مصر:مرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی

میرے دوستوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو صدر محمد مورسی سے زیادہ ان کے بہی خواہ ہیں۔ انہیں میں سے ایک نے پچھلے دنوںمجھ سے پوچھا اس بار مورسی کیسے پھنس(trap) ہوگئے؟ میں نے مسکرا کر کہا تم بچے ہو نہیں سمجھو گے ۔ خفا تووہ پہلے ہی سے تھے میرے اس غیر سنجیدہ جواب نے انہیں آگ بگولا کردیا اور وہ مجھ پر برس پڑے۔ انہوں نے کہا جب کسی کو جواب نہیں سوجھتا ہے تو وہ اس طرح مخاطب کا مذاق اڑاتا ہے ۔ اب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا غالباً نادانستہ طور پر میں نے ان کی دل آزاری کردی تھی ۔ ان کا منہ کسی بچےکی طرح پھول گیا تھاجس سے مجھے یقین ہو گیا کہ میں نے ان کے بارے میں جو کچھ بھی کہا ہے وہ صد فیصد صحیح ہے اس کے باوجود اپنے معصوم دوست کی دلجوئی ضروری تھی اس لئے میں نے کہا بھائی ایک بات بتاو اگر کوئی بچہ بیمار ہو، وہ رونے کیلئے تو منھ کھولے مگر جب دوائی دینے وقت دانتوں پر دانت جمادے تو اس کی ماں کیا کرتی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا وہ اس کی ناک دبا کر بند کردیتی ہے ۔ میں نے پوچھا اس سے کیا ہوتا ہے؟ وہ بولے بچہ سانس لینے کی خاطر منھ کھولتا ہے۔ اچھا تو پھر اسکی ماں کیا کرتی ہے؟ وہ اس بچہ کے منھ میں دوا ڈال دیتی ہے۔اس کے فوراً بعد بچہ کیا کرتا ہے ؟ وہ خوب دہاڑیں مار مار کر رونے لگتا ہے۔ اور اس کے بعداگر اس دوا سے بچہ صحت یاب ہو جائے تو کیا ہوتا ہے ؟ انہوں نے بالکل کسی بچے کی طرح کہا اس کی ناراضگی دور ہوجاتی ہے ۔ میں نے پوچھا جیسے کہآپ کی خفگی دور ہوگئی ؟ وہ ننھے سے بچے کی طرح ہنس پڑے اور اپنا سوال بھول گئے جیسا کے بچے بھول جاتے ہیں۔

میں نے ان سے پوچھا خیر یہ تو اچھا ہوا کہ تمہاری ناراضگی دور ہوگئی لیکن یہ بتاو کہ کیا تمہیں اپنے سوال کا جواب ملا؟ انہوں نے نفی میں سر ہلا کر کہا نا۔ چلئے ہم بچے ہی صحیح اب آپ جواب بھی دے دیں ۔ میں نے کہا تمہارے سوال کا جواب اسی مثال میں پوشیدہ ہے ۔ مصری عوام انقلاب سے قبل متعدد امراض کا شکار تھی اور ان سب بیماریوں کے جراثیم ایک دوسرے کے حامی و مددگار تھے ۔ وہ سب مل کر پوری قوم کو گھن کی طرح چاٹ رہے تھے ۔ عوام کے سامنے بجا طور پر ان تمام بیماریوں میں سے سب نمایاں حسنی مبارک کا نامبارک سیاسی ا قتدار تھا۔ اس لئے اسکے خلاف بغاوت ہوئی اور لوگوں نے اسے اکھاڑ پھینکنے کا فیصلہ کیا ۔ اس کیلئے زبردست قربانیاں دیں اور اپنی کوشش میں کامیاب بھی ہوگئے ۔اس دوران جو دوسری بیماریاں تھیں مثلاً فوج،عدلیہ اور ذرائع ابلاغ ان لوگوں نے اس میں اپنی عافیت سمجھی کہ عوام کی تائید کی جائے اور اس کی ہمدردیاں حاصل کرکے بلاواسطہ حسنی مبارک کے اقتدارکو اپنے قبضہ میں لے لیا جائے ۔

