اماوس کی رات

رات کے ایک بج رہے تھے ۔ اماوس کی رات تھی ۔ ماسٹر صاحب کو آج پڑھاتے پڑھاتے دیر ہوگئی تھی۔اُن کا گھر بہت دور تھا ۔ انھیں دوسرے گاؤں جانا تھا۔ ماسٹر صاحب کو اپنے گاؤں جانے کے لیے دو راستے تھے۔ ایک سیدھا اور دوسرا جنگل کی طرف سے تھا ۔ جنگل کا راستا قریب کا تھا صرف ایک گھنٹے میں وہ اپنے گاؤں پہنچ سکتے تھے جب کہ سیدھا را ستا کافی لمبا تھا اس راستے سے انھیں گھر پہنچتے پہنچتے ڈھائی سے تین گھنٹے لگ سکتے تھے۔

ماسٹر صاحب نے جنگلی راستے کے بارے میں بھوت پریت کے بہت سارے ڈراؤ نے قصے سُن رکھے تھے۔ لیکن پڑھے لکھے ہونے کی وجہ سے ان کا ایسی باتوں پر یقین نہ تھا۔ اس لیے انھوں نے اپنے گھر جانے کے لیے جنگل ہی کا راستا چنا۔ اندھیرا اور جنگل دونوں ہی بہت گھنے تھے۔ ماسٹر صاحب کے ہاتھوں میں ایک ٹارچ اور کچھ کتابیں تھیں۔ وہ بہادری کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے۔ اب تک صرف آدھا راستا ہی طَے ہوا تھا کہ اچانک انھیںکسی کے رونے کی آواز سنائی دی، وہ آواز کی سمت بڑھے کہ دیکھیں کون رورہا ہے؟ ماسٹر صاحب نے دیکھا کہ ایک بچّی سر جھکائے رورہی ہے۔ ماسٹر صاحب نے اس سے کچھ پوچھنا چاہا جیسے ہی اس نے سر اٹھایا تو وہ یہ دیکھ کر بُری طرح ڈر گئے کہ اس کے چہرے پر نہ تو آنکھیں تھیں نہ ناک، نہ کان اور نہ منہ۔

ڈر کے مارے ماسٹر صاحب کا بُرا حال ہوگیا ان کے ہاتھوں سے ٹارچ گر گئی اور کتابیں بھی اِدھر اُدھر بکھر گئیں۔ا ور وہ وہاں سے بھاگے اور بھاگتے بھاگتے کسی نہ کسی طرح اس جنگل سے نکلے۔

جنگل سے جیسے ہی سڑک پر آئے تو دیکھا کہ ایک چوکیدار بیٹھا تھا ۔ وہاں گہرا اندھیرا چھایا ہوا تھا ۔ جس کی وجہ سے اُس کا چہرہ صاف طور پر نظر نہیں آرہا تھا۔ ماسٹر صاحب نے سوچا چلوخدا کا شکر ہے کوئی تو مِلا جو انسان ہے۔ انھیں تھوڑا سکون محسوس ہوا۔ اور انھوں نے اس چوکیدار سے جنگل میںپیش آیا واقعہ سنایا۔

چوکیدار نے کہا :’ صاحب !اماوس کی رات کو اِس وقت جو بھی یہاںملتا ہے وہ مرا ہوا ملتا ہے ۔ اور آج تک اس جنگل سے کوئی بھی زندہ اور صحیح سلامت اپنے گھر نہیں پہنچا ہے ۔ ‘‘

ماسٹر صاحب نے یہ سُن کر کہا:’’ یہ تو پھر خدا کا شکر ہے کہ مَیں زندہ بچ کر آگیالیکن تم اِس جگہ پر کیا کررہے ہو؟‘‘

چوکیدار نے کہا :’’ جو کوئی جنگل سے زندہ بچ کر آتا ہے تو مَیں یہاں پر اُس کا کام تمام کردیتا ہوں ۔ ‘‘ اتنا کہہ کر چوکیدار نے سر اٹھایا تو ماسٹر صاحب نے دیکھا کہ اس کے بھی نہ آنکھیں تھیںنہ ناک، نہ کان اور نہ منہ۔ ڈر کے مارے ماسٹر صاحب نے بلند آواز میں مدد کے لیے پکارنا شروع کیا ۔

تب ہی مرغ نے بانگ دی ۔ ماسٹر صاحب بستر سے ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے اور انھیں یہ سوچ کر خوشی ہوئی کہ وہ سب صرف ایک خواب تھا۔
Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 647122 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More