مجھے پتہ ہے کہ جن لوگوں کے پیٹ
اور حرص اللہ تعالی نہیں بھر سکا ان کے موٹے پیٹ دنیا کی کوئی طاقت بھر
نہیں سکتی مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ حرام کا مال جمع کرنے والوں کیلئے عذاب ہے
اور اس عمل میں مدد کرنے والے بھی اسی عذاب کا مزا چکھیں گے لیکن جو عذاب
مجھ پراس دنیا میں پولیس کی شکل میں مسلط ہے اس عذاب سے کون میری جان
چھڑاتا ہے روزانہ بازار میں بے عزتی اور گھر میں جوان بہنوں کا سوچ کر
میںپولیس والوں کی رشوت لینے میں مدد کرتا ہوں تو اس میں میرا کیا قصور ہے
اور میں نے کیا برائی کی ہے اخبار والے کونسے پارسا ہوتے ہیں کئی اخبار
والے تو ان ٹریفک اہلکاروں سے پیسے لینے چوک میں آتے ہیں اور ان کا بھی کام
چل رہا ہے -
یہ الفاظ چودہ سالہ بچے کے ہیں جو اس وقت پشاور کے ایک معروف بازار میں
سبزی اور فروٹ کی ریڑھی لگاتا ہے یہ ریڑھی سبزیوں اور فروٹ سے بھرنے کے بعد
اسے سڑک کنارے فروخت کرتا ہے تاہم ٹائون ون اورپولیس کے اہلکاراسے تنگ کرتے
ہیں اسی سے بچائو کیلئے وہ مختلف اوقات میں ٹریفک پولیس کی مدد کرتا ہے جو
اسی چوک میں کھڑے ہو کر ٹریفک کنٹرول کرتے ہیں ٹریفک پولیس اہلکار اس چودہ
سالہ بچے کو احکامات جاری کرتے ہیں کہ فلاں گاڑی سے اتنے پیسے لو اور سڑک
کنارے یہ معصوم بچہ ریڑھی لگانے کے ساتھ ساتھ ان حرام خور ٹریفک پولیس کے
اہلکاروں کیلئے " شوڑا ماری"بھی کرتا ہے بقول اس بچے کے روزانہ میں پانچ سو
سے پندرہ سو روپے ان ٹریفک پولیس اہلکاروں کیلئے پیدا کرتا ہوں جو وہاں سے
گزرنے والی گاڑیوں سے لئے جاتے ہیں ان گاڑیوں سے پیسے لینے کی ہدایت مجھے
یہی ٹریفک پولیس کے اہلکار کرتے ہیں ان میں باریش پولیس اہلکار بھی شامل
ہیں کبھی کبھار موٹر سائیکل پر گشت کرنے والے بھی کھڑے ہو جاتے ہیں تاہم ان
کی کمائی اپنی ہوتی ہے اور میں صرف ٹریفک پولیس اہلکاروں کیلئے پیداگیری
کرتا ہوں -اس معصوم بچے کے بقول گاڑیوں کے مالکان مجھے گالیاں دیتے ہیں کہ
میںان پولیس اہلکاروں کیساتھ مل کر ان کو لوٹ رہا ہوں حالانکہ مجھے اس حرام
کی کمائی سے کوئی مطلب نہیں اور نہ ہی یہ لوگ مجھے یہ پیسے دیتے ہیں ان
کیلئے میں ایک معمولی ملازم ہوں - ٹریفک اہلکار جن گاڑیوں سے پیسے لینا
چاہتے ہیں ان سے کاغذات لیتے ہیں اور پھر مجھے مخصوص اشارہ کردیتے ہیں جس
کے بعد میں گاڑی مالکان کے پاس جاتا ہوں اور ان سے پیسے وصول کرکے انہیں
کاغذات دیتا ہوں رشوت کی یہ رقم بعد میں پولیس اہلکاروں کو دیتا ہوں لوگوں
کے سامنے یہ ٹریفک اہلکار بڑے شریف بنتے ہیں لیکن ان کی شرافت کا مجھے پتہ
ہے کہ کتنا حرام مال یہ اپنے خاندان والوں کیلئے چوک سے لیکر جاتے ہیں-
یہ ساری کہانی اس معصوم بچے کی ہیں جو پشاور کے نواحی علاقے میں کرائے کے
مکان میں رہائش پذیر ہیں والد ٹی بی کے مرض کی وجہ سے انتقال کر چکے ہیں
اپنی معذور ماں اور تین جواں سال بہنوں کی کفالت کا ذمہ اس معصوم بچے کے
ذمے ہیں جس کی وجہ سے چودہ سالہ یہ معصوم بچہ روزانہ منڈی چکر لگاتا ہے اور
وہاں سے سبزی اور فروٹ خرید کر اپنے ٹھیلے پر لگاتا ہے جس سے اس کی گزر بسر
ہورہی ہیں تاہم چونکہ اس کا تعلق غریبوں کے اس طبقے سے ہیں جن کی اوقات صرف
اتنی سی ہے کہ حکمران ان کے نام پر قرضے لیتے ہیں اور عیاشیاں کرتے ہیںاس
معصوم بچے کے ٹھیلے کیلئے کوئی اجازت نامہ نہیں اس لئے وہ ٹھیلا لیکر کبھی
ایک علاقے اور کبھی دوسرے علاقے جایا کرتا تھا اور اس میں اچھی خاصی آمدنی
