مجھے معلوم نہیں
امام شعبی(رح) سے ایک مسئلہ پوچھا گیا، انہوں نے جواب دیا کہ مجھے اس کا
علم نہیں ۔
مسئلہ دریافت کرنے والے نے کہا:کیا آپ کو یہ کہتے ہوئے شرم نہیں آتی، آپ تو
عراق کے فقیہ ہیں؟‘‘
انہوں نے جواب دیا کہ جب فرشتوں کو یہ کہتے ہوئے شرم نہیں آئی:
سبحانک لاعلم لناالاماعلمتنا﴿البقر ہ: ۲ ۳ ﴾
’’آپ ہرعیب سے پاک ہیں،ہمیں کوئی علم نہیں مگر﴿اتنا ہی علم ہے﴾ جوآپ نے
ہمیں سکھلایا ہے‘‘
تومیں لاأدری﴿مجھے معلوم نہیں﴾کہتے ہوئے کیوں شرمائوں۔﴿ الا
صبھانی:محاضرات۱/۰۵﴾
جو کھو جائے اس پر ہرگز افسوس نہ کر
امام شعبی(رح) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے قمر ی﴿فاختہ کی مانند ایک
پرندہ ہے جس کی آواز بہت خوبصورت ہوتی ہے﴾ کو شکار کیا، قمری نے شکاری سے
کہا:’’تو مجھ سے کیا چاہتا ہے؟
اس نے کہا:’’میں تجھے ذبح کروں گا اور تیرا گوشت کھائوں گا‘‘۔
قمری نے کہا: مجھے کھانے سے تیرا پیٹ تو بھرے گا نہیں، اس سے بہتر ہے کہ
میں تمہیں تین باتیں سکھلائوں جو زندگی بھر تیرے کام آئیں.
ایک بات اس وقت بتائوں گی جب میں تیرے ہاتھ میں ہوں گی، دوسری اس وقت جب
میں درخت پر بیٹھ جائوں گی اور تیسری اس وقت بتائوں گی جب میں پہاڑ پر جا
بیٹھوں گی‘‘۔
شکاری رضامندہو گیا، اس نے کہا:’’ بتا، پہلی بات کیا ہے؟
قمری نے کہا:
لا تلھفن علیٰ شیئِ فات
’’ جو چیز ہاتھ سے نکل جائے اس پر ہرگز افسوس نہ کر‘‘
شکاری نے اسے چھوڑ دیا، وہ اُڑکر درخت پر جا بیٹھی اور کہا:
لاتصدقن بمالایکون انہ یکون
’’ناممکن چیز کے ممکن ہونے کی ہرگز تصدیق نہ کر‘‘
جب وہ پہاڑ پر بیٹھی تو اس نے کہا:
’’ارے بدبخت! اگر تو مجھے ذبح کرتا تو میرے پوٹے میں سے تودوموتی
نکالتا،ہرموتی کاوزن بیس مثقال ہے۔
اب شکاری مارے افسوس کے اپنے ہونٹ اور کفِ افسوس ملنے لگا، پھر کہا:
’’اچھا،اپنی تیسری بات بتا‘‘
اس نے کہا:’’ تو پہلی اور دوسری بات تو بھول گیا ہے، میں تیسری بات تجھے
کیسے بتائوں؟
کیا میں نے تجھ سے نہیں کہا تھا کہ جو چیز ہاتھ سے نکل جائیں اس پر افسوس
نہ کرنا‘‘
اور یہ کہ جس چیزکا ہونا ممکن نہ ہو اس کے ہونے کی تصدیق نہ کرنا.