حسنی مبارک کے چلے جانے کے بعد فوجی قونصل نے اقتدار سنبھالا اور انتخاب کروا کر عوام کے نمائندوں کو اقتدار سونپنے کا وعدہ کیا ۔ انہیں توقع تھی کہ ذرائع ابلاغ کی مدد سے وہ عوام کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور پھر ایک بار بھیڑ کی کھال پہن کر بھیڑیے انتخاب جیت جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ عوام نے پہلے نمبر پر اخوان المسلمون کے تقریباً۵۰ فیصد نمائندوں کے حق میں رائے دے کرانہیں کامیاب کیا اس کے بعد دوسرے نمبر پر سلفی جماعت النور کو ۲۷ فیصدناتئندوں نے عوام کا اعتماد حاصل کیااور سب نیچے ملے ساری سیکولرجماعتوں نے مجموعی طور پر ۲۵ فیصد سے کم کامیابی حاصل کی ۔ایک بیماریسے مکمل افاقہ ابھی ہوا نہیں تھا کہ صدارتی انتخاب کی باری آئی تو اخوان کے امیدوار شاطر عدالت کی نظر میں نااہل اور حسنی مبارک کے وزیراعظم شفیق اہل تر ٹھہرے۔ اس کے باوجود جب مورسی کی کامیابی کے امکانات واضح ہوگئے تو فوجی قونصل نے راتوں رات دستور میں ترمیم کرکے سارے اختیارات کوہڑپ کرلیا ۔

دستوری عدالت میں ایک دعویٰ پارلیمانی انتخاب کے حوالے سے اور دوسرا دستور کے ساتھ کھلواڑ کے خلاف داخل ہوا ۔عدالت نے فوجی دھاندلی کو تو حق بجانب قرار دیا مگر عوامی انتخاب کو تکنیکی بنیاد پر کالعدم ٹھہرا دیا ۔یہ عجیب و غریب صورتحال تھی جس میں عوام کی منتخبہ پارلیمان گھر بھیج دیا گیا تھا اور عوام کی مرضی سے منتخب ہونے والے صدر کو بے دست و پا کردیا گیا تھا ۔ سیکولر جماعتوں نے عدالت کے ذریعہ کی جانے والی اس ناانصافی کی خاموش تائید کی اس لئے کہ اس سے ان کا سیاسی مفاد وابستہ تھا ۔ وہ عوام کی عدالت میں حاصل ہونے والی اپنی شکست کو عدالت کی دھاندلی سے فتح میں بدلنا چاہتے تھے ۔ اس کے بعد مصر کی سرحد پر چند دہشت گردوں نے فوج کے اہلکاروں پر حملہ کیا اور اسرائیل کی جانب فرار ہوگئے۔ ذرائع ابلاغ نےصدرمورسی کی کمزور قیادت کو اس حملے کیلئے موردِ الزام ٹھہرا دیااور فوج کی واپسی کے حق میں ہوا بنانے میں لگ گیا۔

صدر محمد مورسی نے اس وقت نہایت جرأتمندی کا ماحہرہ کرتے ہوئے اپنا اولین صدارتی حکمنامہ جاری کیا جس میں دستور کی ان شقوں کو جسے فوج نے عوامی نمائندوں کے حقوق پر شب خون مارنے کیلئے وضع کیا تھا مسترد کردیا اور ایک ایک کرکے سارے اہم فوجی عہدیداروں کو سبکدوش کردیا ۔ حزب اختلاف کے ساتھ ساتھ عدلیہ اورذرائع ابلاغ نے اس کے خلاف بھی شور مچایا اور مصر میں آمریت کی آمد کا خدشہ ظاہر کرنا شروع کردیا ۔ اس موقع پر محمدمورسی نے فوج سے اور عدالت سے مقابلہ آرائی کو ٹال دیا ۔ عدلیہ سے انہوں نے کہا کہ وہ ایک انتظامی فیصلہ میں تبدیلی کررہے ہیں جس کا انہیں اختیار ہے اور فوجیوں کو اعزاز و تکریم کے ساتھ رخصت کیا جس سے سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی ۔ گویا دو بیماریوں کا علاج ہو گیا لیکن عدلیہ کو یہ غلط فہمی ہو گئی کہ صدرمورسی ان سے خائف ہیں ۔

