رِنکو کی ضد

رِنکونے اسکول سے آتے ہی بستہ ایک طرف پھینکا اورماں کے گلے میں جھولتے ہوئے بولا:’’ ماں ماں! مجھے کل اسکول میں کلر پیٹی لے کر جانا ہے ہم اسکول میں ڈرائنگ بنائیں گے ۔ ‘‘

’’اچھا! ٹھیک ہے مَیں لے دوں گی۔‘‘ کہہ کر ماں گھر کے کاموں میں لگ گئی۔

لیکن رِنکوکو کہاں چین پڑتا ۔ اگلے پانچ منٹ میں اس نے تین بار ماں کو یاد کرا دیا ۔ ہار کر ماں نے ہاتھ کا کام چھوڑا۔ اور رِنکوکو ساتھ لے کر بازار کی طرف چل پڑیں ۔ اسٹیشنری کی دکان سے کلر پیٹی خرید کر رِنکو کے حوالے کردیں ۔ رِنکو کلر پیٹی پاکر بہت خوش ہوا۔ اچھلتا کودتا وہ گھر کی طرف آرہا تھا کہ اس نے ایک دکان کے آگے رنگ برنگی سائیکل دیکھی ، وہ وہیں ٹھٹک کر کھڑا ہوگیا۔ ’’ ماں! مجھے یہ سائیکل لینا ہے۔ دیکھو نا! کتنی سندر ہے ؟‘‘

ماں نے دیکھا ، سچ مچ سائیکل بہت سندر تھی۔ لیکن ماں جانتی تھیں کہ یہ سائیکل خریدنا ان کے بس کی بات نہیں ۔پاپا کی تنخواہ سے جیسے تیسے گھر کا خرچ چلا رہی تھیں۔ پھر بھی رِنکوکی پڑھائی ، کھانے اور اس کی دوسری ضروریات میں وہ کوئی بھی کٹوتی نہیں کرتی تھیں۔ ماں نے رِنکو کو ٹالنے کی بہت کوشش کی ۔ لیکن ضدی رِنکو کہاں مانتا؟ وہ تو ضد پر اڑ گیا۔ زور زور سے رونے لگا اور وہیں زمین پر لوٹنے لگا ۔ آس پاس کے لوگ اُسے دیکھنے لگے۔ لوگوں کو انھیں یوں گھورتا دیکھا تو ماں کو بہت شرم محسوس ہوئی۔ رِنکو کو وہیں زمیں پر چھوڑ کر وہ دکان کے اندر گھس گئیں۔ رِنکونے سوچا ماں سائیکل خریدنے کے لیے دکان میں گھسی ہیں۔ وہ بھی اٹھ کر اپنے کپڑے جھاڑتا ماں کے پیچھے پیچھے دکان میں گھس گیا۔ ماں نے دکان دار سے سائیکل کے دام پوچھے۔

دکان دار نے بتایا :’’ ایک ہزار روپے۔‘‘

دام سُن کر ماں نے تھوک نگلتے ہوئے بڑے دکھ سے کہا:’’ اچھا!‘‘

ماں نے رِنکو سے کہا :’’ ابھی مَیں اِتنے پیسے لے کر نہیں آئی ہوں جب پاپا آفس سے گھر آئیں گے تو تم اُن کے ساتھ آکر سائیکل خرید لینا۔‘‘

رِنکونے جھٹ ہامی بھر لی اور دونوں گھر لوٹ آئے۔ شام کو جب رِنکوکے پاپا آفس سے لوٹے تو ماں نے اُن کو ساری بات بتائی ۔ رِنکو کی اس طرح کی بے جاضد سے اس کے پاپا کو بہت دکھ ہوا۔ پاپا نے رِنکوکو اپنے پاس بلایا اور اس کو پیار سے سمجھانے لگے۔ پاپا بولے:’’ دیکھو بیٹا! جتنی چادر ہو اتنا ہی پاؤں پھیلانا چاہیے ۔اپنی حیثیت سے بڑھ کر کوئی کام نہیں کرنا چاہیے ۔ ہم تمہیں اچھے اسکول میں پڑھوارہے ہیں۔ تمہاری پڑھائی کے لیے ہم کبھی کوئی کمی نہیں کرتے۔ تمہارے لیے دودھ، پھل فروٹ، بسکٹ ، ٹافی، اور اچھے اچھے چاکلیٹ لاتے ہیں۔ اب تمہیں بھی فضول کی ضد چھوڑ کر محنت سے پڑھائی کرنا چاہیے۔ تمہارے لیے اتنی مہنگی سائیکل خریدنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ تمہیں ایسی ضد نہیں کرنا چاہیے۔‘‘

لیکن رِنکوکے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اُس نے سائیکل لینے کی ضد نہ چھوڑی اور زورزور سے دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ اُسے اِس طرح ضد کرتے ہوئے دیکھ کر پاپا نے کہا:’’ ٹھیک ہے! مَیں کل اپنے آفس سے قرض لے آؤں گا اور تمہیں سائیکل دلادوں گا ۔ پھر دھیرے دھیرے میری تنخواہ میں سے پیسے کٹ جائیں گے۔‘‘

دوسرے دن پاپا نے رِنکوکو سائیکل دلا دی۔ رِنکو بہت خوش ہوگیا اُسے اگلے دن کاانتظار تھا ۔ جب وہ اسکول جاکر اپنے سارے دوستوں کو اپنی نئی سائیکل کے بارے میں بتائے گا اور اپنی سائیکل دکھانے کے لیے گھر لے کر آئے گا۔

