عامل کامِل اَبُو شامِل قسط ۔16(اَبو شامِل ۔یا حاتم طائی )۔

گُذشتہ(۱۵)۔ اقساط کا خُلاصہ۔۔۔

یہ کہانی ہے۔ ایک ایسے نُوجوان کامِل علی کی جِس کے سر سے اُسکے والد کا سایہ بچپن میں ہی اُٹھ گیا۔۔۔ والدہ کی نوجوانی میں بیوگی سے بے شُمار مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔ ایک طرف گھر میں ایسے حالات پیدا ہُوجاتے ہیں۔ کہ،، جسکی وجہ سے کامِل علی چُھوٹی چھوٹی خُوشیوں کیلئے ترس جاتا ہے۔ تُو دوسری طرف معاشرے کے نکمے اُور گندگی سے لِتھڑے ذہن کے مالک اُوباش نوجوان اُسکی والدہ کو حریص نِگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ آئے دِن کے مسائل کی وجہ ایک طرف اُسکی والدہ ہِراساں رِہنے لگی تھی۔ تُو دوسری طرف محلہ کے مولوی صاحب کی زُوجہ کا انتقال ہُوجاتا ہے۔ محلہ والوں اُور مولوی صاحب کی دُو بہنوں کی کوشش سے کچھ عرصہ میں کامل علی کی بیوہ والدہ پھر سے مولوی رمضان کی دُلہن بن جاتی ہے۔ ۔ کامِل علی کو اپنے ہمسائے چاچا ارشد کی بیٹی نرگس سے بُہت دِلی لگاوٗ پیدا ہُوجاتا ہے۔ وُہ اس رشتہ کو کوئی نام نہیں دے پاتا۔ لیکن جوانی میں قدم رکھتے رکھتے اُسے اِحساس ہُوجاتا ہے۔ کہ وُہ صرف دِلی لگاوٗ نہیں ہے۔ بلکہ مُحبت کا رشتہ اُسکے دِل میں اپنی جڑیں کافی گہری بنا چُکا ہے۔

حالات اُور زمانے کے بار بار ستائے جانے پر کامل علی رُوحانی عملیات کی جانب راغب ہُوجاتا ہے۔ اُسکا خیال ہے کہ اگر ایک مرتبہ اُسکے پاس کوئی رُوحانی طاقت آجائے۔ تُو وہ تمام زمانے سے خاص کر چاچا ارشد سے بدلہ لے سکتا ہے۔ لیکن بار بار چلہ کاٹنے کے باوجود بھی ناکامی اُسکا مقدر ٹہرتی ہے۔ وُہ ایک بنگالی جادوگر کی شاگردی اِختیار کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ہر بار ایک مَجذوب اُسکے راستے میں دیوار کی مانند کھڑا ہُوجاتا ہے۔ اُستاد عبدالرشید کے بار بار سمجھانے پر بھی جب کامل علی عملیات سے باز نہیں آتا۔ تب اُستاد عبدالرشید اُسے ایک اللہ کے ولی ،،میاں صاحب ،، کے پاس بھیجتا ہے۔ لیکن یہاں بھی ناکامی کامل علی کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ اُور وہ خالی ہاتھ ہی اپنے گھر لُوٹ آتا ہے۔