دستور سازی کیلئے ایک نمائندہ کمیٹی بنائی گئی تھی جس میں تمام مکاتبِ فکر کو نمائندگی دی گئی تھی لیکن اس میں سیکولر حضرات نے اڑیل رویہ اختیار کر لیا اور اسلام پسندوں کی دھاندلی کا شور مچا کرایک کے بعد ایک مستعفی ہونے لگے ۔ ان کا معاملہ یہ تھا کہ ہماری مانو ورنہ ہم چلتے ہیں ۔ ایسا تو دنیا کسی اقلیت نے نہیں کیا ہوگا کہ ہم نہ بحث کریں گے ۔ نہ اپنی بات سمجھائیں گے نہ آپ کی بات سمجھیں گے۔بس اپنی بات منوائیں گے یا اٹھ کر چلے جائیں گے ۔ ان کے اس رویہ کے پس پشت عدلیہ اور ذرائع ابلاغ کا اعتماد تھا ۔ انہیں یقین تھا ان کی ہر دھاندلی کو ذرائع ابلاغ میں حق بجانب ٹھہرایا جائیگا ۔ انہیں مظلوم اور عوام کےحقیقی نمائندوں کو ظالم بنا کر پیش کیا جائیگا نیز جب یہ دستور بن جائیگا تو اسے عدالت میں چیلنج کردیں گے اور عدالت اسے سابقہ دستور کی خلاف ورزی قرار دے کر مسترد کردے گی اس لئے کہ دستور کے مطابق اس دستوری کمیٹی میں سبھی کی نمائندگی ضروری تھی ۔ عدالت کمیٹی کے ناقص ہونے اعلان تو کرے گی لیکن جو لوگ اس میں سے نکل کر چلےگئے ان سے نہیں پوچھے گی کہ تم نے فرار کی راہ کیوں اختیار کی ۔ یہ سراسر بلیک میلنگ کا طریقۂ کارتھا کہ ہماری مانو ورنہ دستور نافذ نہ ہوگا ۔ اس طرح عوام پر انکے مستردشدہ لوگوں نے اپنی مرضی تھوپنے کی سازش رچائی تھی ۔

