سات سال کی ننھی سی انشا لال رنگ
کا فراک پہنے اِدھر اُدھر اِٹھلاتی پھر رہی تھی ۔ وہ دوڑ دوڑ کر کیاریوں کے
پاس تتلیاں پکڑنے کی کوشش کررہی تھی، لیکن شوخ و چنچل تتلیاں تھیں کہ اُس
کے ہاتھ ہی نہیں لگ رہی تھیں۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کسی طرح کوئی تتلی ایک بار
ہاتھ میں آجائے ، تو انھیں خوب پیار کروں گی۔ دیر تک ان کے ساتھ کھیلوں ،
پیار بھری باتیں کروں اور پھر اڑادوں ۔ ننھے دل نے سوچا کاش! مَیں بھی اِن
جیسی ہی ہوتی دور دراز ملکوں کی سیر کرتی ، آسمان میں اڑتی ۔ہاے! کتنے نرم
و نازک سے چمکیلے ، خوب صورت اور رنگ برنگے پروں والی ہیں یہ تتلیاں ، وہ
دل ہی دل میں کہتی۔ کچھ دیر تک وہ تتلیوں کے ساتھ بھاگتے بھاگتے تھک گئی تو
آکر اپنے پیارے طوطے میاں کے پنجرے کے پاس بیٹھ گئی۔ چمکارتے ہوئے بولی:’’
کیا بات ہے طوطے میاں ؟تم کیوں اُداس ہو؟ کیا تمہارے ممّی پاپا بھی تمہیں
اکیلا چھوڑ کر کہیں چلے گئے ہیں؟ مَیں بھی تمہاری طرح بہت بور ہوجاتی ہوں ،
آخر مَیں بھی کب تک بوڑھی ممانی کے ساتھ کھیلوں۔‘‘
انشا کی بات طوطے میاں کی سمجھ میں آئی یا نہیں انھوں نے پنجرے سے ٹیں ٹیں
ٹیں بِٹّی بِٹّی پکارا، جیسے انشا کی تکلیف انھیں سمجھ میں آگئی ہو۔ انشا
مسکرا اُٹھی۔ وہ بھاگ کر کچن روم میں گئی اور ڈھیر ساری ہری لال مرچیں لاکر
پنجرے میں ڈال دی اور بولی:’’ کھالو طوطے میاں! تمہاری بِٹّی تمہارے لیے یہ
مرچیں لائی ہے۔‘‘ طوطے میاں خوشی خوشی اپنی تیز چونچ سے مرچیں کتر کتر کر
کھانے لگے۔ یہ دیکھ کر انشا کو بڑا اچھا لگا۔
انشا کو بھی اس وقت بھوک لگ رہی تھی۔ لیکن اُس کا کھانے کو من نہیں کررہا
تھا۔ اُسے یاد آیا نوشین جو روز اپنی ممّی کے ہاتھ سے کھانا کھاتی ہے
۔انھیں کے پاس سوتی ہے ۔ اُس کے پاپا اُسے گھمانے لے جاتے ہیں ، لیکن میرے
ممّی پاپا کے پاس تو میرے لیے وقت ہی نہیں ہے۔ کئی بار جی میں آتا ہے کہ
مَیں ضد کرکے اپنی بات پوری کراؤں ، لیکن اپنے ممّی پاپا سے مَیں بولنے کی
ہمت ہی نہیں کرپاتی ۔
ننھی انشا ڈھیروں سوال اپنے دل میں لیے گھومتی رہتی۔ ایک بوڑھی ممانی ہی
تھی جو اُس کے دکھ تکلیف کا خیال رکھتی تھی۔ اُس کے ممّی پاپا ممانی کواس
کام کی تنخواہ دیتے تھے ۔
آج انشا کو تیز بخار تھا۔ پورا بدن بخار سے تپ رہا تھا۔ روتے روتے اُس کے
آنسو گالوں پر ڈھلک کر آگئے اور ایک لکیر چھوڑ گئے۔ ممانی چاروں طرف میم
صاحب ! میم صاحب! کی پکار لگارہی تھی ، ڈاکٹر کا موبائل نمبر یا فون نمبر
انھیں پتا نہ تھا۔ اچانک کال بیل بجی۔ ممانی نے دوڑ کر دروازہ کھولا ۔ انشا
کے ممّی پاپا دونوں دروازے پر کھڑے تھے۔ ممانی نے روتے روتے گھبراکر انشا
کا سارا حال کہہ سنایا۔ ممّی پاپا دونوں بھاگ کر انشاکے پاس پہنچے ۔ وہ بے
حال پڑی تھی۔ ساتھ ہی بولے جارہی تھی : ’’ ممّی پاپا! آپ لوگ مجھے پیار
کیوں نہیں کرتے؟ مجھے کیوں اپنے ساتھ گھمانے نہیں لے جاتے؟ مجھے کیوں نہیں
اپنے ساتھ کھلاتے اور اپنے پاس سلاتے؟‘‘
ننھی انشا کی یہ سب باتیں سن کر ممّی پاپا کو بہت شرمندگی ہوئی ۔ پاپا نے
ڈاکٹر کو فون کرکے بلایا۔ ممّی نے اُسے گود میں لٹا لیا ۔ ڈاکٹر آیا دوا
دی ۔ تھوڑی دیر میں انشا کا بخار اتر گیا۔ جب اُس کی آنکھیں کھلیں تو اُس
نے اپنے آپ کو ممّی کی گود میں پایا۔ اُسے بہت خوشی ہوئی وہ ماں کے گلے لگ
گئی۔
اُس کے پاپا نے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ اب ساتھ میں گھومنے
جائیں گے۔ آج سے انشا ہمارے ساتھ ہی سوئے گی۔ انشا کا خوشی کے مارے بُرا
حال تھا ۔ وہ ماں کی گود سے اتر کر طوطے میاں کے پنجرے کے پاس گئی۔ اُس نے
پنجرے کی کھڑکی کھول دی۔ طوطے میاں ٹیں ٹیں ٹیں کرتے بلندی کی طرف اڑ چلے
اور دور سے بِٹّی بِٹّی پکارتے رہے ۔ انشا کھلکھلا کر ہنس پڑی، ممّی پاپا
نے اسے گلے سے لگا لیا۔ |