پروفیسر مظہر
ایک معروف سینئر کالم نویس اکثر ایسی ”مجذوبانہ“ باتیں کہتے اور لکھتے رہتے
ہیں جو ہمارے پلے نہیں پڑتیں کیونکہ ہمارے پاس کوئی طوطا ، مینا یا چڑیا تو
ہے نہیں جو راز ہائے درونِ خانہ چپکے سے کہہ دے ، نہ ہمارا رابطہ کسی
”کالمی درویش “ کے ساتھ ہے جو ہمیں محترم کالم نگار کے ”فرمودات“ کی گہرائی
اور گیرائی سے آگاہ کرسکے اور نہ ہی مشامِ تیز کہ ہواؤں کا رُخ پہچان
سکیں۔ہم تو بس اندازوں اور تخمینوں پر ہی گزارہ کرتے ہیں ۔شاید اسی لیے
موصوف کی باتیں ہم جیسے ”نیچریوں“ کی سمجھ میں نہیں آتیں اور ہم اپنی کم
علمی اور کوتاہ فہمی کی بنا پر میدانِ سیاست کے ”بارھویں کھلاڑی“ کے بارے
میں اکثر لکھتے رہتے ہیں کہ ”نیم حکیم ، دیوے افیم“ ۔
محترم لکھاری نے اپنے حالیہ کالم میں حسبِ معمول انتہائی محترم عمران خاں
کی مدح سرائی اور ”رقیبوں کی ہجو“ میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی ۔فرماتے
ہیں ”نواز لیگ 56 فیصد آبادی پر قاف لیگ کے لوٹوں کی مدد سے برا جمان ہے“۔
بلا شبہ پنجاب کی حد تک صحنِ چمنِ نواز لیگ ”لوٹوں“ کے دم قدم سے آباد ہے
لیکن لوٹے آٹے میں نمک برابر ، غالب اکثریت لیگیوں کی ۔سوال مگر یہ ہے کہ
کون سی سیاسی جماعت ایسی ہے جو لوٹوں سے مزیّن نہیں ؟۔انہی لوٹوں سے نجات
کے لیے لوگ تحریکِ انصاف کی طرف پلٹے لیکن جلد ہی مایوس ہوگئے۔جس جماعت کے
صدر ، وائس چیئر مین اور سیکرٹریز تک سبھی لوٹے ہوں اسے دوسروں پر الزام
دھرنے سے پہلے اپنی آلودہ دامانی پر بھی غور کر لینا چاہیے ۔۔۔موصوف فرماتے
ہیں ”پروپیگنڈے کی جنگ میں ن لیگ کا پلہ بھاری ہے۔ایک آدھ کے سوا کوئی
اختلاف کی جسارت کم ہی کرتا ہے ۔تقریباََ سبھی میڈیا مالکان کے ساتھ گہرے
مراسم ہیں ۔ میڈیا میں تحریکِ انصاف کاچراغ نہیں جلتا“۔ عرض ہے کہ یہ کرشمہ
ساز الیکٹرانک میڈیا ہی کا کمال تھا جس نے لاہور کے جلسے کی آٹھ گھنٹوں تک
”لائیوکوریج“ کرکے خاں صاحب کوہواؤں کے دوش پر سوار کروایااور پھر ہر جلسے
کی طویل لائیو کوریج اور ٹاک شوز میں تعریفوں کے انبار ۔نامیوں سمیت
لکھاریوں کی غالب اکثریت نے تحسینِ تحریکِ انصاف میں کئی روز تک زمین آسمان
کے قلابے ملائے ۔ لیکن اُڑتی چڑیا کے پَر گننے والے اخبار نویسوں کو جب
احساس ہوا کہ ”اِن تلوں میں تیل نہیں“ تو پلٹ گئے۔کچھ اُلٹے پاؤں اورکچھ
خراماں خرماں۔اب بھی شاذ ہی ایسا ہوتا ہے کہ کسی ٹاک شوز میں تحریک کی
نمائیندگی نہ ہو ۔رہی مفادات کی بات تو عرض ہے کہ اگر میڈیا مالکان نواز
لیگ کے ہاتھوں بک چکے ہیں تو یقیناََ موصوف کے پاس ثبوت بھی ہونگے ۔وہ اکثر
