کوئی لمحہ بھی کبھی لوٹ کر نہیں
آیا
وہ شخص ایسا گیا پھر نظر نہیں آیا
چاچا عاشق نے ترک رفاقت کی ۔ اخلاق و مروت ،خلوص و دردمندی ،بے لوث محبت ،ایثار
اور انسانی ہمدردی کاوہ آفتاب جو 28۔اکتوبر 1936کو سمندری (فیصل آباد )کے
افق سے طلوع ہوا پچیس نومبر 2011کی شام کوعدم کی بے کراں وادیوں میں اوجھل
ہو گیا۔جھنگ کی زمین نے اس آسمان کو اپنے دامن میں چھپا لیا۔ چاچا عاشق ایک
دید ہ ور انسان تھاجس نے اپنی تابانیوں سے معاشرتی زندگی کو منورکررکھا تھا
۔اکثردیکھاگیاہے کہ اہل قلم ان لوگوں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے
ملاتے ہیں جوکسی بلند منصب پر فائز ہوں ،ان کی شہرت کا ہر سو ڈنکا بجتا ہو
یا جوصاحب ثروت ہوں اور ان کا حلقہءاثر نہایت وسیع ہو ۔میں ایک ایسے عظیم
انسان کا احوال لکھ رہا ہوں جس کا تعلق ایک وضع دار ، انتہائی خود دار ،غریب
اور بے حد شریف خاندان سے تھا ۔نہ دولت ،نہ شہرت ،نہ تعلقات عامہ اور نہ ہی
بلند منصب اس کی پہچان تھا۔وہ ایک عظیم انسان تھاجس نے زندگی بھر انسانیت
کے وقار اور سر بلندی کو اپنا مطمح نظر بنائے رکھا ۔اس کی زندگی شمع کے
مانند تھی اور وہ سب کے لیے فیض رساں تھا ۔ایسے لوگ زندگی کی شب تاریک میں
ستارہ ءسحر کی صورت اپنے وجود کا اثبات کرتے ہیں ۔مہیب سناٹوں میں ان کی
آواز نوید صبح بہارثابت ہوتی ہے اور سفاک ظلمتوں میں ان کی ذات اور کردار
روشنی کا مینار ثابت ہوتا ہے ۔ایسے لوگوں کی آواز سے مہیب سناٹوں کا خاتمہ
ہوتا ہے اور دلوں کو ایک ولولہءتازہ نصیب ہوتا ہے ۔چاچا عاشق اپنی گوناگوں
صفات ،شبانہ روز محنت ،لگن اور فرض شناسی کی بہ دولت ہر کسی کی پسندیدہ
شخصیت تھا۔دراز قد ،پتلا اور مضبوط جسم سر کے بال سفید ،آنکھوں پر موٹے
شیشوں کی نظر کی عینک لگائے ہاتھوں میں روزانہ کے احکامات اور ڈاک کے
کاغذات تھامے گرمیوں میں سٹاف روم کے سامنے غربی جانب آم کے درخت کے سائے
میںکھڑا اور سردیوں میں مرکزی کتب خانے (ثاقب میموریل لائبریری) کے جنوب
میں کچنار کے درخت کے نزدیک دھوپ میں کھڑا چاچا عاشق ہمیشہ مر کز نگاہ رہتا
۔وہ ایسی جگہ کھڑا ہوتا تھا جہاں سے وہ سب احباب کو دیکھ سکے اور اساتذہ
اور طلبا کو ان سے متعلقہ معلومات فراہم کر سکے ۔ کالج کا تمام سٹاف اسے
اپنا خادم نہیں بلکہ اپنا مخدوم سمجھتا تھا ۔وہ سب کا بزرگ اور محترم تھا ۔اس
سے دعاﺅں کی التجا کی جاتی اور کسی قسم کا حکم اسے کسی نے کبھی نہ دیا ۔اب
یہ اس کی اپنی مرضی تھی کہ وہ از خود بنا کسی کے کہے کے سب کی خدمت پر ہمہ
وقت کمر بستہ تھا اور اس میں کوئی تساہل نہ بر تتا تھا ۔مسلسل چار عشروں تک
وہ اس ادارے میں خدمات انجام دیتا رہا ۔وہ 27۔اکتوبر 1996کو ریٹائر
ہوا۔ریٹائر منت کے موقع پر اس کی طویل خدمات پر اسے زبردست خراج تحسین پیش
کیا گیا۔اسے تحفے تحائف دئیے گئے اور اس پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں
۔اس کے بعد وہ اپنی زندگی کی تمام یادیں اپنے نہاں خانہء دل میںسموئے اپنے
گھر میں خاموشی سے بیٹھ گیا وہ نہ کسی کا گلا کرتا نہ کسی کی شکایت اور نہ
ہی کسی کی غیبت کرتا وہ اپنی دنیا میں مگن صرف اور صرف اپنے کام سے تعلق
رکھتا ۔فارغ وقت میں وہ تسبیح اور درود پڑھتا رہتا ۔اس کا وجود اللہ کریم
کی نعمت تھا۔اس شخص نے پوری زندگی مجبوروں ،دردمندوں ،ضعیفوں ،مظلوموں اور
ناداروں کے ساتھ قلبی وابستگی اور روحانی محبت میں گزاری۔زندگی کی اقدار
عالیہ اور انسانی حقوق کے لیے اس نے بھر پور جد و جہد کی ۔وہ حریت فکر و
عمل کا ایسا مجاہد تھا جو جبر کے سامنے سپر انداز ہونا اپنے مسلک کے خلا ف
سمجھتا تھا ۔اس کا یوں اچانک اٹھ جانا ایک بہت بڑا سانحہ ہے ۔اس کی وفات پر
میں نے ہر آنکھ کو اشک بار دیکھا اور آج بھی اس کی یادمیں سب سوگوار ہیں ۔
زمیں لوگوں سے خالی ہو رہی ہے
یہ رنگ آسماں دیکھا نہ جائے
گورنمنٹ کالج جھنگ کا سب سے بڑا اعزازو امتیاز یہ ہے کہ یہاں سے ایسی ایسی
نابغہءروزگار ہستیاں اٹھیں جنھوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی فقید
المثال کامرانیوں کے جھنڈے گاڑ دئیے ۔ادب میں سید جعفر طاہر ،شیرافضل جعفری
،مجید امجد ،سیدغلام بھیک نیرنگ ڈاکٹر وزیر آغا ،صاحب زادہ رفعت سلطان ،کبیر
انور جعفری ،رام ریاض اور معین تابش کے نام کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔سائنس
کے شعبے میں پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام (نوبل پرائز)نے اس مادرعلمی کو پوری
دنیا میں بلندمقام عطا کیا ۔یہاں کے اساتذہ کو پوری دنیا میںعزت و تکریم
نصیب ہوئی ۔ان اساتذہ کی عدیم النظیر علمی اورادبی خدمات کاایک عالم معتر ف
ہے ۔ان میں ڈاکٹر سید نذیر احمد ،غلام رسول شوق ،جابرعلی سید ،محمد احمد
خان ، پروفیسر عبدالستار چاولہ ،سیدعبدالباقی (عثمانیہ)،تقی الدین انجم (علیگ
)اور رانا عبدالحمید کے نام تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں ۔اس عظیم ،قدیم
اور تاریخی مادرعلمی میں خدمات انجام دینے والے پہلے سکیل کے ملازمین نے
اپنی بے مثال خدمات سے اپنی اہمیت کو بڑے زوروں سے منوایا۔یہ بات بلا خوف
تردید کہی جا سکتی ہے کہ ادارے سنگ وخشت کی بلند و بالا عمارات سے نہیں بل
کہ اپنی اقدار و روایات سے نیک نامی حاصل کرتے ہیں ۔چاچا عاشق گورنمنٹ کالج
جھنگ میں پہلے سکیل کا ملازم تھا ۔اس شخص نے اپنی دیانت سے سب کے دل جیت
لیے اور وہ سب کا منظور نظر بن گیا ۔طالب علم ہوں یااساتذہ ،پرنسپل ہو یا
اعلیٰ افسران سب اس کو چاچا عاشق کہہ کرنہایت عزت واحترام سے گفت گو کرتے ۔چاچا
عاشق گورنمنٹ کالج جھنگ کے سٹاف روم کا نگران تھا ۔یہ ایک اہم خدمت تھی
کالج میں دو سو کے قریب اساتذہ تدریسی خدمات پرمامور ہیں۔ سب کے لیے بڑی
بڑی الماریوں میں چھوٹے چھوٹے ریک بنائے گئے ہیں ۔ان میں وہ اپنی ڈائریاں ،کتب