مصر کی حزب اختلاف نےعدلیہ کے ساتھ مل کریہ حکمتِ عملی بنائی تھی کہ ہم آئندہ انتخاب تک اس حکومت اور صدر کچھ کرنے نہیں دیں گے اور اس کے بعد عوام میں یہ نعرہ لگا کر جائیں گے کہ یہ نااہل لوگ تھے ۔ تم نے اقتداران کے حوالے کر کے غلطی کی تھی اس لئے اپنی غلطی کا کفارہ اس طرح ادا کرو کے کہ ہمارے ہاتھ میں اقتدار سونپ دو ۔ اس جھوٹ کوسچ بنانے کیلئے زرخریدذرائع ابلاغ تو موجود ہی ہے لیکن ان کی اس چال کے برعکس اسلام پسند بلا مشتعل ہوئے دستور سازی کے اپنے کام میں لگے رہے اور جب یہ تیار ہوگیا تو پیش بندی کے طور پر محمد مورسی کو ایک اور حکم نامہ جاری کرنا پڑا ۔ اس حکم نامہ میں حسنی مبارک کے ہمنواؤں پر جنھیں عدالت نے رہا کردیا تھا دوبارہ مقدمہ قائم کرنےکی بات کی گئی تھی ۔ اسی کے ساتھ صدارتی احکامات کو دستور کے نافذ ہونے تک عارضی طور پر چیلنج کرنا ممنوع قرار دے دیا گیا تھا اور دستور ساز کمیٹی سے نکل جانے والے ارکان کو نئے ارکان سے بدلنے اختیار صدر کو دیا گیا تھا ۔
اس صدارتی فرمان کی تینوں شقوں نے مخالفین کی ساری چالوں کو یکلخت ملیا میٹ کردیا ۔ اب مخالفین کیلئے دستور ساز کمیٹی سے فرار ہونے کا دروازہ بند ہوگیا اس لئے کہ بصورت دیگر ان کے مخالف کا اس کرسی پر بیٹھنا ممکن ہو گیا ۔ یہ اس قدر فطری بات ہے کہ اگر کوئی دستور ساز کمیٹی کا رکن اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے انکار کردے تو اس کا بدلنا ضروری ہے اور ایسا کرنے کیلئے مناسب ترین شخص عوام کی رائے سے منتخب ہونے والا صدرہی ہو سکتا ہے ۔ حسنی مبارک کے ساتھیوں کے خلاف مقدمات کو قائم کرنے کا مطالبہ بہت سارے انقلابی کرتے چلے آئے تھے ان کیلئے اس حکمنامے کی اس شق کی مخالفت ناممکن ہوگئی ۔ اس کے باعث مخالفین کے صفوں میں پھوٹ پڑ گئی۔ اس کا مظاہرہ اس وقت ہوا جب بردائی جیسے لوگوں نے شفیق کو ساتھ لیا تو انقلابی نوجوان ان سے برگشتہ ہوگئے اور اسلام پسندوں کے خلاف قائم ہونے والاسیاسی اتحاد چرمرا گیا ۔

تیسری شق کے بغیر دستور کا نافذالعمل ہونا ناممکن تھا اس لئے کہ عدالت تو اسے مسترد کرنے کیلئے تیار بیٹھی تھی۔ اس سے قبل اختیارکئے جانے والے رویہ سے اس نے اپنی جانبداری کے کئی شواہد پیش کرچکی تھی۔ اسی لئے ایک سمجھدار ماں کی طرح صدر مورسی اس بچے کی ناک دبائی تاکہ وہ اپنا منھ کھولے اور کسی طرح وہ دوائی اس کے گلے سے نیچے اترے ۔ ابھی یہ لوگ شور مچا ہی رہے تھے کہ دستور کو عوام کے سامنے ریفرنڈم کیلئے پیش کردیا گیا اور اسٹیفنی ٹائر سمجھے جانے والے مورسی نے مخالفین کے پہیے سے ہوا نکال دی۔جو لوگ محمد مورسی کو ایک کمزور صدر کہتے تھے انہوں نے غزہ کے حالیہ بحران کے دوران دیکھ لیا کہ طاقتور سربراِ مملکت کیسا ہوتا ہے؟

حزب اختلاف کو اگر اس دستور سے اختلاف ہے تو اسے چاہئے کہ وہ عوام کو جاکر سمجھائے تاکہ وہ اس کے خلاف اپنی رائے دیں ۔ اگر عوام اسے مسترد کر دیتے ہیں تو اپنے آپ وہ کام ہو جائیگا جو وہ چاہتے ہیں لیکن انہیں پتہ ہے ایسا نہیں ہوگا ۔ جس دستور کے حق میں پہلے اور دوسرے نمبر کی جماعت ہو اسے تیسرے نمبر کا غیر متحد الحاق کیونکر ناکام بنا سکتا ہے اس لئے یہ لوگ عوام میں جانے کے بجائے ٹی وی کیمروں کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں ۔استصواب کے اعلان نے حزب اختلاف کیلئے ایک بڑی مصیبت کھڑی کردی ہے ۔ اس کا مطالبہ ہے کہ وہ صدارتی فرمان واپس ہو جس سے صدر کو عدالت پرعارضی برتری حاصل ہوگئی ہے اس کیلئے یہ لوگ تحریک توچلاتے ہیں مگرریفرنڈم سے گھبراتے ہیں جس کے بعد صدارتی اختیارات کا آپ سے آپ خاتمہ ہو جائے گا۔ ریفرنڈم کےبائیکاٹ سے دستور زیادہ اکثریت سے کامیاب ہوگا ورنہ کم اکثریت سے ۔

