وڑ گاؤں نام کے ایک گاؤں میں
ایک لڑکی رہتی تھی۔ اس کا نام پِنکی تھاوہ بہت نیک تھی۔ ہر ایک کے کام آتی
دوسروں کی مدد کرتی ۔ جانوروں ، پرندوں اوردرختوں سے اُسے بہت پیار تھا ۔اُ
س گاؤں کے پاس سے ایک ندی بہتی تھی ، جس کا نام پوسی ندی تھا۔ پِنکی کو
اِس ندی سے بڑا لگاوتھا۔ جب اسکول جاتی تو ندی کے کنارے کنارے چلتی ہوئی
ندی کی کل کل بہتی موجوں، اُس میں اچھلتی کودتی مچھلیوں اور سفید سفید
بگلوں کو دیکھ کر خوب خوش ہوتی۔ ندی کے دونوں جانب پھل دار درخت ماحول کی
خوب صورتی اور ہریالی کو بڑھا رہے تھے۔ کبھی کبھی پِنکی ان درختوں کے پھلوں
کو توڑ کر کھا بھی لیتی تھی۔ اسکول سے واپسی کے وقت وہ ندی کے سنسان کنارے
پر کسی درخت کی کھوہ میں اپنا بستہ رکھ دیتی اور ندی کے صاف و شفاف اور
ٹھنڈے پانی سے ہاتھ منہ دھوتی ۔ اور اپنے خیالوں میں مگن ہوجاتی۔
ایک دن اسکول سے لوٹتے ہوئے روز کی طرح وہ ندی کے کنارے آہستہ آہستہ چل
رہی تھی کہ اچانک اُس کو ہلکی سی آواز سنائی دی :’ ’ پِنکی ! مجھے
بچاؤ۔‘‘اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا ندی کے کنارے کافی دور تک بڑھتی چلی گئی
۔ اُس نے دیکھا کہ ایک مچھلی ایک شاخ پرپھنسی ہوئی تھی۔ اُسی نے اسے آواز
دی تھی۔ ندی میں کود پھاند کرتے ہوئے شاید و ہ شاخ میں پھنس گئی تھی۔
پِنکی نے فوراً مچھلی کو شاخ سے چھڑا کر اُسے دوبارہ پانی میںڈال دیا۔ پانی
میں پہنچتے ہی مچھلی ایک سندر اور خوب صورت پری میں بدل گئی ۔ بالکل
کہانیوں والی جل پری کی طرح دل کش۔ اُس نے پِنکی سے کہا:’’ بیٹی! تم نے
میری جان بچائی ہے۔ اس کے بدلے میں مَیں تمہیں ایک طلسمی بول سکھادوں گی۔‘‘
اور اُس نے پِنکی کو طلسمی بول سکھا دیا کہ پِنکی اگرکسی کو دیکھ کر یہ کہہ
گی کہ:’’ چپک جاؤ۔‘‘ تو فوراً اُس جاند ار کے ہاتھ پاؤں سب چپک جائیں گے۔
اور وہ جب ہی کھلیں گے جب پِنکی کہہ گی کہ :’’ کھل جاؤ۔‘‘ اِس کے بعد پری
غائب ہوگئی ، اور پِنکی بھی اپنے گھر کی طرف چل پڑی ۔
راستے میں اُسے ایک بگلا دکھائی دیا ۔ جو ایک مینڈک کو پکڑنے ہی والا تھا ۔
پِنکی نے سوچا کہ پری نے جو طلسمی بول سکھایا ہے اُسے آزمانا چاہیے۔ تب ہی
تو یہ معلوم ہوسکے گا کہ اُس پری نے صحیح کہا ہے یا نہیں؟ پِنکی نے بگلے کو
دیکھ کرکہا کہ :’’ چپک جاؤ۔‘‘ فوراً ہی بگلے کی چونچ ، پیر اور پرایسے چپک
گئے کہ وہ ساکت ہوگیا ۔ اس موقع کا فائدہ اٹھا کر مینڈک وہاں سے بھاگ کھڑا
ہوا۔ پری کے ذریعے سیکھے گئے طلسمی بول کو اس طرح کام کرتے دیکھ کر پِنکی
بہت خوش ہوئی۔ اُس نے ’’کھل جاؤ‘‘کہہ کر بگلے کی چونچ ، پیر اور پر کو
کھلوادیا۔ اور آگے بڑھ گئی ۔
آگے چل کر اُسے ایک کوا ملا جو کہ ایک گلہری کو کھانے جارہاتھا ۔پِنکی نے
فوراً اُسے دیکھ کر کہا :’’ چپک جاؤ۔‘‘ کوے کے پیر اور پر آپس میں چپک
گئے ۔ گلہری وہاں سے بھاگ گئی۔ دوبارہ پِنکی نے کہا کہ :’’ کھل جاؤ۔‘‘ کوا
