ِچھلے (زِچگی) پر سات چھٹیاں

ایک خبر کے مطابق پنجاب حکومت نے اپنے مرد ملازمین کوبچے کی پیدائش پر میٹرنٹی لیو کی مد میں سات چھٹیاں دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہے نہ حیرت کی بات!۔ ویسے جوں جوں الیکشن نزدیک آئیں گے تو اس طرح کی مخولیات اور مزاحیات مزید بڑھتی چلی جائیں گی۔ ابھی تک تو عوام راجہ ریاض بمقابلہ رانا ثناءاللہ پٹھے فیصل آباد دے، دنگل سے لطف اندوز ہوتی تھی پر اب لگتا ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے اسطرح کی خبریا ت بھی آتی رہیں گی۔وہ ایک شعر کا دوسرا مصرعہ ہے نہ کہ: جب کوئی کام نہ ہو تو اپنے کپڑے پھاڑ کر خود ہی سیا کر۔۔۔۔ کے مصداق لگتا ہے کہ پنجاب حکومت کے پاس بھی کرنے کچھ نہیں جو اسطرح کی فضولیات شروع کر دی ہیں۔

خواتین کی میٹرنٹی یعنی زچگی لیو تو سمجھ میں آتی ہے پر یہ مردوں کو زچگی لیو یا میٹرنٹی لیو کچھ پلے نہیں پڑی؟۔ اگر یہ چھٹیاں اس لیے دی گئی ہیں کہ مرد کو گھر میں کام کاج کر نا ہوتا ہے یا مہمانوں کو بھگتانا ہوتا ہے تو اسطرح کے مو اقع تو مرد کی زندگی میں سال میں کئی بار آتے ہیں۔ مثلا: بچے کے عقیقے اور ختنہ کے موقع پر، بچے کے سکول داخلے کے موقعے پر ، بچی کی شادی کے موقع پر، بیگم کو اسکے گھر سے لانے لیجانے کے موقع پر، بیگم کی طبیعت ناساز ہونے پر، شاپنگ پر لیجانے اور سامان ڈھونے کے موقعے پر ، گلگلے اور مٹھائی بانٹنے کے موقع پر ، وغیرہ وغیرہ۔ ویسے اس دنیا میں بہت سے جورو غلام مرد ایسے بھی ہیںجو سر ڈھا کر کام میں جتے رہتے ہیں اور نہ چھٹی کر تے ہیں اور نہ اف کر تے ہیں۔ مثلا: ہمارے ایک دوست ہیں بیچارے ۔ ہم نے ان سے ایک روز پوچھا کہ یار! سنا ہے کہ آپ گھر میں روٹی ووٹی بھی پکاتے ہو۔ تو بو لے! یار کچھ اور بات کروہ یہ تو پرانی بات ہے۔ ہم نے پھر پوچھا کہ سنا ہے کہ آپ گھر کے برتن دھوتے اور صفائی ستھرائی بھی کر تے ہو! تو بو لے کہ یارکوئی نویں گل کرو۔ پھر پوچھا کہ سنا ہے آپ بیگم کی لاتیں دباتے اور کھاتے بھی ہو۔ تو بو لے کہ یار یہ تو معمول کی بات ہے کوئی نوی گل کرو۔ ہم نے ٹوپی انکے بیٹے کے سر پر رکھتے ہوئے پوچھا کہ آپکا بیٹا کہہ رہا تھا کہ پاپا کپڑے بھی دھوتے ہیں تو بولا کہ یار یہکام تو میں روز کر تا ہوں، کو ئی اور بات کرو۔ پھر مزید پوچھا کہ یار آپ بچوں کے پوتڑے بھی بدلتے اور دھوتے ہو ۔تو وہ چڑ کر غصے میں بولا کہ یا ر! بیوی میری اپنی، بچے میرے اپنے، میں کچھ بھی کروں تینوں کی تکلیف اے ، توں ماما لگدا ا یں ! اس سے پہلے کہ وہ مار مار کر ہمارے سر سے گنے چنے بال بھی اتارتے ہم نے خاموشی ہی میں عافیت جانی ۔ تو جناب! جب ایک بندہ اتنے سارے کام کاج گھر کے بھی کرے ، ڈیوٹی بھی کرے اور چھٹی بھی نہ مانگے تو یہ ہے نہ حیرت کی بات! پھر جب مردوں میں اتنی ساری خوبیاں ہوں تو پھر انہیں زچگی پر چھٹی کی بھلا کیا ضرورت؟چلے ہیں خادمِ پنجاب پیٹرنٹی لیو د ے کر نمبر بڑھانے!َ