ٹاک شوز اور کالموں میں اپنے انتہائی با خبر ہونے کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں
اور یہ بھی کہ اگر کسی نے تنگ یا پریشان کیا تو سب کچھ اُگل دیں گے ۔اپنے
ایک کالم میں اُنہوں نے فرمایا کہ جی چاہتا ہے کہ سب کچھ اُگل دوں ۔پھر
فرمایا شاید اُگل بھی دوں اور آخر میں کہا کہ اپنی کتاب میں افشاءکروں گا ۔اگر
موصوف کی ”پٹاری“ بھٹو مرحوم کے ”معاہدہ تاشقند“ جیسی پٹاری نہیں تو کم از
کم یہ راز تو اگل ہی دیں وگرنہ اسے محض تہمت ہی سمجھا جائے گا اورو ہ خوب
جانتے ہیں کہ قُرآن و حدیث میں تُہمتیں لگانے والوں کے بارے میں کیا ارشاد
ہوا ہے۔
میٹرو بس منصوبے پر وہ رقمطراز ہیں کہ ”شہباز شریف خزانہ لُٹا کر یہ ثابت
کرنا چاہتے ہیںکہ اُنہوں نے لاہور کا ایک بڑا مسئلہ حل کر دیا“ ۔جی ہاں !
انتہائی ضدی میاں شہبا ز شریف نے خزانہ لٹایا لیکن عوامی فلاح کے لیے ۔پنجاب
میں کم از کم کچھ ہلچل تو ہے ، باقی صوبوں کا بجٹ تو براہِ راست ذاتی
خزانوں میں پہنچ جاتا ہے ۔جس میڈیا گروپ سے موصوف منسلک ہیں ، اُسی نے
ہزاروں طالبات کا سروے کروایا اور 78 فیصد طالبات نے شہباز شریف کے رفاہی
کاموں کی حمایت کی ۔موصوف یہ دور کی کوڑی بھی لائے ہیں کہ ”یہ منصوبہ غیر
قانونی ہے“۔تفصیل سے اُنہوں نے گریز کیا ۔اگر بیان کر دیتے تو ہم جیسے بے
خبروں کو بھی پتہ چل جاتاکہ عوامی فلاحی منصوبے غیر قانونی بھی ہوا کرتے
ہیں۔وہ فرماتے ہیں ”پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں مفاہمت ہے کہ ہر حال میں
عمران خاں کو روکا جائے “۔ عرض ہے کہ نواز لیگ تو بعد از خرابی بسیار اب
تائب ہو کر پیپلز پارٹی پر گرجتی برستی رہتی ہے لیکن خاں صاحب PPP اور اُس
کے اتحادیوں کے بارے میں مہر بلب ہیںالبتہ کبھی کبھار خاں صاحب مُنہ کا
ذائقہ بدلنے کے لیے زرداری صاحب کا ذکر کر جاتے ہیں ۔دوسری طرف پیپلز پارٹی
اور اتحادیوں کا ہدف بھی نون لیگ ہی ہے تحریکِ انصاف نہیں ۔اس لیے کیوں نہ
سمجھا جائے کہ نون لیگ کے خلاف پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف میں درونِ
خانہ کوئی NRO سائن ہو چُکا ہے ۔
محترم لکھاری نے خاں صاحب کے حق میں چھ مضبوط عوامل کا ذکر کرتے ہوئے
فرمایا ”ساکھ بہت اچھی ، عوامی خدمت کا ریکارڈ شاندار ، تبدیلی کی تمنا ،
خواتین اور سبکدوش فوجیوںکے علاوہ پشتونوں میں بے پناہ مقبولیت کہ قبیلہ
اپنے بہترین آدمی پر فخر کرتا ہے “۔ عرض ہے کہ خاں صاحب کی سیاسی ساکھ کو
تو فی الحال گھُن لگ چُکا ہے جس کا اقرار موصوف نے خود ہی یوں کر لیا کہ
”بنیا پٹھان کے سینے پر بیٹھا رو رہا ہے “۔یوں تو خاں صاحب کی ذاتی ساکھ پر