،عینک ،گھڑی ،موبائل اور نقدی رکھتے ہیں ۔اگرچہ ان ریکس کو تالا لگانے کا
انتظام بھی ہے مگر کسی استاد نے چاچا عاشق کی موجودگی میں ان ریکس کو کبھی
مقفل نہیں کیا اور آج تک کسی کی کوئی چیز گم نہیں ہوئی ۔امانت اور دیانت کا
یہ اعلیٰ معیار اب کہاں ؟امانت کو سنبھال کررکھنااور اس کے مالک تک جلد از
جلد پہنچانا چاچاعاشق اپنی ذمہ داری سمجھتا تھا ۔پروفیسر صاحبان کو ناشرین
کتب ڈاک کے ذریعے بیش قیمت کتب کے پارسل عام ڈاک سے بک پوسٹ کی صورت میں
روانہ کر دیتے ہیں ۔محکمہ ڈاک کے اہل کار یہ پارسل سٹاف روم کی میز پر سہ
پہر کو رکھ کر چلے جاتے ہیں ۔اب چاچا عاشق ان پارسلوں کی چھانٹی میں لگ
جاتا اور ہرپروفیسر کی ڈاک اس کی الماری کے ریک میں ڈال کر اللہ کا شکر ادا
کر تا اور نما زعصر ادا کر کے اپنے گھر کو روانہ ہوتا۔اگر کالج تعطیلات کی
وجہ سے بند ہوتا تو یہ ڈاک وہ اپنی بائسیکل پر متعلقہ پروفیسر صاحبا ن کے
گھر پہنچاتا اور دعا دے کر گھر واپس آ جاتا ۔کوئی اسے اپنے بچوں کی شادی پر
بلاتا تو ضرور اس تقریب میںشامل ہوتا ۔ گورنمنٹ کالج جھنگ کے سابق پرنسپل
پروفیسر سید عبدالباقی (عثمانیہ)کی بیٹی کی شادی پر چاچا عاشق راول پنڈی
پہنچا اور بچی کو لباس کچھ نقدی اور دعا دے کر گھر واپس آیا۔
تمھارے بعد کہاں وہ وفا کے ہنگامے
کوئی کہاں سے تمھارا جواب لائے گا
بھول جانا پروفیسر صاحبان کاایک امتیازی وصف سمجھا جاتا ہے ۔سٹاف روم میں
میزوں پر کئی پروفیسر صاحبان اپنی عینک ،گھڑی، رجسٹر ،امتحانی پرچے اور
جوابی کاپیاں حتیٰ کہ ہینڈ بیگ جن میں بھاری رقم بھی ہوتی تھی اکثر رکھ کر
چلے جاتے ۔چاچا عاشق ان سب اشیا کو سنبھال کر رکھ لیتا اور دوسرے دن ان
اشیا کو ان کے حقیقی مالکان کو واپس کر دیتا ۔اسے یہ بھی معلوم ہوتا تھا کہ
یہ عینک کس کی ہے اور یہ موبائل کس کی ملکیت ہے ۔اس ہیند بیگ کا مالک کون
ہے اور اس کی کیااہمیت ہے ۔کالج سے متعلقہ افراد کے موبائل نمبرتک چاچا
عاشق زبانی یاد کر چکا تھا ۔اسے کالج کے بارے میں ایک مخزن معلومات کی
حیثیت حاصل تھی ۔جسے کچھ جاننا ہوتا چاچا عاشق اسے مطلوبہ معلومات فی الفور
فراہم کر دیتا ۔ تمام احباب کے گھر کا مکمل پتا اور گھر کے ٹیلی فون نمبر
اسے زبانی یاد تھے ۔شناخت اور یادداشت کا اس قدر پختہ شخص میں نے کبھی نہیں
دیکھا۔چاچا عاشق خدمت میں عظمت کاقائل تھاوہ سب کی خدمت کرتا اور اس کے
بدلے ستائش اور صلے کی تمناسے ہمیشہ بے نیازرہتا ۔اسے کالج کے در
وبام،اساتذہ ،طلبا و طالبات اور تمام ملازمین کے سا تھ والہانہ محبت تھی ۔اس
محبت سے سرشار ہو کر وہ ہر قسم کی خدمت کے لیے ہمہ وقت تیاررہتااور اپنے
آرام و سکون کا بھی خیال نہ رکھتا ۔ سٹاف روم بند ہو جانے کے بعد وہ از خود
کالج کے باغوں کاچکر لگاتا ۔باغ نباتات میں اگے پھولوں کو دیکھتا تو اس کی
آنکھوں میں ایک چمک پیدا ہو جاتی ۔اوروہ اکثر کہا کرتا کہ اس چمن کی ہم نے
