عورت کے بار ے میں دنیا کی ہر قوم کے عمومی خیالات کم و بیش ایک ہی جیسے
فرسودہ ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ باقی قومیں وہ کہتی ہیں جو انکے صحیفوں میں
لکھا ہے جبکہ ہم وہ نہیں کہتے جو قرآن میں لکھا ہے۔
توریت میںلکھا ہے کہ آدم اپنی تنہائی سے اداس رہنے لگا تھا لہذا خدا نے اس
کی پسلی سے حوا( یہ لفظ قرآن میں نہیں) کو پیدا کیا تاکہ وہ اس کا دل
بہلاتی رہے(پیدائش 2/21-25) عورت ابلیس کا پیکر ہے کیونکہ اسی نے آدم کو
جنت سے نکلوایا(پیدائش3/8-13)۔ انجیل میں بھی یہی کچھ لکھا ہے لیکن قرآن اس
کی تردید کرتے ہوئے ایک طرف تو یہ بتاتا ہے کہ جس طرح عورت کو پیدا کیا گیا
بالکل اسی طرح مرد کو بھی پیدا کیا گیا(1/النساﺀ)اور دوسری طرف جنت سے
نکالے جانے کے لیے عورت اور مرد (دونوں) کو برابر کا قصور وار ٹھہراتا
ہے(36!البقرۃ)۔
قرآن کے مطابق سیرت و کردار کا کوئی ایک گوشہ بھی ایسا نہیں جس میں عورت
اور مرد ہم مقام و ہم قدم نہ ہوں (35 !الاحزاب)اسی لیے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم مرد اورعورت کی مساوات کے اس قدر قائل تھے کہ( حضرت عائشہ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کے بقول) ازواجِ مطہرات کے کام اپنے ہاتھ سے کیا کرتے تھے (بخاری)
۔ حضوراکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس کی بیٹی ہو وہ اسے زندہ
درگور نہ کرے، نہ اُسے ذلیل کرے نہ اپنے بیٹے کو اُس پر ترجیح دے اﷲ تعالیٰ
اُسے جنت میں داخل فرمائے گا (ابو داؤد۔ مشکوۃ)۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا
رسول اﷲ میرے حسن سلوک کا زیادہ حقدار کون ہے؟ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا تیری ماں، پھر تیری ماں، پھر تیری ماں،پھر تیرا باپ (مسلم) ۔ تم میں
بہتر وہ ہے جو اپنی بیویوں کے ساتھ بہتر ہے (ابن ماجہ) ۔ آپ صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم عورت کا اسقدر احترام کرتے تھے کہ حضرت عائشہ کے بقول حضرت فاطمہ
کے تشریف لانے پر کھڑے ہو جاتے، انہیں چومتے اور اپنی جگہ بٹھاتے(ترمذی)۔
اسکے باوجود ایک آیت (الرجال قوامون علی النسائ) کا ترجمہ عام طور پر کچھ
اس طرح کیا جاتا ہے کہ مرد عورتوں پر حاکم و مسلط (قوامون)ہیں
(34!النسائ)۔کیااس ترجمے کو درست تسلیم کیا جا سکتا ہے جبکہ قرآن کے مطابق
کسی انسان کو بھی اس بات کا اختیار حاصل نہیں کہ وہ کسی دوسرے انسان پر
حکومت کرے (79!ال عمران) ،قرآن تو کہتاہے کہ مومن مرد اور مومن عورتیں ایک
دوسرے کے رفیق ہیں (71!التوبۃ)
علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اسلام میں مرد
اور عورت کی قطعی مساوات ہے۔ بعض علماء مرد کی فوقیت کے قائل ہیں۔ جس آیت
سے شک کیا جاتا ہے وہ مشہور ہے الرجال قوامون علی النساء ۔ عربی محاورے کی
رو سے اسکی یہ تفسیر صحیح معلوم نہیں ہوتی (اقبال اور عورت ، صفحہ87) اگر
آپ ان حقوق پر نظر ڈالیں جو اسلام نے عورتوں کو دیئے ہیں تو آپ پر واضح ہو