مل جایا کرتی تھی تاہم ایک دفعہ ایک گلی میں جھگڑا ہوا اور جھگڑے کے دوران
اس نے بیچ بچائو کی کوشش کی مارنے والے اس کی بیچ بچائو کی کوشش میں اس کی
درگت بناگئے اور اس کی رقم بھی لوٹ لی اور اس کا ٹھیلہ بھی توڑ دیا جس کے
بعد اس معصوم بچے نے گلیوں میں اشیاء کی فروخت کا سلسلہ بند کردیا اور اپنا
ٹھیلہ بازار میں لگا دیا تاہم یہاں پر ٹائون /میونسپل کے اہلکار مفت میں
سبزیاں اور فروٹ لے جانے کے عادی تھے جو اس غریب کیلئے مشکل تھا اس لئے اس
نے قانون کی آڑ میں اپنا کاروبار شروع کردیا اور چوک میں ٹھیلہ لگانا شروع
کردیا لیکن ٹریفک پولیس والے اس کی جان کی دشمن بن گئے لیکن پھر ایک دن
ایسا ہوا کہ ٹریفک پولیس اہلکارنے ایک ٹرک کو جو کہ اوور لوڈ تھا کو پکڑ
لیا اور ایک ٹریفک اہلکار نے اس معصوم بچے کو کہہ دیا کہ جا کر ٹرک والے سے
کاغذات لے آئو تاہم ٹرک والے نے کاغذات کے بجائے پیسے دئیے جو اس معصوم بچے
نے پولیس کے حوالے کردئیے اور پھر یہی سلسلہ شروع ہوگیا یہ معصوم بچہ اس دن
سے لیکر آج تک چوک میں اپنا ٹھیلہ لگاتا ہے اور ٹریفک پولیس اہلکار بھی اسے
کچھ نہیں کہتے لیکن اس کے بدلے معصوم بچے کو ٹریفک پولیس اہلکاروں کیلئے
"دادا گیری"کرنا پڑ رہی ہے جو یہ معصوم بچہ مجبورا کررہا ہے - ایک مرتبہ اس
بچے نے گھر میں اپنی والدہ کو یہ بات کہہ دی کہ پولیس والے اس طرح اسے
استعمال کرتے ہیں جس پر اس کی والدہ نے اسے منع کیا اور دوسرے دن بازار میں
آنے کے بعد اس نے پولیس کیلئے کام کرنے سے انکار کیا لیکن پھر اس دن سارا
دن اس کی بے عزتی ہوتی رہی پولیس والے بھی اسے تنگ کرتے کبھی ایک جگہ ٹھیلہ
بھیجتے اور کبھی دوسری جگہ اور پھر ٹائون والے بھی اس کی جان کو آگئے اس دن
دکانداری تو نہیں ہوئی لیکن اس کی بے عزتی اتنی ہوگئی اور گھر میں کھانے
کیلئے بھی کچھ نہیں لے جاسکا کیونکہ جو وہ روزانہ کماتا ہے وہ شام کو اس کی
کھانا ہوتا ہے اس دن کے بعد چودہ سالہ بچے نے بازار کی بات گھر میں نہیں
بتائی -
راقم نے کئی مرتبہ اس چودہ سالہ بچے کو گاڑیوں کے مالکان کے سامنے کھڑے ہو
کر پیسے لیتا دیکھا گندے کپڑوں خراب بالوں میں یہ بچہ گاڑیوں سے پیسے لیتا
ہے اور لوگوں کی نظروں سے بچ کر یہ رقم پولیس اہلکاروں کو دیتا ہے اس دوران
چوک میں ٹریفک کنٹرول کرنے کیلئے تعینات پولیس اہلکار جن میں کئی کی باریش
داڑھیاں بھی ہیں اخبار کھول کر دیکھنے لگتے ہیں تاہم ان کی نظریں بچے اور
گاڑی پر ہوتی ہے کئی مرتبہ کوشش کے باوجود میں اس بچے کی تصویر نہیں بنا
سکا کئی مرتبہ وہاں پر تعینات پولیس اہلکار راقم کو وہاں پر دیکھ کر کھسک
جاتے ہیں اور گاڑیاں بھی نکل جاتی ہیں اور وقت نہ ہونے کی وجہ سے راقم کا
کام رہ جاتا ہے اس بچے کو آج بازا ر میں دیکھ کر راقم اس کے پاس گیا
اورپوچھا کہ تم کیوں ان حرام خوروں کیساتھ ملکر اپنے آپ کو تباہ کررہے ہو
تو اس لڑکے نے یہ کہانی سنا دی اور کہا کہ اگر ایمانداری کرتا ہوں تو مجھ
پر مسلط لوگ ایمانداری نہیں کرنے دیتے اور حرام خوری میں پولیس کی مدد کرتا
ہوں تو تمھارے جیسے نام نہاد مولوی نما صحافی آکر تقریریں شروع کردیتے ہیں-
چودہ سالہ بچے کی تلخ اور سچ باتیں سن کر میں نے سرنیچے کی اور گھر کیلئے
روانہ ہوگیا کہ نہ تو میرے بس میں کچھ تھا اور نہ ہی میرے پاس بچے کے کسی
سوال کا جواب تھا لیکن ایک سوچ اس وقت میرے دماغ میں تھی کہ جن کے بس میں
یہ سب کچھ ہیں تو وہ کیوں سو رہے ہیں- |