ایک سوال یہ ہے کہ قدیم دستور سے دستوری عدالت کی محبت اور نئے دستور سے دشمنی کی وجہ کیا ہے؟مصر کاسب سے بنیادی مرض یہی دستورہے جوحسنی مبارک کے دور کی آخری یادگار ہے جس کی مدد سےعدلیہ عوام اور ان کے نمائندوں کو ان کے حقوق سے محروم کرکےسیاہ و سفید کے مالک بن گیاہے ۔جب یہ استحصالی دستور ہی نہیں رہے گا اور عوام کی مرضی سے ایک نیا دستور نافذالعمل ہو جائیگا تو لامحالہ عدالتیں اس نئے دستور کے مطابق فیصلے کرنے پر مجبور ہوجائیں گی اور ان کے لئے عوام کے بنیادی حقوق کو سلب کرنا ناممکن ہو جائیگا ۔یہ ظالم یہی نہیں چاہتے اسی لئے ایک طرف عدالت نے ہڑتال کررکھی ہے اور دوسری جانب ذرائع ابلاغ کے ایک حصہ نے اپنا کام بند کررکھا ہے لیکن ایسا کرکے یہ لوگ خود اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے کا کام کررہے ہیں۔

دنیا بھر میں یہ ہوتا ہے کہ عدالت اور ذرائع ابلاغ بڑی حد تک غیر جانبدارہوتے ہیں یاکم ازکم وہ اس کی اداکاری تو کرتے ہی ہیں ۔ اس لئے کہ اگر ذرائع ابلاغ غیر جانبدار نہ ہو تو وہ حزب ِاقتدار اور اختلاف کی بات انصاف کے ساتھ لوگوں تک پہنچا نہیں سکتا اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو عوام کا اس پرسے اعتماد اٹھ جاتا ہے ۔ عوام جس ذرائع ابلاغ پربھروسہ نہیں کرتے اس کی دوکان اپنے آپ بند ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح عدالت کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ غیر جانبدار ہو اس کے بغیر وہ مخالف فریقوں کے درمیان انصاف نہیں کرسکتی ۔ جب عدالتیں انصاف کے بجائے ناانصافی کی علمبرداربن جائیں تو لوگ ان سے رجوع کرنا بند کردیتے ہیں اور ایسی عدالتوں کا عارضی طور کام بند کردینا قوم کیلئے زحمت کے بجائے رحمت بن جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ایک وقتی چیخ پکارہے جو بچہ دوائی کے کڑوے پن کی بناء پر کرتا ہے لیکن جب دوا اپنا کام کر جاتی ہے تو سب کچھ معمول پرآجاتا ہے ۔ ویسے اگر کوئی معصوم بچہ شور مچائے تو اسے نادان کہا جاتا ہے لیکن اگر کوئی بالغ جانتے بوجھتے ایسی حرکت کرے تو اسے بدمعاش کہتے ہیں ۔مصر عدالتیں اور حزب اختلاف کس قدر معصوم ہیں یا کتنےبدمعاش اس کا فیصلہ عوام ۱۵ دسمبر کے استصواب میں کر دیں گے ۔ صدر محمدمورسی نے اسی قلم سے عدلیہ کا سر قلم کیا جسے اس نے صدر کا اس عوام کا سر قلم کرنے کیلئے سان پر چڑھا رکھا تھا جن کا وہ نمائندہ ہے اس قلم کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ
مرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی
جو اپنے چہرے پہ دوہرا نقاب رکھتا ہے
مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1238794 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.