کامِل علی مجذوب کی تلاش میں ایک مُقام تک پُہنچتا ہے۔ جہاں اِسے ایک نوجوان کے توسل سے معلوم ہُوتا ہے کہ،، اُس مجذوب کا نام ،، بابا صابر ،،ہے۔ اُور گُذشتہ دَس برس سے کِسی نے بابا صابر کو کسی سے گُفتگو کرتے نہیں دیکھا ہے۔ بابا صابر مُلاقات کے دُوران اُسے بتاتے ہیں کہ فی الحال انکا یہ راز وُہ کسی پر بھی آشکار نہ کرے۔ اُور کسی نادیدہ ہستی کو پکڑنے کیلئے دُوڑ جاتے ہیں۔ افلاطون نامی ایک نوجوان کامل علی کے گھر میں گُھسنے کی کوشش کرتا ہے ۔ لیکن کامل علی دھکے دے کر اُسے گھر سے نِکال دیتا ہے۔ لیکن جب وُہ دروازے میں کنڈی لگا کر پلٹتا ہے۔ تُو اُسی نوجوان کو اپنے بستر پر دراز دیکھتا ہے۔ گھبراہٹ میں کامل علی کا پاوٗں رَپٹ جاتا ہے۔ افلاطُون بروقت سہارا دیکر اُسکی آنکھ ضائع ہُونے سے بچا لیتا ہے۔ جسکے بعد ابو شامل اُسے بتاتا ہے ۔ کہ وُہ ایک جِن زادہ ہے۔ اُور ایک عامِل اُسکے پیچھے پڑا ہے کیونکہ وُہ کافی طاقتور جن ہے۔ افلاطُون پیشکش کرتا ہے کہ اگر کامل علی اُس عامل سے بچانے میں اِسکی مدد کرے تُو،، افلاطُون دُوست بن کر دُنیا کی ہر شئے کو اسکے قدموں میں لاکر ڈال سکتا ہے۔ کامل علی افلاطون کی پیشکش قبول کرلیتا ہے۔ دُونوں جہلم جلباب سے مُلاقات کا پروگرام بنا لیتے ہیں

اَب مَزید پڑھیئے۔۔۔

کامِل علی اپنے بالوں کو سنوارنے میں مشغول تھا۔ تبھی ابو شامِل واقعی ۲ منٹ میں واپس لُوٹ آیا ۔ لیکن اُسے دیکھ کر ہر گز ایسا محسوس نہیں ہُورہا تھا۔ کہ،، وُہ مارکیٹ میں صِرف ۲ مِنٹ گُزار کر آیا ہے۔ اُس کے دُونوں ہاتھ بڑے بڑے شاپر سے لَدے پھندے ہُوئے تھے۔ مسہری کے قریب آکر اُس نے تمام شاپرز کو مسہری پر ڈالتے ہُوئے کامل علی سے کہا۔۔۔۔ یار ذرا نظر مار لینا۔۔۔ کہیں کُچھ رِہ تُو نہیں گیا۔۔۔۔؟

کامل علی ایک ایک شاپر کو کھول کر حیرت سے دِیکھ رَہا تھا۔ ۲ شاپر میں مِٹھائی کے بکس مُوجود تھے۔ ۳ بڑے شاپرز میں زنانہ مردانہ اُور بچکانہ کپڑے بھرے پڑے تھے۔ ۱یک بڑے شاپر میں پھل مُوجود تھے۔ جبکہ ایک چھوٹے شاپر میں سُونے کا ایک خُوبصورت سیٹ مُوجود تھا۔ جِسے دیکھ کر کامل علی نے ابو شامل نے کہا۔۔ کیا تُم جلباب کے گھر اتنا ذیادہ سامان لے کر جاوٗگے۔۔۔۔؟ میں لیکر نہیں جارہا۔۔ بلکہ یہ سامان تُم اپنی جانب سے اپنی بِہن جلباب کو دُو گے۔۔۔ ابو شامِل نے اُسکی بُوکھلاہٹ سے محظوظ ہُوتے ہُوئے جواب دِیا۔۔۔

لیکن ہم یہ تمام سامان لیکر کِس سواری پر جارہے ہیں۔۔۔؟ کامل علی نے تمام شاپرز پر نظر ڈالتے ہُوئے پُوچھا۔۔۔۔ اَب گاڑی تُو تُمہارے پاس ہے نہیں۔ اُور میں ایکدم تُمہیں کروڑ پتی بنا نہیں سکتا ورنہ لُوگوں کو تُم پر شک ہُوجائے گا۔ جسکی وجہ سے تُمہارے لئے مشکلات پیدا ہُوسکتی ہیں۔ اسلئے فی الحال ٹیکسی میں ہی چلتے ہیں۔ ایسا کرو کُچھ شاپر تُم سنبھال لُو باقی کو میں دیکھ لُوں گا۔۔۔ یہاں سے ٹیکسی اسٹینڈ چلتے ہیں وہیں سے جلباب کے گھر چلیں گے۔ ۔۔۔ افلاطُوں نے کامل علی کو جواب دیتے ہُوئے سُوچا۔ اب یہ پھر سے یہ سوال نہ کرڈالے کہ جہلم تک ٹیکسی کا سفر تو بُہت طویل ہُوجائے گا۔۔۔ لیکن کامل علی نجانے کِس خیال میں ڈُوبا تھا کہ اُسکے خیال میں یہ بات ہی نہیں آسکی۔ اُور دونوں گھر سے نِکل کر ٹیکسی اسٹینڈ کی جانب روانہ ہُوگئے۔۔۔