دوسرے دن اسکول جانے سے پہلے رِنکوپاپا کے ساتھ ناشتہ کرنے بیٹھا ۔ پاپا نے ماں کو آواز لگائی:’’
بھئی! جلدی دودھ لے کر آؤ رِنکوکو دیر ہوجائے گی۔ ‘‘

ماں ایک کپ دودھ لے آئی۔ ماں نے بتایا:’’ مَیں نے آدھا دودھ بند کروادیا ہے ۔ رِنکوکی سائیکل کے لیے آفس سے جو قرض لیا گیا ہے اُس کے پیسے کٹنے کی وجہ سے اب تنخواہ کم ملے گی اس لیے گھر کا خرچ چلانا مشکل ہوجائے گا۔ مجھے بچت کرکے ہی گھر چلانا پڑے گا۔‘‘

پاپا نے کہا :’’ تم نے ٹھیک کیا۔یہ ایک کپ دودھ تم رِنکو کو دے دو، آج سے میرا دودھ بند، اب مَیں بغیر دودھ پیے ہی آفس چلا جایا کروں گا۔‘‘ یہ کہہ کر پاپا نے آدھا ناشتہ کیا اور اُٹھ گئے۔ رِنکوکو یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔

شام کو کھیل کود کر آنے کے بعد رِنکو ماں کے ساتھ بیٹھ کر پھل اور دودھ سے ہلکا پھلکا ناشتہ کرتا تھا۔ اُس دن ماں نے رِنکوکو کھانے کے لیے صرف ایک کیلا ہی دیا۔ کیلا ہاتھ میں لے کر رِنکو نے ماں سے کہا:’’
ماں! بس ایک ہی کیلااور دودھ ؟‘‘ ماں نے جواب دیا:’’ بیٹا ! آج ایک ہی کیلا کھالواور دودھ تو مَیں نے کم لینا شروع کردیا ہے ، اس لیے دودھ صرف صبح ملے گا۔تھوڑے دنوں کی بات ہے۔ قرض ادا ہوجانے کے بعد اب دوبارہ پہلے جیسا کھانا پینا شروع کردیں گے۔

اچانک رِنکوکو خیال آیا کہ ماں کچھ بھی نہیں کھا رہی ہے۔ رِنکوبولا:’’ ماں! آپ کچھ نہیں کھائیں گی؟‘‘

اپنی نم آنکھیں چھپاتے ہوئے ماں نے چہرہ دوسری طرف پھیر لیااور دھیرے سے کہا:’’ مجھے بھوک نہیں ہے، رِنکوتم کھالو۔‘‘ یہ کہہ کرماں گھر کے کام میں جٹ گئی۔

پاپا کو رات میں کتاب پڑھتے پڑھتے سونے کی عادت تھی۔ اُس رات رِنکونے دیکھا کہ پاپا کے کمرے کی لائٹ بند ہوگئی۔ رِنکوسوچنے لگا پاپا آج اتنی جلدی کیسے سوگئے ؟ اُن کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟ وہ آہستہ آہستہ دبے پاؤں پاپاکے کمرے کی طرف گیا ، اُص نے دھیرے سے آواز لگائی :’’ پاپا!کیا مَیں اندر آؤں؟‘‘

اٹھ کر بیٹھتے ہوئے پاپا بولے :’’ ہاں ہاں بیٹا آ جاؤ۔‘‘ اندر داخل ہوتے ہوئے رِنکو بولا:’’ آج آپ ہمیں کہانی نہیں سنائیں گے؟ اور آج آپ کچھ پڑھ بھی نہیں رہے ہیں؟ آپ نے لائٹ اتنی جلدی کیوں بجھا دی پاپا؟

پاپا نے دھیرے سے جواب دیا :’’ بیٹے ! کوئی خاص بات نہیں ۔‘‘ یہ سُن کر رِنکو کو اطمینان نہ ہوا اور پھر ضد کرنے لگا کہ :’’ پاپا صحیح صحیح بتائیے نا کیا مسئلہ ہے؟‘‘تو اُس کے پاپا نے کہا: ’’ چوں کہ مَیں نے سائیکل لانے کے لیے قرض لیے ہیں اور اِس مہینے سے میری تنخواہ میں سے پیسے کٹنے شروع ہوجائیں گے ، اِس مہینے بجلی کا بِل کم آئے اس لیے مَیں نے لائٹ جلدی سے بجھا دی۔‘‘

رِنکوکو احساس ہوگیا کہ میری بے جا ضد کی وجہ سے ممی پاپا دونوں بہت زیادہ پریشا ن ہوگئے ہیں ۔ ’’ اوہو! پاپا ‘‘ کہہ کر رِنکو اپنے پاپا کے گلے لگ گیا اور سسک سسک کر رونے لگا ۔پاپا نے جب رِنکو کو روتے دیکھا تو اُس کی پیٹھ پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا :’’ بیٹے ! تمہیں کیا ہوگیا ہے ، تم کیوں رورہے ہو؟‘‘

سسکتے ہوئے رِنکو بولا:’’ میری بے جا ضد کی سب کو اتنی بڑی سزا کہ گھر کے سب لوگوں کا سکون برباد ہوجائے ، پاپا! مجھے معاف کردو نا۔ مجھے نہیں چاہیے سائیکل ، پاپا! پلیز اسے کل واپس کردیں۔ مَیں اب آیندہ سے کبھی کوئی ضد نہیں کروں گا۔

رِنکو کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پاپا بولے :’’ رو مت بیٹا! صبح کا بھولا اگر شام کو گھر لوٹ آئے تو اُسے بھولا نہیں کہتے۔
Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 647140 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More