جماعت اسلامی قیام پاکستان سے پہلے قائم
ہوئی تھی۔ جماعت اسلامی کے قائم ہوتے ہیں اس پر اعتراضات اور تنقید کی
بوچھاڑ کردی گئی، لوگ جماعت اسلامی پر مختلف اعتراضات کرتے ہوئے مولانا
مودودی سے رابطہ کرتے تھے یا براہ راست ان سے ملتے تھے اور پھر جماعت
اسلامی کے کارکن بن کر واپس جایا کرتے تھے کیوں کہ مولانا مودودی اور ان کے
رفقائے کار معترضین کی بات تحمل سے سنتے اور پھر اس کا تسلی بخش جواب دیتے۔
یہ صورتحال سیکولر ازم اور کیمونزم کے پرستاروں، کرپٹ سیاستدانوں اور دین
اسلام کو مشکل بنا کر عوام کو گمراہ کرنے والے مذہبی عناصر ان تمام ہی کے
لیے ناقابل قبول تھی ۔ اس لیے اب یہ ضروری ہوا کہ اول تو ان پر بے سروپا
الزامات و اعتراضات کی بوچھاڑ کردی اور دوسرے نمبر پر جھوٹا پروپیگنڈہ اور
تیسرے نمبر پر یہ بات کہ اپنے حامیان، ووٹرز، مریدین اور عوام کو یہ بات
کہی کہ مولانا مودوی اور جماعت اسلامی کا لٹریچر ہی نہ پڑھیں اور نہ ہی ان
کی باتیں سنیں۔ یہ کام اس لیے کیا گیا کہ جب کوئی فرد اپنے لیڈران و دیگر
اصحاب کی باتیں سن کر حقیقت حال جاننے کے لیے مولانا مودودی مرحوم سے ملتا
یا ان کا لٹریچر پڑھتا یا جماعت اسلامی کے ارکان و ممبران سے ملتا تو اس کو
اصل بات پتہ چل جاتی کہ کون سچا ہے کون جھوٹا ، کون صحیح ہے اور کون غلط۔
اس لیے تمام ہی جھوٹوں نے مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے لٹریچر کو
پڑھنے سے ہی اپنے لوگوں کو روکا بلکہ اب بھی روکا جاتا ہے کہیں یہ کہہ کر
یہ جھوٹی باتیں ہیں کہیں یہ کہہ کر کہ اگر ان کی کتابیں پڑھو گے تو گمراہ
ہوجاؤگے۔
جب میں لوگوں کی ایسی باتیں سنتا اور دیکھتا ہوں تو مجھے عہد نبوی اور اس
دور کے جھوٹے لوگ یاد آتے ہیں۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب نبی اکرم ؐ نے دعوت
دین کا آغاز کیا تو لوگوں سے پہلا سوال اپنے اخلاق و کردار کے بارے میں
پوچھا، اور مخالفین نے بھی آپ کے کردار کی عظمت کو سراہا۔ یہ حال مولانا
مودودی کا تھا کہ مخالفین بھی ان کے کردار پر انگلی نہیں اٹھا سکتے ۔ کفار
مکہ نے اس کے بعد مناظرے و مباحثے (اعتراضات ) کرنا شروع کیے۔ جو فرد بھی
نبی اکرم ؐ کے پاس اعتراضات لیکر جاتا اور پھر کلمہ طیبہ کا ورد کرتا ہوا
واپس آتا۔ یہ حال دیکھ کر کفار مکہ نے لوگوں سے کہنا شروع کردیا کہ محمد ؐ
کی بات نہ سننا ورنہ نعوذ باللہ گمراہ ہوجاؤ گے۔یہی حال مولانا مودودی ؒ کے
مخالفین کا ہے یعنی جب انھوں نے دیکھا کہ ان کے سارے اعتراضات اور الزام تو
غلط ثابت ہورہے ہیں تو اس کے بعد اب یہی پروپیگنڈہ رہ جاتا ہے کہ مولانا
مودودی اور جماعت اسلامی پر الزام در الزام لگاتے جاؤ اور ان کی کوئی بات
سننے کی کوشش نہ کرو اور مولانا مودودی کتابیں پڑھنا ہی ممنوع قرار دیدی
جائیں۔
آج بھی جماعت اسلامی پر مختلف نوعیت کے الزامات لگائے جاتے ہیں ان میں سے