ٹیکسی اسٹینڈ کی جانب جاتے ہُوئے راستے میں ایک اُبھرے ہُوئے سنگ سے کامل علی کا پاوٗں ٹکرا گیا۔ اِس سے پہلے کہ وُہ زمین پر گِر پڑتا ۔ اَبو شامل نے اُسکا بازو تھام لیا۔ کامل علی نے ابو شامل کا شُکریہ ادا کرتے ہُوئے جب اِرد گرد نِگاہ دوڑائی تُو اُس نے خُود کو ایک اجنبی ماحول میں پایا۔ یہ ایک کُشادہ سڑک سے ملحق لِنک روڈ تھا۔ اُور سامنے ایک وسیع گراونڈ کا اِحاطہ نظر آرہا تھا۔۔۔۔ کامل علی کی زُباں سے بے اِختیار نِکلا۔۔۔ یہ ہم کہاں آگئے۔

یہ جہلم کا مشہور گولف کُورس گراوٗنڈ ہے۔ ابو شامِل نے گراوٗنڈ کی جانب اِشارہ کرتے ہُوئے اپنی گُفتگو کا جاری رکھا۔۔ اُور اِس وقت ہم اقبال کالونی کے موڑ ۔۔۔ اُور ایف جی کالج رُوڈ و جی ٹی رُوڈ کے سنگم پر کھڑے ہیں۔۔ افلاطُوں نے کسی مُشاق ٹُورسٹ کی طرح جواب دیتے ہُوئے حسب سابق اپنی عادت کے مُطابق اپنے سر کو ذرا سا خَم کردِیا۔ اگر ہمیں اِسی طرح جہلم میں آنا تھا۔ تُو سیدھے جلباب کے گھر کیوں نہیں گئے۔۔۔؟ کامل علی نے ایک اُور سوال داغتے ہُوئے استفسار کیا۔۔۔۔۔

اُو میرے بُھولے بادشاہ ہر کام کا ایک طریقہ ہُوتا ہے۔ ۔۔۔ ہمیں جلد واپس بھی جانا ہے۔۔۔ اُور جلد واپسی کیلئے کوئی معقول بہانہ بھی تُو ہُونا چاہیئے نا۔۔؟ ابو شامل نے کامل علی کو آنکھ مارتے ہُوئے رُوڈ سے گُزرتی ایک ٹیکسی کو اِشارہ کیا۔۔۔۔ ٹیکسی والے نے نذدیک آنے پر اِن دُونوں کا بغور معائنہ کرتے ہُوئے پُوچھا۔۔۔ کیوں باوٗ جی کِتھے جانا اے۔۔۔؟

یار بس ذیادہ فاصلے تے نیوں جانا اے۔۔۔ وائی کراس توں پنڈ دَادن روڈ تے جیہڑی بلال مسجد آ۔۔۔ بس اُودے نال ای جانا اے۔۔۔ دَس کِنا کرایہ لے گا۔۔۔ ٹیکسی والا ابو شامل کی ٹوٹی پھوٹی پنجابی اُور حلیہ سے اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہُوئے کہنے لگا۔۔۔ باوٗ جی ہُوندے تے تین سُو روپیہ نے پر تُساں دُو سو روپیہ دے دینا۔۔۔۔ یار اللہ نُوں مَن تین کلو میٹر دا سفر بھئ نہیں ہیگا۔ تو اسطرح کر کہ سُو رُوپیئے لے لییں ابو شامل شائد موڈ میں تھا۔ جو اسطرح اپنا وقت ضائع کئے جارہا تھا۔ ۔۔۔۔باوٗ جی چلنا اے تے چلو۔ نیئں تے میرا ٹائم خراب نہ کرو۔۔ ٹیکسی ڈرائیور نے زِچ ہُوتے ہُوئے کہا۔۔۔۔۔ چل یار جسطرح تیری مرضی۔۔۔۔ اَبو شامل نے کامل علی کی پریشانی کو بھانپتے ہُوئے کہا۔۔۔۔

