کہتے ہیں کہ ہنسی علاجِ غم ہے
اور ایک خالص قہقہہ پاؤ بھر دیسی گھی کی طاقت کے برابر۔اگلے وقتوں میں شاہی
درباروں میں مسخرے بھرتی کیے جاتے جو ایک دوسرے پر پھبتیاں کَس کر بادشاہوں
کا دل بہلایا کرتے تھے ۔پھر زمانہ بدلا ، دورِ جدید کی چکاچوند نے اذہان و
قلوب کو مسخر کر لیا ،چرخِ نیلی فام کی وسعتیں تسخیر ہونے لگیں اور پُرانے
رسوم و رواج قصّہ پارینہ بن گئے لیکن درباری مسخروں کا رواج قائم رہا اور
تا حال قائم و دائم ہے ۔فرق البتہ یہ پڑا کہ اب وہ وزیروں شزیروں اور
درباری مشیروںکے روپ میں الیکٹرانک میڈیا پر جلوہ افروز ہوتے رہتے ہیں۔اُن
کے فرائضِ منصبی میں شامل ہے کہ وہ عوام کا مذا ق اُڑا کر ، اُن پر پھبتیاں
کَس کر حکمرانوں کو خوش کرتے رہیں جبکہ دوسری طرف زندگی کی ہر نعمت سے
محروم عوام کی حالت یہ ہے کہ
پہلے آتی تھی حالِ دل پر ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
لیکن بھلا ہو ہمارے چیف الیکشن کمشن جناب فخر الدین جی ابراہیم المعروف
”فخرو بھائی“ کا جن کی ایک ”حرکتِ صالح“ پر ہم خوب ہنسے اور محاورتاََ نہیں
بلکہ حقیقتاََ ہنستے ہنستے پیٹ میں بَل پڑ گئے ۔
ہوا یوں کہ ”فخرو بھائی“ نے انتخابی نشانات کی فہرست سے ”لوٹا“ بے آبرو
کرکے نکال باہر کیا اور اپنے تئیں یہ جانا کہ جیسے اُنہوں نے لوٹوں کا
صفایا کر دیا ۔لیکن ہمارے معصوم اور بھولے بھالے فخرو بھائی شاید نہیں
جانتے کہ شہد سے میٹھا یہ زہرِ ہلا ہل تو اب پوری قوم کی نَس نَس میں سما
چُکا ہے اور صرف سیاسی لوٹوں پہ تبّرہ بھیجنے کا کچھ فائدہ ہے نہ ضرورت
کیونکہ اب تو یہ عالم ہے کہ ہر گھر سے بھٹو نکلے نہ نکلے لوٹا ضرور نکلتا
ہے کیونکہ لوٹا بننے کی تربیت تو گھر سے ہی شروع ہو جاتی ہے ۔اِس ”گلوبل
ویلج “ کی ماڈرن مائیں جب آغوشِ مادر کو ترستے ، حسرت و یاس کی تصویر بنے
بچوں کو ”آیا“ کے سپرد کرکے انسانی حقوق اور آزادی ¿ نسواں کی جنگ جیتنے
صبح دَم گھروں سے نکل کھڑی ہوتی ہیں تو یہ بچوں کے لیے مادر پدرآزادی کا
اوّلین پیغام ہوتا ہے اور طفل سے ماں باپ کے اطوارہی کی مہک آنا فطری امر
بن جاتا ہے۔ جونہی وہ سنِ بلوغت کو پہنچتا ہے والدین کی ”پارٹی“ چھوڑ کر
بیگم کی پارٹی جوائن کر لیتا ہے ۔جسے والدین کی پارٹی بدلتے ندامت نہیں
ہوتی ،اسے بھلا سیاسی پارٹی بدلنے میں کیا قباحت محسوس ہو گی۔البتہ
”اکلاپے“ کا رونا رونے والے والدین سے یہ ضرور پوچھا جانا چاہیے کہ اے
انسانی حقوق کے علمبردارو ! کیا تُم نے کبھی اپنے بچوں کے حقو ق کا بھی پاس
کیا ؟۔آقا نے فرمایا ”وہ برباد ہوا ، وہ برباد ہوا ، وہ برباد ہوا “۔صحابہ
اکرام نے پوچھا ”یا رسول اللہ کون“؟۔ آپ نے فرمایا ”وہ کہ جس نے بوڑھے
والدین پائے اور اُن کی خدمت کر کے جنت حاصل نہیں کی“ ۔ کیاانسانی حقوق کے
اِن علمبرداروں نے اپنے بچوں کے اذہان و قلوب میں آقا کا یہ فرمان تہ در تہ
بٹھایا ؟۔ اگر نہیں تو پھر
اب کیوں اُداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اِس طرح تو ہوتا ہے ، اِس طرح کے کاموں میں
کڑواسچ تو یہی ہے کہ ”لوٹا ازم“ زندگی کے ہر شعبے میں سرایت کر چُکا ہے
۔لغت میں ”بے پیندے کا لوٹا“اُسے کہتے ہیں جو اِدھر اُدھر لُڑھکتا پھرے۔اِس
لحاظ سے دیکھاجائے تو کیا وہ لوٹے نہیں جو اپنی ”جنم بھومی“ چھوڑ کر باہر
لُڑھک جاتے ہیں، جو حکمرانی پاکستان پہ کرتے ہیں اوراپنی اولادوں کے لیے
اِس ملک کی فضاؤں کو ناساز گار سمجھتے ہیں ، جو حلف تو امریکہ ، برطانیہ
