ہر وہ چیز جو ہمارے حصار دامن
میں ہے اجنبی ہے اور ہر وہ چیز جو ہمارےشعور آنچل سے دور ہے ہمارے قریب تر
ہے.جو سامنے ہے اجنبی ہے جو پوشیدہ ہے شناسا ہے.ہر انسان اپنے آپ سے اجنبی
ہے مگر اپنے جیسے بہت سے انسانوں سے روشناس ہے.ہر رنگ کے پیچھے ایک رنگ
ہوتا ہےاور وہی اصل رنگ ہوتا ہےجس رنگ سے ہم آشنا ہیں بلبل اس سے اجنبی
ہوتی ہے اور جو رنگ بلبل کو گنگنانے پر مجبور کرتا ہے ہم اس سے اجنبی
ہیں.اجنبت اور شناسائی کا مسکن ایک دوسرے سے متصل ہوتا ہےیہ ایک ہی زندگی
کے دو پہلو ہیں اگر ہم زندگی کو سانسوں کی آب جو سمجھیں تو اجنبیت ہے اور
بحر بیکراں سمجھیں تومعرفت ہے.اجنبیت کا سفر مکان سے لا مکان کیطرف ہوتا
ہےاور شناسائی کا سفر لا مکان سے امکان کی طرف ہوتا ہے.ہر اجنبی چیز کشش
رکھتی ہے جتنی قریب ہو اتنی ہی دور ہوتی ہے.اجنبیت کم کرنے سے زیادہ ہوتی
ہے اور زیادہ کرنے سے کم ہوتی ہے-
انسان اپنے آپ سے ساری زندگی ایسے اجنبی رہتا ہے جیسے یتیم بچہ ماں کے پیار
سے.انسانی قوس وقزح کی جھلملاہٹ اجنبت کے بادلوں سے ڈھکی رہتی ہے.زندگی
تلاطم خیز موجوں کےشوروغل کا نام ہے ایسی موجیں جو ساحل سے ٹکراتے ٹکراتے
خود اپنا وجود تباہ کر دیتی ہیں.زندگی کے گرداب میں بہت سی موجیں اپنے آپ
سے اجنبی ہوتی ہیں.ہمارے اپنے وجود سے نکلنے والی بہت سی آوازوں سے ہم
اجنبی ہوتے ہیں.ہمارے بہت سے خواب اوربہت سی تبریں ہم سے اجنبی ہوتی
ہیں.زندگی اور موت کا آپس میں جسم اور روح کا رشتہ ہوتا ہے لیکن موت ہمیشہ
زندگی کیلیے ایک اجنبی سی چیز ہوتی ہے.زندگی کاسفر اجنبی راستوں سے ہمکنار
ہوتا ہے اگر منزل ملے بھیی تو انسان سراںے سمجھ کر آگے کی طرف چل
پڑتاہے.اگر انسان اپنے آپ سے اجنبیت ختم کر کے شناسائی حاصل کر لے توکائنات
اپنے بال وپر کھول کر اس کے سامنے آشکار ہو جائے گی.شب فردہ اور شب دوش اس
کے سامنے صبح روشن بن کر نمودار ہونگے-
رشتے بھی اجنبی ہوتے ہیں.پل بھر میں بدل جا تے ہیں بعض اوقات جو مدتوں پاس
رہتے ہیں اجنبی ہوتے ہیں اور بعض اوقات جو صرف ایک بار ملے ہوں اتنے اپنے
ہو جاتے ہیں کہ جیسے ان سے کوئی صدیوں کا رشتہ ہو وہ رگوں میں خون کی طرح
دوڑتے ہیں.کچھ رشتے اتنے شناسا ہو جاتے کہ اندرہی اندر پرانے ہوتے رہتےہیں
اور ان کا انتظار ہر وقت رہتا ہے وہ آکر چلے بھی جاتے ہیں لیکن ان کا
انتظار ختم نہیں ہوتا.محبت کے موسم بھی اجنبی ہوتے ہیں کب خزاں کا آنچل
اوڑھ لیں پتا ہی نہیں چلتا.محبت سے جتنی ہی شناسائی حاصل کر لیں اتنی ہی
اجنبیت آشکار ہوتی ہے.پھول بھی کانٹوں سے اجنبی ہوتےہیں ایک ساتھ ایک جگہ
اور ایک ہی وقت میں اپنے اپنے رنگوں کا منظر پیش کرتے ہیں لیکن ایک دوسرے
سے اجنبی ہوتے ہیں دونوں کے راستے اور منزلیں الگ ہوتی ہیں.اتنے اجنبی ہوتے
ہیں کہ بعض اوقات پھول کانٹوں کو تنہا چھوڑ کر کسی کی زینت بن جاتے
ہیں.باغبان اور گلشن کا تعلق بھی اجنبیت کا ہوتا ہے.وہ باغبان جو پھولوں کو
بچوں کی طرح پالتا ہے لیکن جب خوشبو دینے لگتے ہیں تو ان سے اجنبی ہو جاتا
ہے.سمندر اور ساحل بھی آپس میں اجنبی ہوتے ہیں وہی ساحل جو لہروں کو اپنے
دامن میں سمیٹے رکھتا ہے لیکن جب وہی لہریں اپنے جوبن پر آتی ہیں تو ساحل
سے اجنبی ہو جاتی ہیں اور ساحل کو اپنے تھپیڑوں سے ریزہ ریزہ کر دیتی ہیں.
انسان دنیا میں اجنبی بن کر رہے تو نام پاتا ہے شناسا بن کر رہے توگمنام
ہوجاتا ہے.بہت سی اجنبی باتیں ہمارے لا شعور میں پہلے سے ہی موجود ہوتی ہیں
جو تا عمر ہم سے اجنبی رہتی ہیں.جسم اورروح کا رشتہ اجنبیت کے دھاگے سے
بندھا ہوتا ہے جسکے دونوں سرے ایک دوسرے سے اجنبی ہوتے ہیں کسی پل ٹوٹ
جاںیں کوئی خبر نہیں ہوتی.دل بھی جسم میں اجنبیوں کی طرح کام کرتاہے جسم کو
بتاںے بغیر ساتھ چھوڑ دیتا ہے.ہر رشتہ اجنبت پر قائم ہے چاہے وہ انسان کا
انسان سے ہو,انسان کا کائنات سے ہو یا کائنات کا اپنے ہی مناظر سے ہو.ہماری
اجنبت ہمیں خدا سے شناسا کرتی ہے.اجنبی انسان اجنبی زندگی سے اس طرح ملتا
ہے جیسے دشت میں بھٹکے مسافر کسی منزل کا تعین کر لیں.انسان جب اس دنیا میں
آتا ہے تو اجنبی ہوتا ہے جب جاتا ہے تو اجنبیت کا لباس اوڑھ کر جاتا ہے- |