عہد کریں

تحریر....مدثرجمال تونسوی

’’اطلاعات کے مطابق پاکستان نے افغانستان میں قیام ِ امن کی کوششوں میں مدد دینے کے لیے درمیانے درجے کے تیرہ طالبان رہنماؤں کو رہا کر دیا ہے۔رہا کیے جانے والوں میں روس کے خلاف افغان جنگ کے اہم کمانڈر مولوی یونس خالص کے بیٹے انوارالحق بھی شامل ہیں۔ انوار الحق تورہ بورہ کے طالبان کمانڈر تھے اور انہیں دو ہزار نو میں پشاور سے گرفتار کیاگیا تھا۔‘‘

یہ وہ خبر ہے جو آج کل پاک افغان اور امریکہ تعلقات کے ماہرین کے درمیان گردش کررہی ہے۔ اس واقعے پرفی الحال طالبان کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیاجبکہ امریکہ اس واقعے سے کافی خوش دکھائی دے رہا ہے کیوں کہ امریکہ ایک طویل عرصے سے طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہا ہے مگر طالبان اس کے ساتھ اپنی متعینہ شرائط سے ہٹ کر بات کرنے کوتیار نہیں ہیں ، اب امریکہ یہ سمجھ رہا ہے کہ شاید اس طرح اس کے مذاکرات کاکوئی راستہ ہموار ہوجائے، اسی طرح امریکہ اس کوشش میں بھی ہے کہ افغانستان سے انخلائ کے لیے اسے طالبان کی طرف سے محفوظ راستہ دیاجائے تاکہ وہ واپسی کے وقت روس کی طرح رسوا ہوکروہاں سے نہ نکل رہا ہو کیوں کہ امریکہ مزید ذلت برداشت کرنے کی سکت خود میں نہیں پارہا خاص کر ان حالات میں جب کہ وہ عراق میں بھی مطلوبہ اہداف حاصل نہ ہونے اور شدید مزاحمت کاسامنا کرنے کی وجہ سے اپنی عالمی طاقت ہونے کازعم میں خاک میں ملاچکا ہے۔ مگر اس واقعے میں امریکہ کے لیے خوشی کاکوئی پیغام نہیں ہے کیوں کہ طالبان کے ہاں کسی کی گرفتاری یارہائی اور کسی کی موت یاشہادت ان کے حقیقی مقاصد واہداف پرکچھ اثر انداز نہیں ہوتی، ان کے مقاصد بہت اعلی وارفع ہیں جنہیں اس طرح کے معاملات سے بدلا نہیں جاسکتا۔ اس کااندازہ کچھ دن قبل ہونے والی اس کارراوئی سے ہوسکتاہے جو مجاہدین نے کابل شہر کے ہائی سیکیورٹی زون میں کی۔ رپورٹ کیمطابق بدھ کے روز2012-11-21 مقامی وقت کیمطابق صبح آٹھ بجے کے لگ بھگ امارت اسلامیہ کے دو فدائین نے شہرکے وسط وزیراکبرخان کے علاقے سڑک نمبر13 اور 14 میں جارح افواج پرشدیدفدائی حملے انجام دیے۔رپورٹ میں کہاگیاہے کہ اس حملے میں دو نوجوان سرفروشوں شہید احمدللہ عرف عباس تقبلہ اللہ اور شہید عبدالعزیزعرف ساجدتقبلہ اللہ نے حصہ لیا،ایک فدائی نے جارح افواج کے پیدل دستوں پرجو15کے لگ بھگ فوجی تھے،حملہ کیا،جوپندرہ منٹ تک جاری رہا اور دوسراسرفروش نوجوان بیس منٹ تک مسلسل دشمن سے نبردآزمارہا اوربعدمیں دشمن کی گولی سے شہید ہوا۔ذرائع کیمطابق دونوں حملوں میں 15 جارح وکٹھ پتلی فوجی ہلاک ہوئے۔