،کینیڈا، آسٹریلیا اور پتہ نہیں کس کس ملک سے وفاداری کا اُٹھاتے ہیں اور
پاکستان کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھ کر حقِ حکمرانی جتانے آ جاتے ہیں ؟۔کیا
وہ لوٹے نہیں جو اپنے رسوم و رواج چھوڑ کر ہندوآنہ رسوم و رواج کی طرف لڑھک
جاتے ہیں ؟ ۔کیا وہ لوٹے نہیں جو اپنی تہذیب و تمدّن، ثقافت و معاشرت ، رہن
سہن حتیٰ کہ لباس تک سے مُنہ موڑ کر تہذیبِ مغرب کے دامن میں پناہ لے لیتے
ہیں اور کیا وہ لوٹے نہیں جو ایک ایک سال میں تین تین میڈیا گروپ بدلتے
رہتے ہیں؟۔اگر ایسے دانشوروں کے بارے میں حُسنِ ظَن رکھتے ہوئے یہ تصّور کر
بھی لیا جائے کہ وہ خوب تر کی جستجو میں بھٹکتے رہتے ہیں تو پھر بھی ایسے
دانشوروں کو کس نام سے پُکارا جائے جو حکومتوں کے بدلتے ہی سیاسی وفاداریاں
بھی بدل لیتے ہیں ؟۔
سیاست سے ثقافت تک ہر جگہ چھائے ہوئے اِن لوٹوں کے ساتھ تو بُری بھلی گزرہی
تھی لیکن الیکٹرانک میڈیا پر چھا جانے والے ”مذہبی لوٹوں“ کے ساتھ گزارا
ممکن نہیں ۔اِن میں یقیناََ کچھ پڑھے لکھے بھی ہونگے لیکن غالب اکثریت ایسے
لوگوں کی ہے جن کا علم انتہائی ناقص ہے اور وہ اپنی علمیت کا رُعب جھاڑنے
کے لیے دینِ مبیں کے خلاف کھلم کھُلاباتیں کرتے رہتے ہیں اور بعض اوقات
توواضح احکامات کو ماننے سے بھی صریحاََ انکار کر دیتے ہیں ۔ربّ ِ کریم نے
قصّاص میں زندگی رکھی ہے لیکن یہ لوگ سزائے موت کو درندگی کا نام دیتے
ہیں۔میرا دین محبّتوں ، شفقتوں اور رحمتوں کا دین ہے لیکن یہ اسے ظُلم ،
نفرت اور دہشت گردی کا دین ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔اِن لوگوں نے کچھ
مغربی سکالرز کے نام رَٹ رکھے ہیں جن کا وہ جا و بے جا استعمال کرتے رہتے
ہیں ۔ابھی پرسوں الیکٹرانک میڈیا پر اکثر نمودار ہونے والی ایک خاتون نے
ایک معروف مغربی سکالر کا حوالہ دے کر اپنی بات میں وزن پیدا کرنا چاہا تو
ساتھ بیٹھے دوسرے صاحبِ علم دانشور نے کہا کہ محترمہ جھوٹ بول رہی ہیں۔ اُ
س سکالر نے کبھی بھی ایسا کہا نہ لکھا ۔ایسے ”جھوٹ کی آڑھت“ جمانے والے ہر
دور میں مِل جاتے ہیں ۔ہم جب یونیورسٹی میں پڑھتے تھے تو ہمارے ایک ساتھی
کلاس فیلو جب بحث کرتے ہوئے بُری طرح سے گھِر جاتے تو ہمیشہ یوں گویا ہوتے
”آہا ، آہا ، آہا ! فرمایا برٹ انگیل نے اپنی کتاب ”دی میل اینڈ فی میل“
میں کہ ۔۔۔۔“۔ اُس کے اِس تبحرِ علمی پر ہم ہمیشہ خاموش ہو جاتے ۔موصوف کا
یہ طریقہ واردات تھا کہ ہ ہمیشہ کسی نئے دانشور اور نئی کتاب کا حوالہ دیتے
اور ہم پاگلوں کی طرح اُن کتابوں کی تلاش میں لائبریریوں کی خاک چھاننے
لگتے ۔ایک بار ہم نے بھی چِڑ کر کہہ دیا ”واہ وا ، واہ وا ، واہ وا !
فرمایا چنگ تان لی نے اپنی کتاب ”ژی توان“ میں کہ ۔۔۔۔“ ۔ اُس نے حیرت سے
پوچھا ”یہ کون صاحب ہیں؟“۔ ہم نے رسانت سے جواب دیا ”احمق ! یہ کنفیوشس کا
ہم عصر عظیم چینی فلاسفر تھا ۔پنجاب پبلک لائبریری جا کر کتاب نکالو اور
صفحہ 356 پڑھ لو“۔وہ کتاب تو خیر اُسے کیا ملتی لیکن اُ سکے نِت نئے
”حوالوں“ سے نجات مل گئی ۔آج بھی ”مذہبی لوٹے“ ایسے ہی بے سر و پا حوالے
دیتے رہتے ہیں لیکن ہمارے نزدیک فُرقانِ حمید کے سامنے ایسے مغربی دانشوروں
اور اُن کے چیلوں کی پرکاہ برابر بھی حیثیت نہیں۔ہماری رہنمائی کے لیے
قُرآن و حدیث موجود ہیں اور ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے۔ |