آزاد ہوگیا ۔ اس طرح پِنکی نے مینڈک اور گلہری کی جان بچاکر طلسمی بول کا
تجربہ کیا۔
گاؤں میں پِنکی جیسے ہی داخل ہوئی تو اُس نے دیکھا کہ کالو کتّا شمّو کی
بھوری بلّی کو پکڑنے کی کوشش کررہاہے ۔ فوراً پِنکی نے کہا:’’ چپک جاؤ۔‘‘
کتا وہیں چپک کر رہ گیا۔ جب بلّی وہاں سے بھاگ گئی تو دوبارہ پِنکی نے
کہا:’’’کھل جاؤ۔‘‘ کتّا آزاد ہوگیا۔
اس طرح پِنکی نے پری کے ذریعہ بتائے گئے طلسمی بول سے کئی بے زبان جانوروں
اور پرندوں کی جان بچائی ۔ اسے ایسا کرتے ہوئے بہت زیادہ خوشی حاصل ہورہی
تھی۔ دھیرے دھیرے گاؤں میں پِنکی کے اس طلسمی بول کی خبر عام ہوگئی تو لوگ
اُس سے ڈرنے لگے۔ لیکن پِنکی بہت اچھی لڑکی تھی ۔ا ُس نے اپنے اس طلسمی بول
کا غلط فائدہ نہیں اٹھایا۔
ایک دن اُس کے گاؤں کے پاس کے جنگل میں آدم خور شیر آگیا ۔اُس شیر نے
آس پاس کے کئی آدمیوں کو مار کر کھالیا تھا ۔ اور خوب دہشت مچارکھی تھی۔
پِنکی کے گاؤں کے کچھ لوگ بھی اُس آدم خور شیر کا شکار ہوچکے تھے۔ آس
پاس کے گاؤں اور وڑگاؤں کے لوگوں نے پِنکی سے کہا کہ وہ اُس شیر کو پکڑنے
میں ہماری مدد کرے ۔
پِنکی تو تھی ہی سیدھی سادی اُس نے کہا چلو ابھی پکڑتے ہیں۔ یہ سُن کر
گاؤں کے شکاری اور چند جوان پِنکی کو لیے کر جنگل کی طرف چل پڑے۔ بہت تلاش
کرنے پر آخر ایک جگہ شیر کے قدموں کے نشانات دکھائی دیے ۔ ساتھ ہی تازہ
خون کے دھبّے بھی دکھائی دئیے ایسا لگتاتھا کہ شیر نے پھر کسی آدمی کو
شکار کیا ہے۔ تب ہی اچانک ایک جھاڑی کے پیچھے سے ان لوگوں کی طرف شیر
دہاڑتے ہوئے لپکا ۔ اُسی وقت پِنکی نے فوراً اُس شیر کی طرف دیکھ کہا کہ
:’’ چپک جاؤ۔‘‘ بس پھر کیا تھا شیر کی ابھی چھلانگ بھی پوری نہیں ہوپائی
تھی وہ ہوا ہی میں تھا کہ اس کے پیر اور جبڑے آپس میں چپک گئے ۔ اور وہ
دھڑام سے زمین پر گر پڑا۔
یہ دیکھ کرگاؤں سے آئے ہوئے تمام لوگ آگے بڑھے اور شیر کومارنے کی کوشش
کرنے لگے۔ پِنکی نے کہا کہ شیر اس وقت چپکا ہوا ہے کسی کو کچھ نقصان نہیں
پہنچا سکتا اس لیے اُسے رسیوں سے جکڑ کر قید کرلیا جائے اور وڑگاؤں لے
جاکر سب کو بتادیا جائے تاکہ اِ س آدم خور شیر کا ڈر سب لوگوں کے دل سے
نکل جائے۔
جب گاؤں کے تمام لوگوں نے شیر کو دیکھ لیا تو پِنکی نے چڑیا گھر فون کیا
کہ وہ پنجرہ لے کر آئیں اور شیر کو لے جائیں ۔ چڑیا گھر کے ملازمین پنجرہ
لے کر آئے اور شیر کو اس میں قید کرلیا ۔ تب پِنکی نے کہا :’’ کھل جاؤ۔‘‘
شیر کھل گیا مگر اُس نے اپنے آپ کو چڑیا گھر کے ملازمین کی قید میں دیکھ
کر بہت دہاڑا ، چلایا ۔ لیکن اب وہ قید میں تھا ، جلدی سے پنجرہ جیپ میں
رکھ کر اسے چڑیا گھر بھیج دیا گیا۔
سب لوگوں نے پِنکی کی دوسروں کی مدد کرنے کی عادت کی تعریف کرتے ہوئے اسے
شاباشی دی۔ حکومت نے اُسے اچھے بچّے کا خطاب اور سونے کا تمغا انعام میں
دیا ۔ |