عراق سے انخلائ کے بعد امریکہ نے سوطرح کی تدبیریں کیں کہ کسی طرح افغانستان میں اپنی شکست کوفتح سے تبدیل کرلے ۔ اس مقصد کے لیے افغان مجاہدین کو شکست دینے کے لیے امریکہ نے ہرتدبیر آزما لی،اپنی شکست کو ٹالنے کے تمام جتن کر ڈالے،اپنی تمام عسکری قوت اوراپنا ساراسرمایہ جھونک دیا۔اس کے باوجود امریکہ افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں شرم ناک شکست سے دوچارہے۔ اس کا غرور خاک میں مل چکا ہے۔ اس بات میں کوئی شبہ باقی نہیں رہاکہ امریکہ افغانستان سے ناک کٹوانے کے بعدفرار توہونا چاہتا ہے،مگریہ بھی چاہتاہے کہ دنیا کسی طرح اس کی شکست کو’فتح‘تسلیم کر لے۔حالانکہ امریکی پہلے ہی وہ سارے اقدامات کر چکے ہیں جو شکست خوردہ قومیں کیاکرتی ہیں۔ کیا یہ امریکہ کا اعتراف شکست نہیں کہ ملا عمرجن کو زندہ یا مردہ پکڑنے پر اربوں روپے مقرر تھے،ان کا نام ایف بی آئی کی انتہائی مطلوب لوگوں کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔نائب امریکی صدر جوبائیڈن نے علانیہ کہہ دیا ہے کہ طالبان امریکہ کے دشمن نہیں۔میک کرسٹل جیسے امریکی جنرل کہہ رہے ہیں کہ ہم سے غلطی یہ ہوئی کہ جنگ شروع کرنے سے پہلے ہم نے افغانستان کی تاریخ نہیں پڑھی اورہم نے افغان قوم کی قوت مدافعت کا صحیح اندازہ نہ لگایا۔امریکہ اور یورپ نے اپنی فوجیں نکالنے کا اعلان کرکے زبانِ حال سے یہ تسلیم کیاکہ افغان مجاہدین نے گیارہ سال تک دنیا کی50طاقتوں کے اتحاد کے خلاف ایک مثالی جنگ لڑ کر انہیں شکست دے دی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ نیٹواور امریکہ نے تو شکست کا اعتراف کیا، لیکن ہمارے ذرائع ابلاغ نے جہاد اورمجاہدین کی فتح کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا۔حالانکہ افغانستان میں امریکی شکست امت مسلمہ کے لیے بہت بڑی بشارت اور طلوع سحر کاپیغام ہے۔

بلا شبہ گزشتہ ایک عشرہ مسلمانوں پربہت گراں گزراہے۔دنیا کے کونے کونے میں پیچھا کر کے مجاہدین کو پکڑا گیااور زرد لباسوں میں ہتھکڑیاں پہنا کر گھسیٹا جاتا رہا۔ ان کے پاس اسلحہ نہیں تھا ،قوت وحکومت نہیں تھی، وہ مسکینی اور بے بسی کے عالم میں مارے جاتے رہے،ان کی لاشوں کی نمائشیں لگائی جاتی رہیں،ان پر خدا کی زمین اپنی وسعت کے باوجودتنگ کر دی گئی۔ افغانستان میں کارپٹ بم باری اورقیامت خیز ظلم وستم کے دن کوئی کیسے بھول سکتا ہے۔وہ بالکل آیات قرآنی میں بیان کردہ منظر تھاجب دشمن اوپر سے اور نیچے سے ان پر چڑھ آئے تھے، جب خوف کے مارے آنکھیں پتھراگئی تھیں اور کلیجے منہ کو آگئے تھے،مگریہ سب کچھ غیر متوقع تو نہ تھا، اس کی اطلاع تو ان کوپہلے ہی دی جا چکی تھی: ’’اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر ، فاقہ کشی ، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے۔ اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے ، تو کہیں کہ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘ ا نہیں خوش خبری دے دو۔‘‘﴿البقرہ:56-155﴾

