الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف
سے انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں اور آزاد اُمیدواروں کو
باقاعدہ انتخابی نشانات الاٹ ہوتے ہیں مگر لوٹا بیچارہ ہمیشہ سے ہی
نظرانداز ہوتا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ انتخابی نشان سے زیادہ ایک
رویہ بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی نشانات کی فہرست سے
”لوٹے“ کی رضاکارانہ ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا ہے اور اب آئندہ ہونے والے
ممکنہ انتخابات میں لوٹے کا انتخابی نشان کسی بھی سیاسی جماعت یا آزاد
اُمیدوار کو نہیں ملے گا۔اس فیصلے پر یقینا بہت سے ”سیاسی لوٹوں“ نے بھرپور
جشن منایا ہوگا لیکن برتن والے ”اصلی لوٹے“ اپنے پیٹی بھائی کے ساتھ ہونے
والی اس ناانصافی پر سراپا احتجاج ہیں اور الیکشن کمیشن سے مطالبہ کرتے ہیں
کہ وہ بے شک بلی، بھنڈی، گلدان اور پشاوری چپل وغیرہ کو فارغ کر دے مگر
”لوٹے“ کی ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس لے۔اصلی لوٹے یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ
اگر الیکشن کمیشن اپنے فیصلے پر نظرثانی نہیں کرتا تو پھر انصاف کا تقاضا
یہ ہے کہ وہ ایسی اصلاحات کرے کہ آئندہ کوئی بھی سیاست دان ”لوٹا“ نہ بن
سکے ورنہ یہ یکطرفہ کارروائی برتن والے اصلی لوٹوں کے ساتھ ناانصافی سمجھی
جائے گی۔
پاکستان میں لوٹے اور سیاست دانوں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سیاست
میں لوٹا وہ ہوتا ہے جو ضرورت پڑنے پر ”قوم کے وسیع تر مفاد“ میں اپنی
پارٹی کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر عوام کی ”خدمت“ کرتا ہے۔ یہ اندرون خانہ
”مک مکا“ کرکے اپنی پارٹی چھوڑ دیتا ہے اور دوسری پارٹی میں چلا جاتا ہے۔
لوٹا ہمیشہ گھومتا رہتا ہے کبھی اِدھر آتا ہے کبھی اُدھر جاتا ہے۔ بحرِ
سیاست کے کئی لوٹے ”غوطہ خور“ ہوتے ہیں اور اُن کا کوئی پتہ نہیں چلتا کہ
کِدھر ڈوبے کِدھر نکلے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہماری سیاسی پارٹیوں کے اندر لوٹے
ہی لوٹے نظر آتے ہیں۔ لوٹا بطورِ برتن مذکر ہے، کیونکہ لوٹا ساز فیکٹریوں
اور کمہاروں نے آج تک صرف لوٹے ہی بنائے ہیں کبھی کوئی لوٹی نہیں بنائی
البتہ ہماری سیاست میں اس کی مؤنث اصطلاح ”لوٹی“ بھی ایجاد ہو گئی ہے اور
اکثر خواتین ارکان ایک دوسرے کو لوٹی کہہ کر دل کی بھڑاس نکالتی رہتی ہیں۔
الیکشن کے موقع پر ہر پارٹی لوٹوں کی تلاش میں رہتی ہے اور دبی آواز میں
کہہ رہی ہوتی ہے کہ ”لوٹے حاضر ہوں“ اور یہ بھنک پاتے ہی آواز کی طرف چل
پڑتے ہیں اور اگر ان کو اپنی قلابازیوں کا مناسب اور منہ مانگا معاوضہ جیسے
کہ وزارت وغیرہ نہ ملے تو وہ اگلے الیکشن سے پہلے ہی دوبارہ ”لوٹے“ بن جاتے
ہیں مگر خود لوٹا کہلانا پسند نہیں کرتے۔
ہمارے ہاں لوٹے کے انتخابی نشان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن
گزشتہ انتخابات میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کے صوبائی حلقہ سے ایک آزاد اُمیدوار نے
بڑے فخر سے ”لوٹا“ بطورِ انتخابی نشان حاصل کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ
موصوف گوجرہ کی معروف روحانی شخصیت بابا جی نواب دین عرف لوٹے والی سرکار
کے مرید ہیں اور اس نسبت سے خصوصی طور پر ”لوٹے“ کا انتخابی نشان حاصل کیا۔
اس عزت افزائی پر اصلی برتن والے لوٹوں نے بھرپور جشن بھی منایا مگر بعد
میں جیسے ہی موصوف قاف لیگ کے اُمیدوار کے حق میں دستبردار ہوئے تو ساتھ ہی
اِن لوٹوں کا جشن ماتم میں بدل گیا اور لوٹے بیچارے اس دستبرداری کو اپنے
خلاف ہونے والی سازش کا حصہ سمجھنے لگے۔ یہ کتنی ناانصافی ہے کہ ہماری
سیاسی جماعتیں خود ”لوٹے“ تو وافر مقدار میں اکٹھے کر لیتی ہیں مگر لوٹے کا
انتخابی نشان لینا اپنی توہین سمجھتی ہیں۔
ہر سیاسی پارٹی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ سیاست بھی اپنی، حکومت بھی اپنی،
اپوزیشن بھی اپنی اور عدالت بھی اپنی ہو۔ جب ایسا ممکن نہیں ہوتا اور اپنی
حکومت گرتی نظر آتی ہے تو پھر وہ پارٹی ان لوٹوں کا سہارا لینا شروع کر
دیتی ہے۔ لوٹے بھی اس انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ کب انہیں پکارا جائے
گا۔ حکومت کو ئی بھی ہو، آمریت ہو یا جمہوریت لوٹے اپنی جگہ آسانی سے بنا
لیتے ہیں۔ جن کے پاس وافر مقدار میں ”نوٹوں کی گڈیاں“ ہوتی ہیں ان کے پاس
لوٹوں کی بھی فوج ہوتی ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں سیاست
دان لوٹا بنے بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس ملک میں ہمیشہ لوٹے کی
سیاست رہی۔ سچ تو یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں لوٹوں سے بھری پڑی ہیں جبکہ
آزاد اُمیدوار بھی جیتنے کے بعد ”لوٹا“ ہی بنتے ہیں۔ ایسے میں لوٹے کو
سیاست سے ریٹائر کرنا یقینا اس برتن کے ساتھ ناانصافی ہے۔ ہماری سیاست میں
جس تیزی سے لوٹا ازم فروغ پا رہی ہے اس سے یہ خدشہ تھا کہ کہیں برتن والے
اصلی لوٹے پارلیمنٹ ہاﺅس کا نام ”لوٹا ہاﺅس“ میں تبدیل کرنے کا مطالبہ نہ
کر دیں۔ شاید اسی ڈر سے الیکشن کمیشن نے لوٹے کو انتخابی نشانات کی فہرست
سے خارج کر دیا ہے۔ |