ایک یہ بھی ہے کہ جماعت اسلامی صرف سیاست کرتی ہے دین کا کوئی کام نہیں
کرتی ہے۔ اب مجھے نہیں پتہ کہ یہ بات کہنے والوں کے نزدیک دین کا کام کس کو
کہتے ہیں۔بہرحال ایسا کہنے والوں سے ایک سوال ہے کہ انہوں نے کبھی جماعت
اسلامی کے کسی درس قرآن یا درس حدیث میں شریک ہونے کی کوشش کی ہے؟؟ پورے
ملک میں جماعت اسلای کے تحت مختلف مساجد اور گھروں پر درس کے حلقے قائم ہیں
جہاں ہفتہ وار، پندرہ روزہ یا ماہانہ بنیادوں پر درس قرآن کا اہتمام کیا
جاتا ہے اور عوام کو قرآن کی دعوت دی جاتی ہے۔
معترضین کو یہ بھی نہیں معلوم کہ جماعت اسلامی کے تحت ملک بھر میں ہزاروں
مدارس ہیں جن میں چند ایک میں بتا دیتا ہوں ، جامعہ منصورہ ہالا سندھ،
جامعہ حنیفیہ سعود آباد کراچی، جامعہ نعمان کراچی،مدرسہ الاخوان نیو کراچی
اور اس کے علاوہ بھی ملک بھر میں سیکڑوں مدارس ہیں جہاں طلبہ کو درسِ
نظامی،حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم اور کمپیوٹر کی تعلیم بھی دی جاتی
ہے۔اس کے علاوہ ملک بھر میں ہزاروں مدارس تفہیم القرآن کے نام سے موجود ہیں
جہاں بچوں اور بچیوں کو قرآن پاک ناظرہ پڑھایا جاتا ہے ۔ یہاں یہ بھی واضح
رہے کہ بچیوں کے لیے جماعت اسلامی کے تحت حافظہ اور معلمہ کا انتظام کیا
جاتا ہے تاکہ وہ سکون اور یکسوئی کے ساتھ تعلیم حاصل کریں ۔
جماعت اسلامی کے تحت ملک بھر میں سکڑوں اسکول کام کررہے ہیں جن میں سب سے
مشہور اور وسیع سلسلہ دارِ ارقم اسکول ہے جس کے تحت پنجاب بھر میں سیکڑوں
اسکولز ہیں۔ اس کے علاوحرا پبلک اسکول سسٹم،غزالی گرلز اسکول اینڈ
کالج،گرین فلیگ پبلک اسکول ، حینفیہ پبلک اسکول، عثمان پبلک اسکول سب سے
بڑھ کر کچی آبادیوں میں قائم کیے گئے ’’ بیٹھک اسکول‘‘ جس کا سلسلہ پورے
ملک میں پھیلا ہوا ہے۔
ملک بھر میں کسی بھی طرح کی قدرتی آفات کے موقع پر جماعت اسلامی کے کارکنان
میدان عمل میں نکلتے ہیں اور دامے درمے قدمے سخنے اپنے آفت زدہ بھائیوں کی
مدد کرتے ہیں۔ جماعت اسلای اور الخدمت کے تحت ریلیف کیمپ لگائے جاتے ہیں
اور متاثرین کے لیے امداد جمع کی جاتی ہے۔ لوگوں کو یہ سن کر بہت حیرت ہوگی
کہ کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں دوہزار پانچ کے زلزلے کو شائد اب لوگ
بھول گئے ہوں لیکن جماعت اسلامی آج بھی وہاں ریلیف کا م کررہی ہے۔بلوچستان
اور اندرون سندھ میں گذشتہ سال سے اب تک جماعت اسلامی وہاں موجود ہے اور
سیلاب متاثرین کو اپنی ممکنہ حد تک ریلیف فراہم کررہی ہے۔
الخدمت کے نام سے الحمد اللہ پورا ملک واقف ہے لیکن شائد لوگوں کویہ نہیں
پتہ کہ الخدمت کے تحت ملک بھر میں کئی علاقوں میں ہومیو کلینک اور ڈسپنسریز
موجود ہیں جہاں انتہائی لوگوں کو سستے علاج معالجے کی سہولت فراہم کی جاتی
ہے جبکہ الخدمت ہسپتال کا الگ شعبہ ہے جس میں ماہر ڈاکٹرز مریضوں کو علاج
معالجے کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ جبکہ الخدمت کے تحت کئی میٹرنٹی ہومز بھی