بھی بہت سے سوال اُٹھ رہے ہیں۔ سیاست میں ذاتیات کو لانابہرحال مناسب نہیں۔۔
۔عوامی خدمت کو اگر معیار بنایا جائے تو میں متعدد بار لکھ چُکا ہوں کہ اِس
بنیاد پر تو ایدھی خاندان کو بلا شرکتِ غیر ے اقتدار سونپ دینا چاہیے کہ
فلاحی کاموں میں خاں صاحب دس بار جنم لے کر بھی اُن کی گردِ پا کو نہیں
پہنچ سکتے ۔۔۔ ڈال ڈال پھُدکنے والے پنچھیوں اور پھول پھول کا رس چوسنے
والے بھنوروںکے جلو میں تبدیلی کی تمنّا ؟۔ ایں خیال است و محال است و جنوں
۔اگر خاں صاحب کو ”شاہیں“ مان بھی لیا جائے تو پھر بھی بقولِِ اقبال
وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کرگسوں میں
اُسے کیا خبر کہ کیا ہے راہ و رسمِ شاہبازی
اگر پورے پاکستان سے نوجوانوں کو کسی ایک جگہ اکٹھا کرکے جلسہ کر لینے کا
نام نئی نسل کی حمایت ہے تو پھر اسلامی جمیعت طلباءکے سالانہ اجتماعات میں
تو تین ، تین لاکھ نوجوان اکٹھے ہوتے ہیں اور جماعتِ اسلامی کے اجتماع میں
دس ، دس لاکھ افراد ، لیکن جماعت کی پارلیمنٹ میں نمائندگی ہمیشہ بقدرِ اشکِ
بُلبُل ہوتی ہے ۔ ۔۔ رہی خواتین میںمقبولیت کی بات تو تسلیم کہ جب ”آتش “
جوان اور کپتان تھا تب بے پناہ مقبول تھا لیکن اب ؟۔اب ممدو جانے یا مدح
سرا، ہمیں تو ایسا کچھ نظر نہیں آتا۔ سبکدوش فوجیوں میں ”جنرل پاشا“ کا تو
سبھی کو علم ہے باقیوں کے بارے میں میرا علم ناقص ہے۔۔۔ جس لسانی اور گروہی
تعصب کی سیاست نے پاکستان کو اس حال تک پہنچایا ہے موصوف اسی پر فخر کرتے
ہوئے کہتے ہیں کہ پشتون ”اپنے قبیلے “ کے آدمی پر فخر کرتے ہیں ۔کیا
نظریاتی سیاست اسی کا نام ہے؟۔
محترم فرماتے ہیں ”خوفزدہ نواز شریف مقابلہ نہیں کر سکتا ۔۔۔ بنیا پٹھان کے
سینے پر بیٹھا رو رہا ہے ۔۔۔ نگران حکومت قائم ہوتے ہی پولیس پٹوار سمیت
سرکاری دباؤ برائے نام رہ جائے گا“۔ محترم لکھاری اگر ”حا لتِ جذب“ سے نکل
کر عالمِ رنگ و بو میں جھانک لیتے تو اُنہیں صاف نظر آ جاتا کہ ”خوفزدہ
بنیا “ پٹھان کے سینے پر بیٹھا رو نہیں رہا بلکہ قہقہے لگا رہا ہے۔ شاید
اُسے بھی ادراک ہو گیا ہو کہ اگلے ایک دو عشروں تک تو پٹھان میں اُٹھنے اور
اُٹھ کر مارنے کی سکت نہیں۔رہی پٹوار پولیس کی بات تو جب بی بی کی شہادت کے
بعد پیپلز پارٹی کی بذریعہ امین فہیم مشرف سے مفاہمت ہو چکی تھی ، عدلیہ
اور الیکشن کمیشن آمر کی مٹھی میں تھے ، پولیس پٹوار سب مقتدر چوہدریوں کے
بس میں تھے اور میاں صاحبان کو وطن لوٹے محض چند دن ہوئے تھے ، تب بھی وہ
56 فیصد کی حکومت لے اُڑے اب آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔۔۔۔ |