جگر کے خون سے آبیاری کی ہے ۔خدا کرے یہ سدا پھلا پھولا رہے ۔شام کو وہ
دارالاقامة کا چکرلگاتا اور گھر سے دور رہنے والے طلبا و طالبات کو مطالعہ
میںمشغول دیکھ کر خوشی سے پھولا نہ سماتا ۔ایک بار وہ تعلیمی سیر کے لیے
طلبا اور اساتذہ کے ہمراہ پاکستان کے شمالی علاقوں اور ایبٹ آباد گیا ۔
پروفیسر اے ۔آر شیخ اور پروفیسر سجاد اختر ملک اس کے بڑے مداح تھے ۔وہاں کی
نرسری سے ایک چیڑ کا پودا ہمرا ہ لایا اور باغ نباتات میں اگایا جو کہ اب
نخل تناور بن چکا ہے ۔میدانی علاقوں میں پہاڑی علاقے کے پودے اگانے میں اسے
بہت دلچسپی تھی ۔اس وقت اس تاریخی کالج میں اثمار و اشجار کی جو فراوانی ہے
اس میں کالج کے پہلے سکیل کے ملازمین نے خون پسینہ ایک کر دیا تھا اور نصف
صدی کے اس قصے میں حاجی احمد بخش ،اللہ بخش ،جان محمد ،محمد رفیع ،غلام
محمد اور چاچا عاشق کا اہم کردار رہا ہے ۔کس قدر مستعد اور فعال ملازم تھے
یہ سب جو کہ دن رات اسی کوشش میں مصروف رہتے تھے کہ اس مادرعلمی کو ہر
اعتبار سے رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعاروں کا مخزن بنا دیا
جائے ۔اپنی راحت اور آسائش کو ترک کر کے ادارے کی نیک نامی اور حسن کو
نکھارنے والے یہ با کمال لوگ کسی بھی ادارے کے لیے سرمایہ ءافتخار ہوتے ہیں
۔یہ لوگ مٹی کا قرض اتارنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ایسے لوگ
یادگار زمانہ ہوتے ہیں ۔مادر علمی پر ان کا دل ٹوٹ کر آیا تو ا نھوں نے
اپنے آرام و سکون کی بھی پروا نہ کی اور جس طرح بھی ممکن ہوا تعمیر وطن کے
کاموں میں دل و جاں سے صبح شام منہمک رہے۔1973میں دریائے چناب میں جو قیامت
خیز سیلاب آیا اس نے پورے جھنگ شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔دریا کا دس فٹ
اونچا ریلا حفاظتی بند کو توڑ کو شہر میں داخل ہو گیا۔شہر میں بہت جانی ا
ور مالی نقصان ہو ا ۔ہر کسی کو اپنی جان کے لالے پڑے تھے ۔مصیبت زدہ لوگ
امدادی کیمپوں میں پناہ گزین تھے ۔اس وقت پروفیسرسمیع اللہ قریشی ،محمد
صدیق،محمد اکرم اور چاچا عاشق اپنی جان پر کھیل کر کالج پہنچے اور کالج کے
کتب خانے کی نادرو نایاب کتب کو عمارت کی چھتوں پر منتقل کرنے میں کامیاب
ہو گئے۔ان بیش بہا کتب کی تعدا دایک لاکھ کے قریب تھی ۔ ان کے اس بار احسان
سے اہل علم کی گردن ہمیشہ خم رہے گی ثاقب میموریل لائبریری جو کہ کالج کے
مرکزی کتب خانہ کی حیثیت سے اہل علم و دانش کے مل بیٹھنے کی اہم جگہ ہے اس
میں چاچا عاشق اپنا فارغ وقت گزارتا ۔یہاں وہ اخبارات کا مطالعہ کرتا اور
ادبی جرائد پر بھی نظر ڈالتا ۔کتب خانے کا عملہ جن میں محمد اکرم ،محمد
سلیم ،فقیر محمد ،ملک ظہور حسین (مہتمم کتب خانہ )شامل ہیں ان کے لیے دیدہ
و دل فرش راہ کرتے ۔ان کی کوشش یہی ہوتی کہ چاچا عاشق ان سے چائے کی ایک
پیالی پی کر جائے مگر وہ ایک سیر چشم انسان تھاہمیشہ اس سے بے نیاز رہا ۔اس