ٹیکسی بِلال مسجد سے عید گاہ کی جانب جاتے ہُوئے ایک مکان کے سامنے ٹہر گئی۔۔۔۔ ابو شامل نے ٹیکسی والے کو ایک ہزار کا نُوٹ دیتے ہُوئے کہا،، ہمیں دُو گھنٹے کے بعد واپس جی ٹی رُوڈ جانا ہے۔ اگر تُم دُو گھنٹے انتظار کرلُو۔ تُو یہ ایک ہزار کا نُوٹ تُمہارا ہُوسکتا ہے۔۔۔؟ ٹیکسی والے کی ایک ہزار رُوپیہ کا نُوٹ دیکھ کر باچھیں کِھل اُٹھیں۔ ۔۔۔ لیکن دوسرے ہی لمحے اُس نے مُرجھائے ہُوئے چہرے کے ساتھ کہا۔۔ نہیں باوٗ جی مجھے اپنے بچے سے مِلنے کیلئے اسپتال جانا ہے۔ میں دُو گھنٹے یہاں آپکا انتظار نہیں کرسکتا۔۔۔کیوں کیا ہُوا ہے تُمہارے بیٹے کو۔۔۔؟ ابو شامل کے اِ س سوال پر ڈرائیور نے مُرجھائے ہُوئے لہجے میں فقط اِتنا ہی کہہ پایا۔۔۔ شائد حلق کا کینسر۔۔۔ بڑا منع کرتا تھا کہ،، پُتر نہ کھایا کر یہ گُٹکے شُٹکے۔ ۔۔ مگر اُس نے کدی میری گَل نئیں مَنی۔۔۔۔

اچھا یہ تُو کرسکتے ہُو کہ بچے سے مِل کر ۲ گھنٹے بعد واپس آجاوٗ ۔۔۔ ابو شامل نے تجویز پیش کرتے ہُوئے کہا۔۔۔ابو شامل کی تجویز سُن کر ٹیکسی ڈرائیورنے حامی بھرلی۔۔۔ ۔ ٹیکسی ڈرائیور جانے لگا۔ تو ابو شامل نے مزید پانچ ہزار روپیہ اُسکی جیب میں ٹھوستے ہُوئے کہا۔ ۔۔۔ یار اِن پیسوں سے میری طرف سے میرے بھتیجے کیلئے کُچھ لے جانا۔۔۔۔ ٹیکسی ڈرائیور شائد کُچھ ذیادہ ہی مجبور تھا۔ اسلئے اُس نے خاموشی سے وُہ رقم قبول کرلی۔ البتہ اُسکی آنکھوں میں آئے تشکر کے آنسو کامل علی کی نظروں سے بھی بچ نہیں پائے۔۔۔

دروازے پر تیسری دستک دینے کے بعد اندر سے جِلباب کی آواز اُبھری۔ کُون ہے بھائی۔۔۔۔؟ راشد گھر پر نہیں ہے۔۔۔۔ جِلباب کی آواز سُن کر کامل علی سے نہ رَہا گیا اُس نے پُکار کر جواب دیا۔۔۔ بِہن دروازہ کُھولو۔۔۔ میں ہُوں تُمہارا بھائی کامل علی۔ ۔۔ کامل کی آواز سُنتے ہی جلباب نے لپک کر دروازہ کھول دِیا۔۔۔۔ اُور نجانے کیسی بے اختیاری تھی۔ جسکی وجہ سے جلباب کامِل علی کے اندر داخل ہُوتے ہی اُس سے کامل بھائی کہہ کر لِپٹ گئی۔۔۔ اُسکی حالت ایسی ہی تھی ۔ جیسے کسی کو تپتے صحرا میں نخلستان نظر آگیا ہُو۔۔۔ یا جیسے۔۔۔۔۔ کِسی پیاسے کو پانی کے ایک قطرے کی خُواہش کرتے کرتے دَریا دِکھائی دے جائے۔۔۔۔ وُہ اگرچہ خُود کو بُہت سنبھالے ہُوئے تھی۔۔۔۔ لیکن اُسکا لہجہ چغلی کھارَہا تھا۔۔۔ کہ وُہ بابل کے آنگن سے آئے مہمان کا مُدتوں سے انتظار کررَہی تھی۔۔۔ جلباب کا جی چاہ رَہا تھا کہ وقت تھم جائے اُور اپنے بھیا کے سینے پر سر رکھے یُونہی اپنے بابُل کے صِحن کی مٹی کی خُوشبو کو مِحسوس کرتی رہے۔۔۔۔ یکایک اُس کی نِگاہ ابو شامِل پر پڑی تو ایک اجنبی کو اتنے انہماک سے دُو بہن بھائی کے قریب دیکھ کر سنبھلتے ہُوئے چُونک کر کامل علی سے دریافت کرنے لگی۔۔۔ کامل بھائی یہ کُون آپ کے ساتھ آئے ہیں۔۔۔؟