میں، میرا گوشت،میرا خون اور میرے پر سب ملا کر بیس مثقال کے ہم وزن نہیں
ہیں، مجھ میں بیس بیس مثقال کے دوموتی کیسے ہو سکتے ہیں‘‘ یہ کہہ کروہ
اُڑگئی۔﴿ ابن عاصم: حدائق،ص ۵۹۲﴾
والدین سے نیکی کا صلہ
طاؤس روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی کے چار بیٹے تھے، باپ بیمار ہو گیا، ایک
بیٹے نے اپنے بھائیوں سے کہا:’’تم دوباتوں میں سے کوئی ایک بات پسند کر لو،
یا تو تم والد کی مکمل تیمارداری کرو اور اس کی میراث میں سے کچھ نہ لو،
یامیں اس کی تیمارداری کرتا ہوں اور مجھے اس کی میراث میں سے کچھ نہ دیا
جائے‘‘
بھائیوں نے کہا:’’ آپ ہی اس کی دیکھ بھال کریں، میراث میں آپ کا کوئی حصہ
نہیں ہوگا‘‘
اس نے والد کی تیمار داری کرنی شروع کی، یہاں تک کہ والد کا انتقال ہو گیا
اور میراث میں سے بھی اسے کچھ نہ ملا، ایک رات خواب میں کسی نے اس سے
کہا:’’ فلاں جگہ جائو ، وہاں سو دینار رکھے ہیں وہ اُٹھا لو۔
اس نے پوچھا:’’ کیا وہ برکت والے ہیں؟‘‘
اس نے کہا:’’ نہیں‘‘
صبح ہوئی تو اس نے بیوی سے اس کا ذکر کیا،بیوی نے کہا:’’ ہم بھوک سے مررہے
ہیں اور تجھے برکت کی پڑی ہے، وہ لے آ، اس کی برکت یہی ہے تو اس سے کھائے،
پئے اور زندگی گذارے‘‘ مگر وہ نہ مانا
جب اگلی رات ہوئی تو کسی نے خواب میں کہا:’’ فلاں جگہ جائو اور دس دینار
اٹھا لو‘‘ اس نے پوچھا:’’کیا ان میں برکت ہے؟ جواب ملا:’’ نہیں‘‘ صبح اس نے
پھر بیوی سے اس کا تذکرہ کیا، بیوی نے وہی پہلا جواب دیا، تاہم شوہر نے اس
روز بھی وہ دینار نہ اُٹھائے، تیسری رات پھر اس کوخواب آیا، کسی نے
کہا:’’فلاں جگہ سے ایک دینار اُٹھالو، اس نے پوچھا:’’ اس میں برکت ہے؟اس نے
کہا:’’ ہاں‘‘، صبح ہوئی تو آدمی وہاں گیا اور دینار اُٹھا لایا، بعدازیں وہ
بازار گیا ،وہاں ایک آدمی کے پاس دو مچھلیاں تھیں،اس نے اس سے پوچھا:یہ
کتنے کی ہیں؟ آدمی نے کہا:’’ ایک دینار کی‘‘ وہ ایک دینار سے دو مچھلیاں
خرید کر گھر لے آیا، جب اس نے ان کا پیٹ چاک کیا تو اس میں دوایسے خوبصورت
قیمتی موتی برآمد ہوئے کہ کسی نے اس سے پہلے اس جیسے نہ دیکھے ہوں گے۔
کہتے ہیں کہ بادشاہ کو ویسے ہی ایک موتی کی تلاش تھی، اس نے تمام جو ہریوں
سے اس بابت معلومات کیں مگر کسی کے پاس ویسا موتی نہ تھا، اس لڑکے کے پاس
وہ موتی مل گیا، آدمی نے وہ موتی بادشاہ کو سونے سے لدے ہوئے تیس خچروں کے
عوض فروخت کر دیا.
بادشاہ نے جب موتی دیکھا تو اپنے خدام سے کہا:’’ یہ موتی جڑواں ہوتا ہے
تنہا نہیں ہوتا، اس کا جڑواں موتی تلاش کرو، اگرچہ تمہیں اس کی دگنی قیمت
دینی پڑ جائے، بہرصورت وہ خرید کر میرے پاس لے آئو‘‘،شاہی خدام اس کے پاس
آیا اور کہا:’’کیا آپ کے پاس اس جیسا دوسرا موتی ہے، ہم اس کی دگنی قیمت
دینے کو تیار ہیں‘‘، اس نے کہا:’’ہاں، مگر تم اس کی دگنی قیمت دے دوگے؟
انہوں نے کہا:’’ہاں‘‘ تو اس نے وہ موتی دگنی قیمت کے عوض انہیں فروخت کر
دیا، اس طرح اللہ پاک نے اسے اپنے والد کی خدمت کا دنیا میں بھی بہتر صلہ
عطا فرمادیا ۔ ﴿الدمیری: حیاۃ الحیوان،۲/۸۲۱﴾ |