جائے گا کہ اس مذہب نے عورت کو کسی طرح بھی مرد سے ادنی نہیں رکھا(ایضاً
صفحہ90)۔
قوامون کا ترجمہ حاکم و مسلط اس لئے کیا جاتا ہے کہ روایات میں اس کا
مفہوممسیطرین یعنی داروغے اور متسلطین یعنی مسلط کیے گئےہے ، ورنہ عربی لغت
(لسان العرب ، تاج العروس وغیرہ ) کی رو سے قوامون کا مطلب ہے کفالت کرنے
والے ۔مذکورہ آیت کا درست مفہوم یہ ہوگا کہ قرآنی تقسیم کار کی رو سے مرد
عورتوں کے کفیل ہیں کیونکہ عورتیں اپنے خاص فرائض کی انجام دہی کے دوران
اکتسابِ رزق سے معذور ہو جاتی ہیں۔
اسی آیت کے آخری ٹکڑے میں ہے کہ زبانی تنبیہہ کے باوجود عورتیں سرکشی کریں
تو انہیں نظر بند کر دو۔ پھر بھی باز نہ آئیں تو انہیں جسمانی سزا دو
(34!النسائ) اور اس کا مطلب یہ نکالا جاتا ہے کہ اگر عورتیں اپنے شوہروں کی
نافرمانی کریں تو شوہر انہیں مار بھی سکتے ہیں۔ یہ مفہوم بھی سرا سر غلط
فہمی پر مبنی ہے اس لیے کہ یہاں بات میاں بیوی کی ہو ہی نہیں رہی بلکہ عام
مردوں (الرجال) اور عام عورتوں(النسائ) کی ہو رہی ہے، نیز کسی کو سزا دینا
کسی فرد کا کام نہیں بلکہ عدالت کا کام ہے۔ مثال کے طور پر قرآن میں جہاں
یہ لکھا ہے کہ چور کے ہاتھ کاٹ ڈالو (38!المائدہ) زانی کو ایک سو کوڑے مارو
(2!النور) تو کیا اس سے یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ جس کے ہاتھ بھی کوئی چور
یا زانی لگے وہ اپنے طور پر ہی اسکے ہاتھ کاٹ دے یا اسے سو کوڑے لگا دے؟
ظاہر ہے کہ ایسا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان آیات میں کاٹ ڈالو اور مارو کا
تخاطب عدالت کی طرف ہے۔ بالکل اسی طرح سر کش عورتوں کو سزا دینا بھی عدالت
ہی کا کام ہے۔ رہا یہ سوال کہ سرکش عورتوں کو ہی سزا دینے کا حکم کیوں دیا
گیا تو بات یہ ہے کہ یہ سورۃ ہی عورتوں کے متعلق ہے ورنہ قرآن سرکش مردوں
کو بھی معاف نہیں کرتا(43!طہ)۔ عورت کو مرد سے کم تر ثابت کرنے کے لیے یہ
دلیل بھی دی جاتی ہے کہ میت کے ترکے میں بیٹے کا حصہ بیٹی کے مقابلے میں
دوگنا ہوتا ہے(11!النسائ) لیکن اسی آیت میں یہ بھی تو لکھا ہے کہ اگر میت
کی اولاد ہو تو اس کے ماں باپ کا حصہ برابر ہو گا اور اگر اولاد نہ ہو تو
ماں کا حصہ باپ کے مقابلے میں دوگنا ہو گا (11!النسائ) ۔ کیا ماں عورت نہیں
ہوتی یا باپ مرد نہیں ہوتا؟بات یہ ہے کہ وراثت میں مرد اور عورت کا حصہ
مختلف حیثیتوں میں انکی مالی اور معاشرتی حالت کو سامنے رکھتے ہوئے مقرر
کیا ہے جس سے یہ طے نہیں کیا جا سکتا کہ کون افضل ہے اور کون کم تر۔
یہ نکتہ بھی نکالا جاتا ہے کہ ایک مرد کو گواہی دو عورتوں کے برابر ہوتی
ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کہتا ہے کہ جب آپس میں قرض کا لین دین کرو تو اسے
لکھ لیا کرو پھر اس پر دو مردوں کو گواہ بنا لیا کرو۔ اور اگر دو مرد نہ مل
سکیں تو ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنا لیا کرو تاکہ اگر ایک عورت
