اس وقت انٹر بینک اور اوپن
مارکیٹ میں ایک ڈالر ستانوے اور اٹھانوے روپے کی سطح پر ہے اور ڈالر کے
مقابلے میں روپے کی قدرمیں کمی بھی جاری ہے،اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو
گا کہ پاکستانی کرنسی کی قدر میں سالانہ اوسطاً سات اعشاریہ پانچ فیصد کی
شرح سے کمی ہو رہی ہے،پاکستانی روپیہ اس وقت شدید دباؤ کا شکار جس کی کئی
وجوہات ہیں، لیکن سب سے بڑی وجہ ملک کے زِرمبادلہ کے ذخائرمیں تیزی سے واقع
ہونے والی کمی ہے،فروری دو ہزار بارہ میں زرِمبادلہ کے ذخائر تقریباً ساڑھے
سولہ ارب ڈالرتھے۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کو آئی ایم ایف کے قرض کی
ادائیگی شروع کرنا تھی،پاکستان سال دو ہزار بارہ میں اب تک دو ارب باون
کروڑ بیس لاکھ ڈالر آئی ایم ایف کو ادا کر چکا ہے جبکہ رواں سال کی آخری
قسط اکیس نومبر کو ادا کی گئی جس کے نتیجے میں زِرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے
گرے اور اب یہ ذخائر تیرہ ارب اکیاسی کروڑ ڈالر رہ گئے ہیں،سال دوہزار تیرہ
میں پاکستان آئی ایم ایف اور دیگر اداروں کو مزید چار ارب ڈالر ادا کرے گا
جس کے نتیجے میں زِرمبادلہ کے ذخائرمیں مزید کمی آئے گی۔ آئی ایم ایف کی
تقریباً ساٹھ کروڑ ڈالر کی اگلی قسط فروری سنہ دوہزارتیرہ میں ادا کرنی ہے
جبکہ درآمدات کے لیے زِرمبادلہ کی فراہمی اس کے علاوہ ہے۔حکومت یہ توقع کر
رہی ہے کہ امریکہ سے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں آنے والے مہینوں میں ساٹھ
کروڑ ڈالر، پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے اسّی کروڑ ڈالر اور تھری جی لائسنس
کی نیلامی سے تقریباً اتنی ہی رقم حاصل ہوجائےگی جس سے زِرمبادلہ کے ذخاِئر
پردباؤ کم کرنے میں مدد ملے گی۔ حکومت کی یہ خام خیالی ملک کو مزید تباہی
کی جانب دھکیل سکتی ہے،معیشت کی یہ دگرگوں حالت مہنگائی میں مزید اضافے کا
باعث بنے گی جو غریب عوام کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے،اگر دیکھا جائے
تو موجودہ حکومت نے اپنے ساڑھے چار سالہ دور میں عوام کو صرف خواب ہی
دکھائے ہیں جو آئندہ بھی دکھا کر ووٹ اینٹھنے کے طور پر کام آئیں گے،پیپلز
پارٹی ایک بار پھر مظلومیت اور بھٹو کے فلسفے کا رونا روئے گی۔اب شاید رونے
کا بھی موقع نہ ملے۔ |