کرپشن بھی کیا غضب کی لعنت ہے کہ
ہمارا پیچھا چھوڑ ہی نہیں رہی! جسے دیکھیے، وہ کسی نہ کسی طور اپنا الو
سیدھا کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اب اگر اِس کوشش میں کسی کے ساتھ نا انصافی ہوتی
ہے تو ہوتی رہے، اس کی بلا سے! جو اپنے مفادات کو کسی نہ کسی طور تحفظ
فراہم کرنے پر تُلے رہتے ہیں ان کی بینائی اِتنی کمزور ہو جاتی ہے کہ کسی
اور کا جائز مفاد بھی دکھائی نہیں دیتا! ایسے معاملات میں ویسے تو اور بھی
بہت سی باتیں شدید اذیت کا باعث بنتی ہیں لیکن جب قانون کے رکھوالے ہی
قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اپنی بات منوانے اور شہریوں کے حق پر ڈاکہ
ڈالنے پر تل جائیں تو اذیت کی کوئی حد نہیں رہتی! کراچی میں پی آئی ڈی سی
روڈ پر بس اسٹاپ کو ”از خود اظہارِ استحقاق“ کے تحت کمیونٹی پولیسنگ سینٹر
میں تبدیل کرلیا گیا ہے! اور ایسا کرتے وقت شاید یہ فرض کرلیا گیا کہ
شہریوں کا کیا ہے، وہ تو سڑک پر بھی کھڑے ہوسکتے ہیں اور وہ سڑک پر ہی تو
کھڑے ہوکر گاڑیوں کا انتظار کرتے آئے ہیں!
|
|
ایک زمانہ تھا جب کراچی میں کہیں کہیں باضابطہ طور پر بنائے جانے والے بس
اسٹاپ گاڑی کا انتظار کرنے والے شہریوں سے زیادہ نشہ کرنے والوں کے استعمال
میں رہا کرتے تھے۔ مختلف منشیات کے زائد استعمال کے بعد لڑھک جانے والوں کے
لیے بس اسٹاپ شاندار پناہ گاہ کا کردار ادا کرتے تھے۔ اب پولیس کو یاد آیا
ہے کہ منشیات کے عادی کون ہوتے ہیں بس اسٹاپ کو اپنے استعمال میں لانے والے۔
جب بغیر وردی کے، مریل سے شہری بس اسٹاپ پر قابض ہوسکتے ہیں تو بھلا وردی
والوں کو کون روک سکتا ہے؟ ویسے بھی معاشرے کا عمومی چلن دیکھتے ہوئے
سرکاری املاک کو ہڑپ کرنے کا پہلا حق تو خود سرکاری اداروں ہی کا ہونا
چاہیے!
کراچی بھی کیا خوب شہر ہے۔ یہاں جس کے جی میں جو آئے وہ کر گزرتا ہے۔ اور
اگر کر گزرنے والا سرکاری ادارے کا اور وردی میں ہو تو کیا کہنے! کس میں دم
ہے کہ ”استحقاق“ کی راہ میں دیوار بن کر دکھائے؟ سرکاری املاک خواہ کسی
مقصد کے لیے بنائی گئی ہوں، جب سرکاری ادارے انہیں استعمال کرنے پر آتے ہیں
تو متعین مقصد یا استعمال کہیں کا کہیں پڑا رہ جاتا ہے اور نیا مقصد سامنے
آتا ہے۔ پاک کالونی تھانہ ایک زمانے تک ولایت آباد (بسم اللہ ہوٹل،
منگھوپیر روڈ) کے ایک پلے گراو ¿نڈ میں تعمیر کئے جانے والے کتب خانے میں
بسا رہا۔ شہر کے کئی کتب خانے اور اسکول اب بھی رینجرز کے کنٹرول اور
استعمال میں ہیں۔ اِن سرکاری عمارات کا تو یہ حال ہے کہ
نکلے تھے کہاں جانے کے لیے، پہنچے ہیں کہاں معلوم نہیں!
نئی نسل کو علم کے حصول کے لیے اسکول اور مطالعے کی عادت پختہ کرنے کے لیے
کتب خانے درکار ہیں اور جب یہ عمارات بن جاتی ہیں تو قانون نافذ کرنے والے
اپنا قانون نافذ کرتے ہوئے اِن پر قابض اور مُتصرف ہو جاتے ہیں! اب جس میں
ہمت ہے وہ خالی کراکے دکھائے۔ شہر بھر میں بہت سے مقامات پر پولیس نے بھی
کسی دوسرے مقصد کے لیے بنائی جانے والی سرکاری املاک کو اپنے استعمال میں
لے رکھا ہے۔ اعتراض کیجیے تو امن و امان کا معاملہ راہ کی دیوار بن جاتا ہے
اور بہت سے قباحتیں آگے بڑھ کر معترضین کا راستہ روک لیتی ہیں۔ کل تک بس
اسٹاپ چرسیوں اور ہیروئنچیوں کے کنٹرول میں تھے۔ اب یہ عوامی مقامات
استعمال کرنے کا نشہ قانون نافذ کرنے والوں کے سر پر سوار ہے۔ شہریوں کا
کیا ہے، انہیں تو سڑک پر چلنا اور وہیں کھڑے ہوکر گاڑیوں کا انتظار کرنا ہے۔
جس کے ہاتھ میں اختیار ہے وہ تیر پر تیر چلائے، اُسے ڈر کس کا ہے؟ جنہیں
غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کا فریضہ سونپا گیا ہے وہی اگر قانون اپنے
ہاتھ میں لیکر شہریوں کی حق تلفی پر اُتر آئیں تو فریاد کس سے اور کیسے کی
جائے؟ جو چیز شہریوں کے لیے بنائی گئی ہو اور اُن کے کسی بنیادی مسئلے سے
تعلق رکھتی ہو اس پر کسی کا بھی قبضہ تسلیم یا برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔
اگر پولیس کو اپنے لیے کوئی پوائنٹ بنانا ہو تو اور بھی قانونی طریقے ہیں۔
کیا ضروری ہے کہ بس اسٹاپ پر قبضہ کرکے شہریوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ
پولیس جو چاہے گی کرے گی، کِسی میں ہمت ہے تو روک کر دکھائے؟ |