کامل علی اِس سوال کیلئے شائد ذِہنی طُور پر تیار نہیں تھا۔۔۔ ٹیکسی میں سَوار ہُونے سے قبل اَبو شامل نے خُود ہی کہا تھا۔ کہ وُہ جلباب کے سامنے نہیں آنا چاہتا۔۔۔ اِس لئے وُہ اِسے ساتھ نہیں دیکھ پائے گی۔۔۔۔ لیکن وُہ ابو شامل کو دیکھ پارہی تھی۔ اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ ابو شامل نے پوشیدگی کی چادر نہیں اُوڑھی تھی۔۔۔۔ کامل علی کی سمجھ میں اُور تُو کچھ نہیں آیا۔ بس وُہ اِتنا ہی کہہ پایا۔ یہ رفیق صاحب ہیں۔ اُور بابا جان کے شاگرد ہیں۔۔

اَبو شامِل نے کامل کی گھبراہٹ کو دیکھ کر بات سنبھالتے ہُوئے کہا۔۔۔ دراصل میں مولوی صاحب کا شاگرد ہُونے کیساتھ ساتھ اُنکا بزنس پارٹنر بھی ہُوں۔۔۔ مولوی صاحب نے کُچھ رقم میرے کاروبار میں لگائی تھی۔ جُو بڑھتے بڑھتے ایک معقول رقم میں تبدئل ہُوچُکی ہے۔۔۔۔میں اب مُلک سے باہر جانا چاہتا ہُوں۔۔۔۔ اُور مجھے چند دِن قبل ہی مولوی صاحب کے انتقال کی خبر مِلی تھی۔۔۔۔ بڑی مشکل سے کامل صاحب کا پتہ چلا ۔۔۔ یہ جہلم آرہے تھے۔تُو میں بھی ضد کرکے انکے ساتھ جہلم چلا آیا۔۔۔۔۔ اب آپ مجھ سے یہ رقم لے کر مجھے اِس فرض سے سبکدوش کردیں۔ اتنا کہنے کے بعد ابوشامِل نے اپنے پرس سے چار چیک ایک ایک لاکھ رُوپیہ مالیت کی رقم کے جلباب کی جانب بڑھا دیئے۔۔۔۔

جلباب اِن چیکوں کو تھامتے ہُوئے جھجک رہی تھی۔۔۔۔ کیونکہ یہ سب کُچھ جلباب کو بُہت عجیب سا لگ رَہا تھا۔۔۔کیونکہ نہ جلباب نے کبھی اِس اجنبی انسان کو پہلے دیکھا تھا۔۔۔۔ اُور نہ ہی مولوی صاحب نے کبھی اُسے یہ بات بتائی تھی کہ،، اُنہوں نے کوئی رقم پس انداز کرکے کاروبار میں لگائی ہُوئی ہے۔۔۔۔۔ کامِل علی نے وُہ تمام چیک ابو شامل کے ہاتھ سے لیکر جلباب کو تھماتے ہُوئے کہا۔۔۔ میری بہن اپنی رقم لینے میں کیسی جھجک۔۔ اِس رقم پر صرف تُمہارا حق ہے۔۔۔ اِسے احتیاط سے سنبھال کر رَکھ لو۔ چاہو تُو اپنا اکاونٹ کھلوا لُو۔۔۔ یا چاہو تو اپنے بچوں کے لئے انہیں محفوظ کرلو۔ ویسے راشد بھائی اُور سفینہ پھپوکہاں ہیں۔۔۔؟ کامل علی نے گھر میں یہاں وَہاں نِگاہیں دوڑاتے ہُوئے ابو شامل کے ہاتھ سے شاپر لیکر بیڈ کی سائڈ میں پڑی میز پر رکھتے ہُوئے کہا۔۔۔