ویسے میرے خیال سے نارمل ڈلیوری کی صورت میں یہ چھٹی عورت ملازم کو بھی سات دن سے زیادہ نہیں ملنی چاہیے۔ ناچیز کو کچھ عرصہ دیارِ غیر میں بھی کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ وہاں ہماری ساتھی ایک کھڑوس سی عورت بچہ جمانے کے چوتھے روز ہی ڈیوٹی پر حاضر ہو گئی تھی۔ ویسے میرے خیال سے ہمارے ہاں پاکستان میں زچگی کو بہت ہی سیریس اشو بنا لیا جاتا ہے جب کہ دیگر ممالک میں ورکنگ وومین آخری دن تک بھی کام کرتی پائی جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں خواتین بعد از چھلا بھی سمارٹ اور ہینڈسم رہتی ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاںبعد از چھلاخواتین کی توند نکلنے کا رواج عام پایا جاتا ہے۔ پھر چھلے کے بعد جو دیسی گھے کے لوازمات اور پنجیریاں تونی جاتی ہیں وہ سونے پر سہاگا کہ انہیں سومو پہلوان بنادیتی ہیں کہ میاں بھی حیران ہوجا تا ہے کہ یہ میری ہی بیوی ہے یا پھر کوئی ریسلنگ والی عورت اور پھر دوسروں لڑکیوں کو لائن مارنا اور تاڑنا شروع کر دیتا ہے۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے نہ کہ شادی کے بعد بچے اپنے پر بیوی پرائی اچھی لگتی ہے!۔ لہذا انہیں سمارٹ رکھنے کے لیے حکومت انکی زچگی لیو ختم کرکے انہیں آٹھویں دن ڈیوٹی پر آنے کا پابند کرے۔ نہ آنے کی صورت میں بچہ بحقِ سرکار ضبط کر لیا جائے۔

بات ہورہی ہے چھلے اور چھٹیوں کی تو بعض دفعہ تو ملازم خواتین ایک سال میں دو دو بار بھی چھلا بھگتاتی ہیں تو کیا دو دو باردونوں میاں بیوی کو چھٹیاں ملیں گی؟۔ہمارے اکثر سرکاری ملازمین دو نمبری کر نے میں ماہر ہوتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ چھٹیاں لینے کے چکر میں ایک سال میں چار چار زچگیاں کر ا دیں! آپ بتائیں کہ کیا ایسے ممکن ہے ؟؟اسکے علاوہ چیک اینڈ بیلنس کیا انتظام ہوگا ؟۔مزید یہ کہ ہمارے ہاں خواتین زچگی کے موقعہ پر آدھا درجن خواتین اکٹھی کر لیتی ہیں۔ جن میں بیوی کی ماں، میاں کی اماں، سالیاں، بہنیں، نندیں ، دیورانیاں و غیرہ شامل ہوتی ہیں اور پورے سوا مہینے بیٹھ کر اور لیٹ کر آرڈر چلاتی رہتی ہیں، کام کچھ کرنا نہیں ہوتا تو پھر چھٹی کس بات کی؟۔ اوپرسے آدھا درجن فالتو بندوں کا خرچہ بھی پورے سوا مہینے میاں غریب کے سر۔ زچگی کے علاوہ بھی بات کریں تو ہمارے ہاں کی عورت بس ایویں ہی سی ہے۔ مثلا: ذرا سا سر یا جسم میں درد ہوا فورا سر پر کپڑا باندھ اور کمبل لے کر لمبی ہو جاتی ہے۔ ذرا سا کام زیادہ کر لیا تو ٹانگیں پسار کر لمبی۔ ذرا سی مہمانداری زیادہ کر لی تو کئی روز کام کی چھٹی۔ (یاد رہے کہ مہمانداری اگر اپنے گھر والوں کی کرے تو کچھ نہیں ہوتا)۔ عید بقر عید پر کام زیادہ کر لیا تو ہسپتال کے چکر اور نیروبیان کے ٹیکے۔ اگر منے نے رات کو ذرا جگا دیا تو اگلے دن تینوں ٹائم کا کھانا ہوٹل سے۔ بچوں نے زیادہ ستا دیا تو سر پر ڈوپٹا اتنا کس کے باندھتی ہیں کہ کھولنے کے لیے دو آدمی بلانا پڑیں۔ کیوں، ٹھیک کہہ رہا ہوں نہ؟۔ویسے ہم نے تو دیارِ غیر میں ایسا بھی دیکھا کہ دونوں میاں بیوی اکیلے ہسپتال گئے اور دو گھنٹے بعد دونوں ہی خیر خیرت سے بچہ بغل میں دابے گھر آگئے۔اللہ اللہ خیر صلا! ہمارے ہاں اس زچگی کو مسئلہ سوِس خط بنا لیا جاتا ہے۔ لہذا میری وفاقی حکومت سے گذارش ہے کہ پنجاب حکومت کا آرڈر کینسل کر کے رہی سہی چھٹیاں بھی فورا ختم کی جائیں۔ ہمارے گورنمنٹ ملازم ویسے ہی سال کے 365 دنوں میں سے بمشکل صرف 200 دن کام کرتے ہیں اوپر سے مزید چھٹیاں۔ کیسا۔ ہے نہ حیرت کی بات!

