چھوٹی چھوٹی بیل بجاتا رَہا۔۔۔۔ چُوتھی پانچویں بیل پر اندر سے کُچھ کھٹر پٹر کی آواز سُنائی دی۔۔۔ کامل علی کا دِل ایک مرتبہ پھر سے زُور زُور سے دھڑکنے لگا۔۔۔ لیکن جونہی نرگس نے اپنی مترنم مگر سخت آواز میں اندر سے پُوچھا کُون ہے۔۔۔۔؟ تُو کامل علی کی خُوشی سے چیخ نِکلتے نِکلتے رِہ گئی۔ اِس آواز کو کامل علی ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں میں پہچان سکتا تھا۔ یہ اُسی کافر اَدا کی آواز تھی۔ کہ جسکو سُننے کیلئے کامل کے کان ایک مُدت سے ترس رہے تھے۔۔۔ جواب نہ مِلنے پر اندر سے پھر نرگس کی آواز بُلند ہُوئی ۔۔۔ کُون ہے۔ بُولتے کیوں نہیں۔۔

میں ہُوں کامل علی۔۔۔۔۔ کامل کے حلق سے پھنسی پھنسی سی آواز نِکلی۔ کُون کامل علی۔۔۔ میں کسی کامل علی کو نہیں جانتی۔۔۔۔ اندر سے دُوبارہ نرگس کی آواز بُلند ہُوئی۔۔۔۔۔ نرگس میں ہُوں کمالا ۔۔۔ تُمہارا پڑوسی۔۔۔۔ کامل علی نے ارد گرد دیکھتے ہُوئے مُناسب الفاظ کا انتخاب کرتے ہُوئے دھیمے لہجے میں جواب دِیا۔۔۔۔۔۔ اندر کُچھ لمحوں کیلئے سکوت قائم ہُوگیا۔۔۔۔ تھوڑی دیر کے بعد دروازے سے ملحق گِلاس وِنڈو میں روشنی کےآٓثار نظر آئے۔۔۔ پھر ایک نسوانی ہَیولا اُس رُوشنی کے درمیان نظر آنے لگا۔۔۔۔۔ جیسے کوئی باہر آنے والے مِہمان کو جانچنے کی کوشش میں مصروف ہُو۔۔ تھوڑی سی خاموش نگاہوں سےجانچ پڑتال کے بعد وُہ نسوانی ہیولا روشنی کے اُس دریچے میں کھو گیا۔۔۔۔دَروازہ کھلنے کی آواز کے ساتھ ہی نرگس کا چہرہ نظر آیا۔۔۔ نرگس کے چہرے پر نِگاہ پڑتے ہی کامل علی کے من آنگن میں چاندنی سی بِکھر گئی۔۔کامل علی بڑے انہماک سے اُسکے سراپے کا جائزہ لینے میں مصروف تھا۔۔جسکی تپش نرگس کے چہرے کو تمتمائے جارہی تھی۔۔۔۔ نرگس کے سراپا میں شادی کے باوجود کوئی خاص تبدئلی واقع نہیں ہُوئی تھی۔ سِوائے اِسکے کہ اُسکی کمر پہلے کے مقابلے میں کُچھ فربہ دِکھائی دے رہی تھی۔۔۔۔ کہو کامل یہاں کیسے آنا ہُوا۔۔۔؟ اُور وُہ بھی رات کی اِس تاریکی میں۔ جبکہ تُم خُوب جانتے ہُو کہ،،اگر کسی نے دیکھ لیا ۔۔۔۔۔تُو۔۔۔۔ میں ایکبار پھر کسی کی نِگاہوں سے گِر سکتی ہُوں۔۔۔۔ نرگس نے کامل کی محویت کو تُوڑتے ہُوئے آہستہ سے کہا۔