ہیں جہاں سہولیات آغا خان اور لیاقت نیشنل جیسی فراہم کی جاتی ہیں لیکن فیس
کسی بھی عام پرائیوٹ ہسپتال جتنی بلکہ کچھ کم اور اس میں بھی اگر کوئی فرد
فیس دینے میں تنگی محسوس کرے تو اس میں مزید رعایت بھی دی جاتی ہے۔
ملک میں مہنگائی اور بیروگاری کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ لوگ بھیک
مانگنے پر مجبور ہیں اور جو لوگ نہ تو یہ برداشت کرسکتے ہیں اور نہ ہی کسی
کے سامنے ہاتھ پھیلا سکتے ہیں ان کے پاس خود کشی کا ہی راستہ بچتا ہے۔
جماعت اسلامی ممکنہ حد تک لوگوں کو ریلیف فراہم کرتی ہے اور اس وقت ملک بھر
میں ہزاروں گھروں میں جماعت اسلامی کے تحت ماہانہ بنیادوں پر راشن فراہم
کیا جارہا ہے۔ جبکہ رمضان المبارک میں لاکھوں خاندانوں میں راشن بیگز کی
تقسیم اس کے علاوہ ہے۔
ملک بھر میں ہزاروں گھرانے ایسے ہیں جہاں شادی کے لائق بچیاں ہوتی ہیں لیکن
غربت کے باعث وہ اپنی بچیوں کی شادی نہیں کرسکتے ہیں، ہزاروں نوجوان شادی
کے لائق ہیں لیکن صرف اس وجہ سے کہ وہ شادی کے اخراجات برادشت نہیں کرسکتے
اور وہ کنوارے رہتے ہیں۔ جماعت اسلامی نے اس مسئلہ کو اول روز سے ہی اہمیت
دی ہے اور جماعت اسلامی کا ایک مستقل شعبہ ’’شعبۂ ہمسفر ‘‘ کے نام سے موجود
ہے جہاں بچے اور بچیوں کے لیے مناسب رشتوں کا انتظام کیا جاتا ہے ( واضح
رہے کہ یہ کام فی سبیل اللہ کیا جاتا ہے شادی دفتر کی طرح یہاں پیسے نہیں
بٹورے جاتے ہیں)۔ اس کے علاوہ غریب اور نادار بچیوں کے لیے مناسب جہیز کا
انتظام بھی کیا جاتا ہے تاکہ وہ صرف جہیز نہ ہونے کے باعث گھر میں نہ بیٹھی
رہیں۔ اس کے علاوہ یہ جو آپ پورے ملک میں اجتماعی شادیوں کا ایک ٹرینڈ چلا
ہے جہاں غریب اور نادار لوگوں کے لئے ایک ہی جگہ اور ایک دن شادی کا انتظام
کیا جاتا ہے تاکہ وہ وہاں پر اجتماعی طور پر اپنی شادی کی رسومات انجام دیں
اور اجتماعی طور پر اپنے مہمانوں کی دعوت کرسکیں تاکہ کسی کی عزت نفس بھی
مجروع نہ ہو اور ان پر بوجھ بھی نہ پڑے تو یہ طریقہ بھی جماعت اسلامی نے ہی
متعارف کرایا ہے۔
عید الاضحی کے موقع پر اجتماعی قربانی اور قربان گاہ کا انتظام بھی کیا
جاتا ہے تاکہ لوگ یہ مذہبی فریضہ آسانی کے ساتھ ادا کرسکیں۔ اور قربان کا
انتظام بھی کیا جاتا ہے تاکہ جو لوگ جانور تو خرید لیتے ہیں لیکن اس کے بعد
قصائی کے نخرے اور دیگر مسائل کا سامان نہیں کرسکتے وہ مناسب نرخ پر اپنا
جانور وہاں ذبح کراسکتے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی بتا دوں کہ جماعت اسلامی اور الخدمت کا ہر سال باقاعدہ آڈٹ
ہوتا ہے اور ان کے سال بھر کے آمدنی و اخراجات کی تفصیل باقاعدہ شائع کی
جاتی ہے۔ اب اگر یہ ساری باتیں خدمت خلق اور دین کی خدمت نہیں ہیں تو پھر
ان کو کیا کہاجائے گا؟؟ اور جو لوگ جماعت اسلامی پر اعتراضات کرتے ہیں کیا
ان کے کریڈٹ پر جماعت اسلامی کی طرح یہ سارے کارنامے ہیں؟؟ |