ادبی فورم مظفر آباد کی ساتویں نشست

چند روز قبل مظفر آ باد سے محترمہ ساجدہ بہار کا ٹیلی فون آیا،انہوں نے مجھے مظفر آباد میں نوتشکیل ادبی فورم کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی۔یہ ادبی فورم جناب سیلم بسمل، جناب اکرم سہیل ، سید سلیم گردیزی اور محترمہ ساجدہ بہار(معروف شخصیات ہونے کی وجہ سے محتاج تعارف نہیں) نے قائم کیا ہے۔ مختلف موضوعات پر اس فورم کے متعدد اجلاس ہو چکے ہیں ۔ادبی فورم کے اس ساتویں اجلاس کا موضوع میڈیا میں کشمیر کو نظر انداز کرنے کی صورتحال تھا۔یہ موضوع میرے ایک حالیہ کالم” کشمیر گریز پاکستانی میڈیا“ کی مناسبت سے منتخب کیا گیا ۔

اتوار کو مظفر آباد کے جلال آباد پارک کے سامنے واقع سلیم بسمل صاحب کی رہائش گاہ کے لان میں دائرے میں نفاست سے لگی کرسیوں سے ہی اندازہ ہو گیا کہ ادبی تنظیم کی سرگرمیاں منظم انداز میں جاری ہیں۔یہ اجلاس علامہ جواد جعفری کی صدارت میں منعقد ہوا۔سلیم بسمل صاحب نے اس ادبی تنظیم کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ یہ سلسلہ اسی لئے شروع کیا گیا کہ دیکھا جائے کہ درپیش مشکلات،مسائل کیا ہیں جن کی بدولت ہم ہر شعبے میں انحطاط پزیر ہیں۔بقول شاعر ” دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے ،آخر اس مرض کی دوا کیا ہے“۔شرکاءنے اظہار خیال کرتے ہوئے میڈیا میں کشمیر کو نظر انداز کرنے کی صورتحال کے مختلف پہلو اور وجوہات بیان کیں۔پاکستانی میڈیا میں کشمیر کو نظر انداز کرنے کی صورتحال،مضرمات اورنقصانات بیان کرتے ہوئے ان امور میں ببہتری کے اقدامات بھی تجویز کئے گئے۔ کئی گھنٹے جاری رہنے والی اس ادبی نشست میں شرکاءکی آراءسے یہ سامنے آیا کہ پاکستان کے سرکاری میڈیا اور تجارتی میڈیا میں کشمیر کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے ،میڈیا میں کشمیر کو نظر انداز کرنے کی یہ صورتحال کشمیریوں اور کشمیر کاز سے زیادتی اور مملکت پاکستان کے قومی مفادات کو سنگین نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ اس بات کا احاطہ بھی کیا گیا کہ اس حوالے سے آزاد کشمیر حکومت اور سیاستدان بھی قصور وار ہیں۔ اجلاس میں کشمیر کے موضوع پر ایک نجی ٹی وی چینل کے قیام کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اس حوا لے سے رابطوں کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ موضوع پر اپنی رائے دینے کے علاوہ میں نے وادی کشمیر کے حالیہ دورہ کے حوالے سے ایسے چند اہم امور شرکاءتقریب کے سامنے لائے جن کا ذکر میں نے اپنے سفر نامہ میں نہیں کیا۔میں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ہمیں اپنی خامیوں اور خرابیوں کو پہلے مخاطب کرنا چاہئے ،اس کے بعد ہی ہم کسی سے بہتری کی توقع کر سکتے ہیں۔ نہایت خوشگوار موسم میں منعقد ہونے والی اس ادبی نشست میں نا خوشگوار امور پر مبنی صورتحال کا احاطہ وسیع طور پر کیا گیا۔