کیا اتنی مُسافت طے کر کے آنے والے مُسافر کو اپنے گھر میں بھی نہیں بُلاؤ گی۔۔۔؟ کامل علی نے اُداس لہجے میں نرگس کے چہرے کو دیکھتے ہُوئے کہا۔۔۔ نرگس نے تھوڑے سے تذبذب کے بعد کُچھ سُوچتے ہُوئے کامل علی کے لئے راستہ چھوڑ دِیا۔۔۔ فلیٹ میں داخِل ہُونے کے بعد کامل علی نے فلیٹ کا سرسری سا جائزہ لیا۔۔۔۔ یہ دُو کمروں کا ایک چھوٹا سا گھر تھا۔۔ جِس میں اگرچہ بظاہر کوئی آسائش کا سامان نظر نہیں آرہا تھا۔ لیکن پھر بھی جِس طرح تمام گھر کو قرینے سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا۔ وُہ اہلخانہ کی نفاست و ہُنرمندی کی داستان سُنانے کیلئے کافی تھا۔۔۔

نرگس نے ایک کمرے میں داخل ہُوتے ہُوئے کرسی کی جانب اِشارہ کرتے ہُوئے کامل علی کو بیٹھنے کیلئے کہا۔۔۔ اِس کمرے میں پلاسٹک کی اُس کرسی کے علاوہ ایک سِنگل بیڈ موجود تھا۔۔۔ کامل کے کرسی سنبھالتے ہی نرگس بھی بیڈ پر سِمٹ کر بیٹھ گئی۔ بیڈ کے درمیان میں ایک دُو سالہ بچہ اپنا انگوٹھا مُنہ لئے نیند کی حالت میں مُسکرا رَہا تھا۔۔۔۔۔ یہ میرا بیٹا طارق ہے۔ نرگس نے بچے کی جانب اِشارہ کرتے ہُوئے دھیمے لہجے میں کامل علی کو آگاہی بخشی۔۔۔ بُہت پیارا بچہ ہے ماشاءَاللہ بالکل تُم پر گیا ہے۔ کامل نے بچے کو بغور دیکھتے ہُوئے کہا۔

کامل تُمہیں یہاں نہیں آنا چاہیئے تھا۔۔۔ ہمارے درمیان جو کچھ بھی تھا۔۔ اُسے ختم ہُوئے ایک مُدت گُزر چُکی ہے۔ میں وُہ تمام باتیں ماضی کا قصہ سمجھ کر بُھول چُکی ہُوں۔۔۔ اسلئے میرے خیال میں تُمہیں میرے گھر آتے ہُوئے احتیاط کرنی چاہیئے تھی۔۔۔ میں ایک مرتبہ پہلے اپنے والدین کی نظروں سے گر چُکی ہُوں اُور اب اپنے شوہر کی نِگاہوں سے گرنا نہیں چاہتی۔۔۔ اگر تُم ایک طویل مُسافت طے کرکے میرے شہر سے رات کے اِس پہر میرے گھر نہ آئے ہُوتے تو میں ہرگز تُمہیں اپنے گھر میں داخل ہُونے کی اجازت نہ دیتی۔۔۔ مجھے اِس بات سے بھی غرض نہیں ہے۔ کہ تُم یہاں صرف میرے لئے آئے ہُو۔ یا کراچی کی رُونقوں سے محظوظ ہُونے کیلئے۔۔۔۔ میں تُو بس اتنا چاہتی ہُوں کہ جِس قدر جلد ہُوسکے تم یہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے واپس لُوٹ جاؤ۔۔۔۔

نرگس کی گفتگو کامل علی کے سینے کو برچھی کی طرح چھلنی کئے جارہی تھی۔۔۔ جسکی وجہ سے نہایت رازداری سے اُسکی آنکھیں اَشکوں کو الودع کہہ رہی تھیں۔۔۔ کامل علی سُوچ رَہا تھا۔۔۔ کیا یہ وہی نرگس ہے ۔ جو مجھے دیکھے بِنا چین سے سُو بھی نہیں پاتی تھی۔۔۔ اُور کیا یہ وہی نرگس ہے کہ جِس کو پانے کیلئے وُہ تمام زمانے سے لڑنے کیلئے تیار تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

(جاری ہے)۔

اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے
مجھکو ہر چہرے میں آتی ہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ بُرا لگتا ہے
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1058916 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More