ہاں تو جناب! ہم بات کر رہے ہیں چھلے اور چھٹیوں کی تو کیونکہ تمام شوہر یعنی میاں ایک جیسے نہیں ہوتے لہذا ان چھٹیوں کا ایک نقصان یہ بھی ہوگا کہ سارا دن میں گھر میں رہ رہ کر میاں بیوی کا پھڈا بھی ہو سکتا ہے۔میاں مہمانوں کے سامنے بیوی کو ذلیل بھی کر سکتا ہے۔ میاں بچوں کو شرارتیں کر تے دیکھ کر اپنا بی پی ہائی کر کے کچھ اور نقصان بھی اٹھا سکتے ہے۔ میاں کے گھر رہنے سے اسکے کھانے پینے کے اخراجات میں اضافہ ہوگا۔ بیڈ پر پڑے رہنے سے بیڈ ٹوٹ بھی سکتا ہے۔ اگر لڑائی کے دوران کوئی چیز ہاتھ نہ آئے تو کچن کے برتنوں، گلدان اور گملوں اور جوتوں کا بھی نقصان ہو سکتا ہے ۔ سارا دن ٹی وی چلنے سے بجلی کا خرچہ اور چائے پانی کی وجہ سے کچن کے اخراجات میں اضافہ ہوگا۔ گھر میں ہنگامہ ، فساد اور بلوہ بھی ہو سکتا ہے۔ چونکہ چھِلے کے دوران سسرالیوں کی آمدورفت بغیر کسی اوقاتِ کار کے جاری رہتی ہے، جوکہ میاں جی کو ناگوار گذر کر پھڈے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک اور فیشن خاص طور سے پہلے بچے کی دفعہ یہ ہے کہ ہر بندہ بمعہ اہل و عیال اس نئے مہمان کے دیدار کو اس طرح آتے ہیں کہ جیسے چڑیا گھر میں کوئی نیا نیا ۔۔۔۔۔۔ آیا ہو اور پھر کچھ کھا پی کر ہی جان چھوڑتے ہیں۔ لہذا یہاں بھی خرچے کی وجہ سے میاں صاحب کا بی پی اگر دو سو پر چلا جائے تو کوئی بعید نہیں۔ لہذا چھٹی دینے کے اس فیصلے پر ایک نہیںدو دفعہ نظرِ ثانی کی جائے۔ ویسے ہی بیگمات دعائیں کرتی ہیں کہ میاں با ہر جاکر مرے تو وہ ٹی وی کے آگے بیٹھیں۔میاں کی چھٹی ہو ئی تو اس نے اپنے کسی ضروری کام میں لگا لینا ہے، یوں بیوی کا ٹی وی کے ڈرامے کا پھڈ ا بھی شروع ہو سکتا ہے۔

ہمارے زرخیز اور ذہین فطین ذ ہن میں ابھی ابھی ایک اور آئیڈیا وارد ہوا کہ گورنمنٹ ایک قانون پاس کر کے ملازمین کے بچے پیدا کرنے پر سرے سے پابندی لگا دے۔ اسطرح آبادی میں اضافے اور چھٹیاں دونوں کا مسئلہ حل ہو جائیگا۔ یا پھر یہ کہ سر کاری ملازمیں ان خواتین سے شادی کریں جو پہلے سے بچوں والی ہوں تاکہ نہ چھٹی دینی پڑے نہ انہیں بچے پیدا کرنے کی تکلیف اٹھانی پڑے ۔ پا پھر خاندانی منصونہ بندی پر سختی سے عمل کرائے۔ پھر بھی اگر کسی کو زیادہ ہی بچے پالنے کو شوق ہو تو آلو پیاز کی طرح بچے بھی باہر لے ممالک سے امپورٹ کر لیے جائیں۔ کیاخیال ہے آپکا؟۔ جناب ! خیال تو اچھا ہے پر اب آپکی خیر نہیں کہ اب آپ آگے آگے ، مولوی حضرات اور خواتین جوتے لیکر آپکے پیچھے ہونگے اور آپکے سر کی قیمت1 کروڑ روپے ہوگی! لہذا سر بچائیے اور لاکھوں پائیے۔
Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 247480 views self motivated, self made persons.. View More