ادبی فورم کی ساتویں نشست کے بارے میں جاری ایک خبر میں بتایا گیا کہ ” آزاد کشمیر کے دانشور وں پر مشتمل ادبی فورم نے مسئلہ کشمیر کو سیاسی،سفارتی اور تاریخی پس منظر کے ساتھ اجاگر کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔مظفر آباد میں سینئر بیوروکریٹ محمد سلیم بسمل کی رہائش گاہ پہ منعقد بزم ادب فورم کی ساتویں نشست کے شرکاءنے الیکٹرانک ار پرنٹ میڈیا کے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کردار کو زیر بحث لایا اور کشمیر کے تاریخی ،ثقافتی،سیاسی ،ماحولیاتی اور دیگر پہلوﺅں پر بھی بحث کی گئی۔ادبی محفل میںعلامہ جواد جعفری،محترمہ ساجدہ بہار،سید سلیم گردیزی،ڈاکٹر محسن شکیل،عطاہ اللہ عطائ،یامین احمد،اعجاز نعمانی،اور اطہر مسعود وانی نے بھی شرکت کی جبکہ الیکٹرانک اور ہرنٹ میڈیا کی نمائندگی امتیاز اعوان،عبدالحکیم کشمیری ،بشارت مغل،آصف رضا میر اور ریاض خواجہ نے کی۔ادبی محفل میں مسئلہ کشمیر ،تحریک آزادی کشمیر اور آزاد کشمیر میں گڈ گورنینس سمیت دیگر موضوعات کو اجاگر کرنے کے حوالے سے میڈیا کے کردار کو زیر بحث لایا گیا۔شرکاءمحفل کا یہ کہنا تھا کہ میڈیا کسی بھی مسئلے کو موثر طریقے سے اجاگر کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔قومی اور پرئیویٹ میڈیا نے باب تک جو کردار ادا کیا اس میں مزید بہتری لانے کی گنجائش موجود ہے۔“

مظفر آباد میں دانشوروں ،اہل قلم کے ایک ایسے ادبی فورم کا قیام نہایت خوش آئند ہے جو اپنے ساتویں اجلاس میں ہی کشمیر اور کشمیریوں کی تقسیم کی پابندیوں کو مسترد کر تے ہوئے تمام کشمیر کی سطح پہ عوامی خیالات و احساسات کا داعی ہے۔ادبی فورم نے پاکستانی میڈیا میں کشمیر کو نظر انداز کرنے کے موضوع پر صحافتی تنظیموں کے ساتھ سیمینار او ر راولپنڈی میں ایک اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔یہ ادبی فورم آزاد کشمیر میں بہتری کی کوششوں کے علاوہ حد متارکہ(لائین آف کنٹرول)کے دونوں جانب عوامی رابطے کے حوالے سے بھی اہم ہے اور خواہش ہے کہ اہل دانش و قلم کا یہ پلیٹ فارم باقاعدہ اور موثر انداز میں اپنا قومی کردار ادا کرے گا۔عوام کے جزبات و احساسات کی ترجمانی کرنے والے اہل قلم و دانش میں یہ بیداری اس بات کی نوید ہے کہ تمام تر خرابیوں اور گراوٹ کے باوجود ”چناروں کی آگ‘] بجھی نہیں،راکھ میں شعلے اب بھی باقی ہیں۔لہذا سب کوشش کریں کہ حرمت انسانی کو مقدم قرار دینے کی اس جدوجہد کو تقویت پہنچائی جائے۔محترمہ ساجدہ بہار کے سینے میں کشمیر کاز کا بھڑکتا الاﺅ ، جناب سید سلیم گردیزی کی قابلیت ،تجربہ ،اخلاص ،سینئر بیوروکریٹس جناب سلیم بسمل، جناب اکرم سہیل کی مہارت،تجربہ ، پرفیکشن اور اہل قلم و دانش کا اشتراک اس بات کا عکاس ہے کہ ہمارے اہل قلم و دانش مہجور کے اس پیغام پر عمل پیرا ہونے کی کوشش ہیں کہ
وقت آئے گا کہ کشمیر اہل مشرق کو بیدار کرے گا
مجھے یہی پیغام کشمیریوں تک پہنچانا ہے
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 700884 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More