الجھن میں پڑ جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے (282!البقرۃ)اس بارے میں چار
باتوں پر توجہ دیجئے۔ پہلی یہ کہ دونوں عورتوں سے الگ الگ گواہی لینے کے
لیے نہیں کہا گیا۔ گواہی تو ایک ہی نے دینی ہے ۔ ہاں اگر وہ الجھن کا شکار
ہو جائے تو دوسری کا کام اسے یاد دلانا ہے لیکن وہ الجھن کا شکار ہی نہ ہو
تو ظاہر ہے کہ دوسری کے بولنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو گا، دوسری بات یہ کہ
یہ حکم صرف قرض کے لین دین سے متعلق ہے ورنہ دیگر معاملات میں گواہی کے لیے
مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں کیا گیا (4!النور،156!النساء،
106!المائدہ،2 !الطلاق)، تیسری بات یہ کہ اسلامی معاشرے میں اکتسابِ رزق
عام طور پر عورت کے ذمے نہیں ہوتا لہذا مالی معاملات میں عورت کا الجھن میں
گرفتار ہونا کوئی عجیب بات نہیں۔اور چوتھی بات یہ کہ اگر عورت کی تربیت
ایسی ہو جائے کہ اس بات کا اندیشہ ہی نہ رہے کہ وہ الجھن کا شکار ہو گی تو
دوسری عورت کی موجودگی کی ضرورت ہی نہیں رہے گی بالکل ایسے ہی جیسے پانی
میسر آ جائے تو تیمم کا حکم ساقط العمل ہو جاتا ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قرآن میں لکھا ہے کہ عورتوں کی چال بڑی گہری ہوتی
ہے(28!یوسف) لیکن قرآن میں یہ بھی تو لکھا ہے کہ یہ قول خدا کا نہیں بلکہ
زلیخا کے شوہر کا ہے جو اس نے زلیخا کی چالبازی کے حوالے سے کہا
(25-27!یوسف) ۔ ,24!النساء، 236,237!البقرہ
قرآن عورت اور مرد کو ایک دوسرے کا زوج(یعنی ایک دوسرے کے لیے لازم و
ملزوم) قرار دیتا ہے (11!الشوری، 21!الروم)کیونکہ وہ ایک دوسرے میں سے ہیں
(195!ال عمران) فرق صرف اتنا ہے کہ تقسیم کار کے اصول (جو ساری کائنات میں
کار فرما ہے) کی رو سے عورت کے ذمے ایک کام ہے تو مرد کے ذمے دوسرا۔ بالکل
ایسے ہی جیسے کان کا کام سننا اور آنکھ کا کام دیکھنا ہے۔ کیا کان کو آنکھ
یا آنکھ کو کان سے افضل قرار دیا جا سکتا ہے؟حضرت علامہ اقبال کے بقول عورت
کے بحیثیت عورت اور مرد کے بحیثیت مرد بعض خاص علیحدہ علیحدہ فرائض ہیں۔ ان
فرائض میں اختلاف ہے مگر اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ عورت ادنیٰ ہے اور
مرد اعلیٰ۔ فرائض کا اختلاف اور وجوہ پر مبنی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ جہاں تک
مساوات کا تعلق ہے تو اسلام کے اندر مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں (اقبال
اور عورت ۔ صفحہ88)یاد رکھیے کہ قرآن، پیدائش کے اعتبار سے ہر انسان کو(خود
وہ مرد ہو یا عورت) یکساں طور پرعزت و تکریم کے قابل قرار دیتا ہے (70!بنی
اسرائیل)اور خدا کے نزدیک فضیلت کا معیار صرف اور صرف تقویٰ
ہے(13!الحجرات)۔اسی لیے تو حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
اﷲ کے نزدیک سب سے معزز وہ ہے جو متقی ہے (بخاری)اﷲ تعالیٰ تمہاری صورتوں
اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو
دیکھتا ہے (مسلم)۔ |