کے بر عکس چاچا عاشق ہمیشہ اپنے ملنے والوں کو موسم کی مناسبت سے چائے یا
شربت ضرور پلا کر رخصت کرتا ۔ ثاقب میموریل لائبریری میں بھی وہ روزانہ
اپنی خدمات بلا تامل پیش کر تا اور لائبریری کے ملازم فقیر محمد کا ہاتھ
بٹاتا جو کتابوں کی ترتیب اور تزئین میں ہمہ وقت مصروف رہتا تھا ۔وہ اکثر
کہا کرتا تھا کہ کتابیں ہی فقیر محمد کااوڑھنااور بچھونا بن چکی ہیں ۔اس سے
مل کر نہ صرف کتابوں سے محبت ہو جاتی ہے بل کہ زندگی سے بھی پیار ہوجاتا ہے
۔اس قسم کی متعد د ذمہ داریا ں تھیں جو چاچا عاشق از خود سنبھال لیتا اور
انھیں انجام دے کر مسرت کے احساس سے سرشا ر ہوتا۔ان میں کالج کی سالانہ
تقریبات ، سالانہ کھیلیں ،ڈرامے اور مطالعاتی دورے شامل ہیں ۔ لوگ اس مادر
علمی میں اس کا وجود اللہ کریم کی ایک بہت بڑی نعمت سمجھتے تھے ۔اس کے ریشے
ریشے میں بے لوث محبت کے جذبات سرایت کر گئے تھے ۔اس میں وہ کسی امتیاز کا
قائل نہ تھا ۔وہ سب کے ساتھ عزت اور احترام پر مبنی تعلقات قائم رکھتا اور
اس کی باتیں پتھروں کو بھی موم کر دیتی تھیں ۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
چاچا عاشق ایک غریب اور خود دار انسان تھا۔قناعت اور استغنا اس کے مزاج کا
حصہ تھا ۔وہ غربت کے مسائل کو سمجھتا تھا کیونکہ وہ خود اس تجربے سے گزر
چکا تھا ۔کالج میں پڑھنے والے غریب طلباو طالبات کی اکثریت مالی امداد کی
مستحق توہوتی ہے مگر وہ ڈر ،شرم یا احساس کمتری کے باعث متعلقہ شعبے کو
امداد کی درخواست ارسال کرنے میں اکثر ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں ۔چاچا عاشق
ایسے تمام طلبا و طالبات کو پہچان لیتا اور جائزہ کمیٹی کے ارکان کو ان کے
نام اور رول نمبر دے دیتا ۔اس کمیٹی میں دیوان الیاس نصیب ،مہر بشارت خان ،عباس
ہادی ،حسین احمد ارشد اور حاجی محمد حیات شامل تھے ۔یہ سب ماہرین جانتے تھے
کہ چاچا عاشق جو کچھ کہہ دیتا ہے وہ اس کے طویل تجربے ،ذاتی مشاہدے اور
تجزیاتی انداز کا غماز ہوتا ہے ۔چاچا جس مستحق کے لیے اپنی رائے دے دیتا اس
کی کالج فنڈ سے امداد یقینی ہو جاتی ۔اس طرح کئی مستحق گھرانوں کو اپنی
اولاد کی تعلیم کے اخراجات میں ر عایت مل جاتی جو کہ گرانی کے اس دور
میںلطیفہ ءغیبی کے مترادف تھی ۔
ریٹائرمنٹ کے بعد چاچا عاشق فارغ نہ بیٹھا اور کریانہ کی ایک چھوٹی سی دکان
کھولی۔وہ اپناحقہ لے کر ایک کرسی پر بیٹھ جاتا او رحقے کے کش لگاتا رہتا
اوردکان پر آنے والے گاہکوں کو اشیائے ضرورت بھی دیتا اورساتھ ہی دعا بھی
دیتا ۔کم سن بچوں کو وہ ایک ٹافی دیتا اور کہتا کہ بچو دل لگا کر اپنی
تعلیم مکمل کرو ۔آنے والا دور اعلیٰ تعلیم کی قدر و منزلت کا دور ہو گا ۔بے
علم اور کم پڑھے لکھے افراد کی معاشرے میں کوئی جگہ نہ ہو گی ۔اس نے اپنے
بچوں کی تعلیم و تربیت پربھر پورتوجہ دی ۔اس کی بیٹیاں اور بیٹے بڑی خوش
