عوامی شعور کا اندازہ اس بات سے
لگایا جاسکتا ہے کہ کیسے ان بیچاروں کی مت ماری گئی ہے اکثر انسان گھر سے
کچھ چیزیں لانے کیلیے نکلتا ہے تو اسے واپسی پر پتا چلتا ہے کہ جو وہ لینے
گیا تھا وہ تو لایا ہی نہیں اور ویسے ہی کچھ اور خرید لایا یہ انسان جان
بوجھ کر نہیں کرتا بلکہ حالات نے اسکی سوچوں کو منتشر کرکے اس کی عقل پر
پانی ڈال دیا ہوتا ہے کہ وہ جس کام کے لیے جارہا ہے اسکو بھول کر کسی اور
ہی سوچ میں غرق ہوکر اپنا بھی وقت برباد کرتا ہے اور گھر والوں کی باتیں
بھی برداشت کرتا ہے بڑے بڑے فراڈیوں نے جہاں اس ملک کا بیڑہ غرق کیا ہوا ہے
وہاں عوام کی بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو زنگ لگ گیا ہے اور اوپر سے
پاکستانیوں میں بھیڑ چال کی ایسی ایسی مثالیں ہیں کہ جدھر کی ہوا دیکھی
ادھر کو اپنا منہ بھی کرلیا اسی لیے تو عوام کو بیوقوف بنا بنا کر ہمارے
سیاستدان خود مزے لے رہے ہیں کبھی کسی ملک کبھی کسی ملک وہ بھی پورے
پروٹوکول کے ساتھ اور جس کے نام پر یہ سب ڈرامے بازی ہو رہی ہے اسی سے
سیکیورٹی کا ڈر اور اوپر سے ہمارے سیکیورٹی کے ادارے میں ایسے ایسے خطرناک
اور مکروہ چہروں والے کہ جن کی اپنی حیثیت بھی ایک عام سے انسان سے زیادہ
نہیں مگر جب وہ بھی وردی میں آجاتا ہے تو پھر وہی فرعونیت اس پر بھی طاری
ہو جاتی ہے جن کا وہ غلام ہوتا ہے پاکستان میں اب ایسا کوئی بھی سیاسی لیڈر
نہیں ہے جس میں جرات اور ہمت ہو کہ وہ عام عوام میں گھل مل جائے انہوں نے
تو عوام میں کیا نکلنا ہے انکے چمچے بھی عوام میں نہیں جاسکتے اور نہ ہی
عوام کو ا نکے دفتروں کے پاس پھٹکنے کی اجازت ہوتی ہے اپنے ہی لوگوں سے
ایسے ڈرتے ہیں جیسے یہ انکے دشمن ہوں یہی حال آجکل تمام سیاسی پارٹیوں کے
قائدین کا ہے کہ وہ خود کو عوامی سیاستدان کہتے ہوئے نہیں تھکتے مگر انکا
کوئی بھی لیڈر عوام میں نہیں جاتا اور نہ ہی جاسکتا ہے اگر جائے گا بھی تو
اسکے اور عوام کے درمیان کم از کم ہزار گز کا فاصلہ ہوگا اور اس فاصلے کے
باوجود بلٹ پروف شیشہ سامنے رکھے گا کیا پاکستانی سیاست میں صرف دھوکہ اور
فراڈ ہی رہ گیا ہے اور سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ عوام کو روٹی،کپڑے اور
مکان کا لالچ دو یا غربت ،بھوک اور بے روزگاری کے خاتمے کالچ دو اور پھر
اقتدار میں آکر انہیں چیزوں سے عوام کو لڑاتے رہواور خود اپنے لیے محل بھی
بنا لو پیرس اور لندن سے سوٹ بھی سلوا لو اور جائیدادیں بھی بنا لو اپنے
بچوں کو امریکہ سے پڑھا کر پاکستان میں غریبوں کی خدمت کیلیے سیاست میں لاﺅ
اور پھر اپنی جگہ انہیں پاکستان کی مفلوک الحال عوام کی خدمت پر مامور
کردونسل در نسل خدمت کا چلنے والا یہ سلسلہ نسل در نسل ہی عوام کو غربت اور
بھوک کی چکی میں پیستا ہے جسکی زندہ مثال پاکستانی عوام ہے جسے ان حکمرانوں
نے لالچ دے دیکر لالچی بنا دیا اب کوئی کسی لالچ میں کسی کے ساتھ ہے تو
کوئی کسی مفاد میں کسی اور کے ساتھ ہے بھوک اور غربت نے پاکستانیوں کو
سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے بھی محروم کردیا ہے صبر نام کی کوئی چیز کسی
میں نہیں پائی جاتی ہر کوئی ایک دوسرے سے بازی لینے کے چکر میں اپنے ہی ہم
وطنوں کا استحصال کررہا ہے اور نہ ہی اس وقت تک کوئی اچھا لیڈر ہے اور نہ
ہی کسی کے آنے کی توقع ہے ہاں اگر کچھ ایسے اشخاص جو حقیقی معنوں میں
پاکستان کی صورتحال کو سمجھتے ہوں جن میں سابق سفیر اور رکن قومی اسمبلی
میاں عبدالوحید ،جنرل(ر) نصیراختر ،سابق پولیس آفیسر شیخ اسرار احمداور ان
جیسے صرف چنداور لوگ اکٹھے ہو جائیں جن کو عوام سے کوئی ڈر اور خوف نہیں
آتا اور عوام بھی ان سے باآسانی مل لے ایسے لوگ اگر ملکر ایک پلیٹ فارم سے
براہ راست عوام میں جائیں تو کوئی بڑی بات نہیں کہ عوام کو بھی عقل اور
سمجھ آجائے کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو بلٹ پروف شیشے کے پیچھے سے عوام کو
نہیں دیکھیں گے بلکہ انہی کی چوکھٹ پر انہی کی زبان میں انہیں بات بھی
سمجھا دیں گے اور چوروں اور ڈاکوﺅں سے بچا بھی لیں گے مگر ایسے لوگ بہت کم
میدان سیاست میں قدم رکھتے ہیں کیونکہ وہ سب کچھ دیکھ چکے ہوتے ہیں اور
انہی کے ہاتھوں کے تراشے ہوئے بت آج بت خانے میں بھگوان بنے بیٹھے ہوئے ہیں
کیا ہی اچھا ہو کہ اگر ایسے تجربہ کار اشخاص اپنی عمر کے اس آخری حصہ میں
اس ملک کی پسماندہ اور جہالت کی دلدل میں ڈوبی قوم کو بھی خواب غفلت سے
اٹھا دیں اور جاتے جاتے اپنے حصہ کی شمع روشن کرجائیں ہوسکتا ہے کہ انہی کی
جلائی ہوئی شمع انہی کے تراشے ہوئے بتوں کو جلا کر راکھ بنا دیں اور ایک
نئی صبح ایک نئی امید کے ساتھ طلوع ہوجائے جس میں ہر طرف خوشیوں کے ڈیرے
ہوں - |