افغان قوم کے صبر و استقامت کے نتیجے میں انہیں یہ خوش خبری آج افغانستان میں سنائی گئی کہ جن لوگوں نے صبر کیا انہوں نے اجر پا یا۔اللہ تعالیٰ نے مصیبت میں صبر کرنے والوں سے اپنی نصرت کا پختہ وعدہ کر رکھا تھا:" پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت کا داخلہ تمہیں مل جائے گا حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے ، جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ ان پر سختیاں گزریں ، مصیبتیں آئیں اوروہ خوب جھنجھوڑے گئے ، حتی کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہلِ ایمان پکار اُٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔﴿ اس وقت انہیں تسلی دی گئی کہ ﴾ ہاں اللہ کی مدد قریب ہے۔‘‘﴿البقرہ:214﴾

اللہ تعالٰی پربھروسے اورصبر واستقامت کا اصل امتحان کمزوری اور مصیبت کے دور میں ہوتا ہے۔ اسلام کی قوت اور فتح پرخوش ہونا آسان ہے،لیکن مسلمانوں کے ضعف اور شکست کے وقت مایوسی اور ناامیدی سے بچنا اَصل کمال اوربڑے دل گردے کاکام ہے۔ جب مصیبت اور غم کے اندھیرے چھا جائیں ،اسلام دشمن قومیں مسلمانوں پر ٹوٹ پڑیں ، شدید تنگی اور مصائب چاروں طرف سے گھیر لیں، تواللہ تعالیٰ پر سچا یقین رکھنے والوں کا یقین و ایمان اور زیادہ ہو جاتا ہے،وہ نہیں گھبراتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آخری فتح مسلمانوں کی ہے اورآخرکاراسلام نے غالب ا ٓکر رہنا ہے۔افغان مجاہد ین کی ہروقت یہی کوشش رہی ہے کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا دین غالب ہو جائے، لہٰذا اس عظیم مقصد کے لیے ہمیشہ صبر و یقین پر کاربند رہے۔اس لیے کہ صبرویقین کے ساتھ دین کی امامت حاصل ہوتی ہے :’’اور جب انہوں نے صبر کیا اور ہماری آیات پر یقین لاتے رہے تو ان کے اندر ہم نے ایسے امام پیدا کیے جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے۔ ﴿سورۃ السجدۃ:24 ﴾۔ مظالم اور اسلام دشمنی کی رات نے آخر ختم ہو جانا ہے ،حق کی روشنی پھیل کر رہے گی ،امریکہ اور اس کے حواری خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے اور زمین میں وہی﴿جہاد اور مجاہدین﴾ باقی رہ جائیں گے جو انسانیت کے لیے نفع بخش ہیں ، اللہ کی تقدیر کا یہ فیصلہ ایک دن برحق ثابت ہو گا کہ آخری فتح متقین ہی کی ہے۔یہ خدائے عزوجل کا اٹل فیصلہ ہے کہ یہاں بقا صرف نفع بخش چیز یعنی ایمان اوراہل ایمان کا مقدّر بنتی ہے:’’جو جھاگ ہے وہ ا ڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔﴿الرعد:17 ﴾