سفینہ پھپو کے انتقال کو تُو ایک برس سے زائد کا عرصہ گُزر چُکا ہے ۔۔۔۔ اُور وُہ شہر سے باہر گئے ہُوئے ہیں شائد ایک دُو دِن میں واپس آجائیں۔۔۔ ویسے آپ دُوچار دِن تو رُکیں گے ہی ۔۔۔تب تک شائد وُہ بھی واپس آجائیں۔ جلباب نے اپنے لہجے کو حتی الامکان نارمل بناتے ہُوئے جواب دیا ۔۔۔ لیکن جلباب کے لہجے میں چھپی بیچارگی کو کامل کیساتھ ساتھ ابو شامل بھی محسوس کرگیا۔

نہیں جلباب مجھے آج ہی واپس جانا ہے۔ دراصل کاروبار کے سلسے میں مجھے لاہور میں آج رات ایک صاحب سے مُلاقات کرنی ہے۔۔۔ اُور کل مجھے ملتان جانا پڑے گا۔۔۔۔ کامل علی نے بات بناتے ہُوئے کہا۔۔۔ اُور آپ سیالکوٹ بھی تُو جانے کا تذکرہ کررَہے تھے۔ ابو شامل نے بیچ میں لقمہ دیتے ہُوئے کہا۔۔۔ ہاں دیکھو ملتان سے کب تک فارغ ہُوتا ہُوں۔۔۔ پھر سیالکوٹ چلا جاوٗں گا۔۔ کامِل علی نے ابو شامِل کو گھورتے ہُوئے جواب دِیا۔۔۔۔

بھائی لگتا ہے ماشاءَاللہ آپ کا بزنس خُوب چل رہا ہے۔۔۔۔ مگر بھائی آپ کے بزنس کے لئے سرمایہ کہاں سے آیا۔۔۔؟ جلباب کے اِس سوال نے ایکبار پھر کامل علی کو چکرا کر رکھ دیا۔۔۔ وُہ سُوچنے لگا۔۔۔۔ واقعی بُزرگ سچ کہتے ہیں۔۔۔ کہ،، جھوٹ کے پاوٗں نہیں ہُوتے۔۔۔ میں نے اماں والا مکان بیچ دِیا ہے۔ اُور عبدالرشید نامی اپنے سابقہ سیٹھ کے ساتھ پارٹنر شپ کرلی ہے۔ کامل علی نے پھر جھوٹ کا سہارا لیتے ہُوئے سُوچا اگر جلباب نے مزید ایک دُو سوال اُور کردئیے تو وُہ مَزید جُھوٹ نہین بُول پائے گا۔۔۔ کامل علی جلد از جلد جلباب کے گھر سے نِکل جانا چاہتا تھا۔ لیکن وُہ بضد تھی کہ کم از کم وُہ کھانا کھائے بِنا نہیں جاسکتا۔۔۔ کامل علی کو ناچار جلباب کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑگئے۔ کھانے سے فارغ ہُونے کے بعد کامل علی نے جلباب سے اِس وعدے کے ساتھ اِجازت چاہی۔ کہ وُہ وقتاً فوقتاً آتا رہے گا۔۔۔ کامل علی جانتا تھا کہ جلباب کی دِلی خُواہش یہی ہُوگی کہ میں مزید یہاں رُک جاوٗں۔۔۔ لیکن ابو شامِل اُسے بار بار اشارے کِنایئے میں چلنے کی درخواست کررہا تھا۔

گھر سے نکلنے کے بعد کامل علی کی نِگاہیں ٹیکسی ڈرائیور کو تلاش کرنے لگیں۔ لیکن وُہ اِسے دُور دُور تک کہیں نظر نہیں آیا۔۔۔ یار لگتا ہے وُہ ڈرائیور گھبرا گیا کہ کہیں تُم اُس سے رقم واپس نہ مانگ لُو۔۔۔ کامل نے شرارت بھرے لہجے میں ابو شامل کے کان میں سرگُوشی کرتے ہُوئے کہا۔۔۔ نہیں یار۔ تُم غلط سُوچ رہے ہُو۔۔ دیکھ لینا وُہ ابھی آجائے گا۔۔۔ اُور واقعی ابو شامل کا جُملہ مکمل ہُوتے ہی اُنہیں دُور سے ایک گاڑی کی ہیڈ لایٹ نظر آئیں ۔ جُو انہی کی جانب بڑھی چلی آرہی تھی۔۔۔
وُہ ٹیکسی ڈرائیور واپس آگیا تھا۔ اُور اب اسکا چہرہ پہلے کے مُقابل کافی پرسکون نظر آرہا تھا۔۔۔ دُوران سفر ابو شامل نے اُسکے بیٹے کی خیریت دریافت کرنے کے بعد جب اُس سے اُسکا نام اُورٹیکسی کی ملکیت کے متعلق سوال کیا۔ تُو ڈرائیور نے اپنا نام زَمان بتاتے ہُوئے کہا کہ اِ س ٹیکسی کا وُہ صرف ڈرائیور ہے۔۔۔ اُور اِس ٹیکسی کا مالک بُہت جلد یہ ٹیکسی فروخت کرنے والا ہے۔ اُسکے بعد مجھے کوئی دوسری ٹیکسی دیکھنی پڑے گی۔ جِسے چلا کر اپنے بچوں کا پیٹ بھر سکوں۔۔۔ یار تُم یہ ٹیکسی خرید کیوں نہیں لیتے۔۔۔ ابو شامِل نے بڑی بے نیازی سے مفت مشورہ دیتے ہُوئے کہا۔۔۔

صاحب کیوں مَذاق کرتے ہیں۔۔ یہاں بچوں کو کھلانے کے لالے پڑے ہیں۔ اُور آپ پانچ ساڑھے پانچ لاکھ کی گاڑی خریدنے کی بات کررہے ہیں۔ زَمان نے اُداسی سے کہا۔۔۔۔ اگر رقم نہیں ہے تُو کہیں سے قرض حاصل کیوں نہیں کرلیتے ابو شامل کے مفت مشوروں کی پٹاری کُھل چُکی تھی۔ صاحب۔۔ مجھ جیسے غریب کو بھلا کوئی کیوں اتنی بڑی رقم اُدھار دے گا۔۔۔ زَمان کے لہجے میں اُداسی کیساتھ حسرت بھی دَر آئی تھی۔ ۔۔اگر تُم چاہو تُو اتنی رقم میں تُمہیں ۲ دِن میں دِلوا سکتا ہُوں۔ اُور وُہ بھی معمولی خانہ پُری کاغذات میں کرنے کے بعد۔۔۔ بس شہر کے ۲ معزز افراد کی ضمانت پر۔۔ اُور مزے کی بات یہ ہے کہ تُمہیں رقم لُوٹاتے ہُوئےکوئی اضافی رقم بھی ادا نہیں کرنی پڑے گی۔ اگر کوئی بھی ضمانت دینے والا نہ مِلے تب بھی کوئی ٹینشن کی بات نہیں۔ ہم دُونوں بھی معززین میں ہی شُمار کئے جاتے ہیں۔۔۔ ابو شامل نے اپنی اُور کامل کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے کہا۔۔۔ابو شامِل کی اِس بات پر جہاں زمان کی باچھیں کِھلی جارہی تھیں۔ وہیں حیرت سے کامل علی کا مُنہ کُھلا کا کھلا رِہ گیا۔۔۔ کامِل علی سُوچنے لگا یہ جن زادہ ہے۔۔۔ یا حاتم طائی کی رُوح۔۔۔۔۔ جو ہر ایک کو نوازتا ہی چلا جارہا ہے۔۔۔ جبکہ زمان ڈرائیونگ کرتے ہُوئے سُوچ رَہا تھا کہ،، یہ دُونوں انسان ہیں یا فرشتے۔۔۔؟


پھر دَرد بڑھ رَہا ہے پھر نیند کی خُواہِش
ہُوئی دِل میں پِھر سے پیدا تیری دِید کی خُواہش

تیری رَاہ کے خَار سارے ۔۔۔ پَلکوں سے اپنی چُن لُوں
مجھے پا کے تیرے مَن میں۔۔ نہ رہے مَزید خُواہش
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1095615 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More