اس حقیقت کا ادراک تو سب کو ہے کہ جس وقت امریکا افغانستان میں آیا تھا تو اس کی نظر میں دوباتیں طے شدہ تھیں: ایک یہ کہ امریکا کو افغانستان میں بہت جلد کامل فتح حاصل ہوگی اور دوسری یہ کہ امریکا کو افغانستان میں جن قوتوں سے معرکہ آرائی درپیش ہے وہ دہشت گرد ہیں۔ خون آشام ہیں۔ زمین کا بوجھ ہیں۔ پوری مہذب دنیا کے لیے خطرہ ہیں اور ان سے کسی صورت میں بات نہیں ہوسکتی۔ لیکن آنے والے وقت نے امریکا کے یہ دونوں تجزیے غلط ثابت کردیئے۔ امریکا کو افغانستان میں مکمل فتح کے بجائے مکمل شکست کا سامنا ہے۔ دوسری جانب منظریہ ہے کہ امریکااپنے مزعومہ’’دہشت گرد‘‘ اور’’خون آشام‘‘ طالبان سے مذاکرات کے لیے مرا جارہاہے۔ اس ضمن میں امریکا کے جوش وجذبے کا یہ عالم ہے کہ امریکا کی کوئی نہ کوئی اہم شخصیت روز دنیاکو یہ بتارہی ہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہورہے ہیں۔حال ہی میں پاکستان سے رہاکیے گئے بعض طالبان کمانڈروں کی رہائی کو بھی اسی نقطۂ نظر سے پیش کیا جارہا ہے۔ دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ امریکا جتنی شدت سے مذاکرات کے ہونے پر اصرارکررہاہے طالبان اتنی ہی شدت کے ساتھ مذاکرات کے امریکی اعلانات سے انکارکررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ افغانستان میں امریکا کی یہ ’’مذاکراتی حالت‘‘ کیوں ہوگئی ہے؟ دنیا کی تاریخ بتاتی ہے بحرانوں بالخصوص جنگوں میں مذاکرات کی بات اس وقت ہوتی ہے جب زیادہ طاقت ورسمجھی جانے والی طاقت حریف کو عسکری طورپر شکست دینے سے معذورہوجاتی ہے۔ امریکا 11سال تک افغانستان میں اس امید پر بے پناہ عسکری اور معاشی طاقت استعمال کرتا رہا کہ فتح اسی کی ہوگی لیکن بالآخر حالات کے جبراور جہادکی قوت نے امریکہ کو شکست کے احساس سے دوچار کردیاہے چنانچہ وہ مجبورہوکر طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہاہے۔ ادھر اندرونی طورپر عراق اور افغانستان کے خلاف امریکا کی جارحیت نے امریکا کی معاشی قوت کو بے پناہ نقصان پہنچادیاہے اسی کمزوری کے واضح آثار یہ ہیں کہ اب اس کی ریاستوں میں آزادی کی لہر تیز ہوگئی ہے اور جولوگ یہ کہہ رہے کہ امریکی ریاستوں کی آزادی کے اعلان پر امت مسلمہ کوزیادہ خوش نہیں ہونا چاہیئے توٹھیک ہے کہ وہ اپنا حق نمک حلال کررہے ہیں مگر کیا آج اگر عارضی طور پرامریکہ اپنے بکھرنے کوبچابھی لے تو کیا وہ اس پوزیشن میں ہے کہ زیادہ دیر تک اس خراب ترمعاشی صورتحال کے ساتھ ان ریاستوں کو اپنے ساتھ رکھ سکے؟ ہرگز نہیں!

اگرچہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ طاقت اور مادی وسائل مسلمانوں کے دشمنوں کے پاس ہے ،لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اللہ ہی مالک ومتصرف اور مختارِ کل ہے ، وہ اپنے مومن بندوں سے غافل نہیں ، وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ اُس کا پسندیدہ دین اور مسلمان ہمیشہ مجبورو مقہور اور ذلیل رہیں اور انسانیت کے دشمن آزادی کے ساتھ دنیا میں فسادکاڈنکا بجاتے رہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا '' عدل کامیزان رحمن کے ہاتھ میں ہے ، وہ قیامت تک بعض قوموں کو اُٹھاتا اور دوسروں کو گرادیتا ہے۔"اب صاف نظر آنے لگا ہے کہ گرنا دوسروں کا مقدر اور اٹھنے کی باری امت مسلمہ کی ہے۔اس لیے امت پر واجب ہے کہ اپنے دکھوں کو بھول جائے، آنسوئوں کو پی لے اورغصے کو روکے رکھے،صبر کے بعد مزیدصبر کہ بشارت صبر کرنے والوں کے لیے ہے۔قرآن پاک کی طرح احادیث نبوی میں بھی ایسے ہی وعدے کیے گئے اور ایسی خوش خبریاں دی گئی ہیں کہ ان سے ہمارے یقین اورامیدمیں اضافہ ہونا چاہیے۔مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا یہ وعدہ بتایا ہے کہ امت مسلمہ کی حکومت مشرق سے مغرب تک پھیل جائے گی۔ دنیا میں زیادہ ممالک اور علاقے ایسے ہیں جو ابھی تک مسلمانوں کے ہاتھوں فتح نہیں ہوئے،حضور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتوں کے مطابق ایک دن ایسا آنے والا ہے جب یہ علاقے بھی فتح ہوجائیں گے اور ان کے لوگ اسلام میں داخل ہو جائیں گے۔ ان شائ اللہ تعالیٰ۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے ، آپ نے فرمایا :"اللہ نے ساری زمین اکٹھی کرکے مجھے دکھائی۔ میں نے تمام مشرقی و مغربی علاقے دیکھ لیے ، بے شک میری امت کی حکومت وہاں تک پہنچ جائے گی جو مجھے دکھایا گیا ہے۔" متعدد صحابہ سے یہ حدیث بھی روایت ہوئی ہے "الاسلام یَعلُو ولا یُعلی" اسلام غالب ہو گا مغلوب نہیں ہوگا﴿صحیح بخاری﴾۔ تو پھرجب صادق ومصدوق علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں حتمی فتح و نصرت کے بارے میں بشارت دیتے ہیں تو ہم مسلمانوں کی عارضی کمزوری پر اوروقتی مصیبتوں پر نا امید ومایوس کیوں ہوں؟۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مبارک زبان سے یہ خوش خبری بھی دی ہے کہ :" یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا مسلمانوں کی ایک جماعت قیامت تک دین اسلام کے دفاع کے لیے لڑتی رہے گی۔" بے شک ہم بے صبرے ہیں،مگراللہ کے پاس ہمارے جیسا پیمانہ اور ترازو نہیں ہے ،اللہ کا پیمانہ اور ترازو مکمل انصاف اور عدل و حکمت والا ہے۔بے شک بندوں کی کمزوری کے بعد اللہ انہیں قوت بخشتا ہے۔ ایک حدیث قدسی صحیح بخار ی میں آئی ہے : "جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی رکھتا ہے ، میں اس سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں"۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مخلص ایمان والے اورمجاہدین اللہ تعالی کے دوست ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ صرف دس گیارہ سال کی مدت میں عالمی طاقت کاشکست سے دوچارہونا سوائے اس کے کہ اللہ تعالی کی مدد ونصرت کے سہارے ہوا ہے اس بات کوتسلیم کیے بغیر کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔

نئے اسلامی سال کے آغاز پرہم مسلمان اس بات کاعہد کریں کہ اسلام کی سربلندی اور احیائ کے لیے جو قربانی بھی ہمیں دینا پڑی ہم وہ دیں گے۔ اب ہمارا جینا اورمرنا سب اللہ کے لیے، اللہ کے دین کے لیے، اسلام کی سربلندی اوراحیائ کے لیے ہے۔ غور سے دیکھیے ! اسلام دشمن قوتوں اور ان کے حواریوں کو ہرجگہ افغانستا ن کے بعد ادھر فلسطین میں، شام میں، صومالیہ میں شکست ہورہی ہے اور اسلام کاسورج ہرجگہ طلوع ہورہا ہے جس کی نوربکھیرتی کرنوں کو نہ پہلے سپرپاور کہلانے والی حکومتیں روک سکیں اور نہ اب کوئی ایسی سپرپاور اسے روک سکے گی۔
Zubair Tayyab
About the Author: Zubair Tayyab Read More Articles by Zubair Tayyab: 115 Articles with 166611 views I am Zubair...i am Student of Islamic Study.... View More