اسلوبی سے اپنا گھر بسائے ہوئے ہیں اور اپنی اعلیٰ سیرت اور مثالی کردار کی
وجہ سے پورے علاقے میں انھیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔وہ
ایک ایسے علاقے میں رہتا تھا جہاں کی تمام آبادی انتہائی غربت کے عالم میں
زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہے ۔اس کچی آبادی کا ماحول آج بھی پتھر کے
زمانے کی یاد دلاتا ہے ۔چاچا عاشق شہر کی بڑی مارکیٹ میں تھوک کی دکان سے
اشیائے ضرورت خرید کر لاتا اور یہ تما م اشیائے ضرورت قیمت خرید پر اس
علاقے کے مکینوں کو انتہائی کم منافع پر یا بعض چیزیں تو بغیر کسی منافع کے
فروخت کر دیتا ۔اس کا یہ کام بھی خدمت خلق کی ایک صور ت تھی ۔یہ دکان خوب
چلی اور کالج کے اس کے متعدد ساتھی اس دکان سے اشیائے ضرورت کے باقاعدہ اور
مسقل خریدار بن گئے ان میں فقیر محمد ،غلام قاسم ،اللہ بخش ،جیون ،مولا بخش
،شمشاد ،رفیع اور حمید شامل تھے۔یہ دکان داری تو بہر ملاقات ایک تقریب کی
صورت تھی ۔چاچا عاشق تما م عمرمحفلوں کا شیدائی رہا ،ریٹائرمنٹ کے بعد اس
نے مل بیٹھنے کی ایک صور ت تلاش کر لی ۔اس کے بیتے دنوں کے سب ساتھی اس سے
چیزیں خریدنے کے بہانے آجاتے تھے،ادائیگی نقد ہوتی اور خلوص و محبت کا یہ
سلسلہ جاری رہتا ۔یہ سب شام کو اکتھے ہوتے اور ایام گزشتہ کی کتاب کے اوراق
کو زیر بحث لا کر اپنا تزکیہ نفس کرتے تھے۔جب چاچا عاشق سب کو اللہ بیلی
کہہ کر اپنی ابدی آرام گاہ کی جانب سدھار گیا تو اس کا بیٹا طاہر اس کی
دکان پر آکر بیٹھ گیا اور اپنے باپ کے ساتھیوں کے ساتھ درد کا رشتہ استوار
کیے ہوئے ہے ۔وہ بھی اس غم زدہ نوجوان کی غم خواری کی مقدور بھر سعی کرتے
ہیں ۔اس کے باوجود چاچا عاشق کی کمی کبھی پوری نہیں ہو سکتی ۔وہ سراپا شفقت
و خلوص تھا ۔وہ کیا گیا کہ طلوع صبح بہاراں کی امید ہی معدوم ہو گئی ہے ۔سب
اسے یاد کرکے دل تھا م لیتے ہیں اور ان کی آنکھیں بھر آتی ہیں ۔زاررونا چشم
کا اب معمول بن چکا ہے ۔
احباب ہی نہیں تو کیا زندگی حفیظ
دنیا چلی گئی مری دنیا لیے ہوئے
چاچا عاشق اگرچہ زیادہ پڑھا لکھا نہ تھا لیکن اسے کئی اشعار زبانی یاد تھے
اور وہ ان اشعار کے بر محل استعمال سے اپنی بات کو پر تاثیر بنا دیتا تھا ۔اسے
بہت سی قرآنی آیات اور احادیث نبوی ﷺ زبانی یاد
تھیں۔حافظ حاجی محمد حیات جب ہاسٹل کے نگران تھے تو ان سے وہ کئی فقہی
مسائل کے بارے میںگفتگو کرتا اور اس طرح اپنی دینی معلومات میں مسلسل اضافہ
کرتا رہتا ۔وہ مطالعہ کا بہت شوقین تھا ۔اس نے شبلی نعمانی کی سیرت النبی ﷺ
اور تفہیم القرآن کا مطالعہ بہ نظر غائر کیا تھا ۔وہ مذہبی رواداری کا قائل
تھا ہر قسم کی عصبیت سے وہ ہمیشہ دور رہتا ۔ایک سال وہ مسجد میں رمضان
البارک کے آخری عشرے میں اعتکاف میں بیتھا اور اس عبادت کو اپنی زندگی میں
بہت مفیدقرار دیتا ۔ چاچا عاشق نماز کاپابند تھا ، وہ اپنی بستی کی مسجد
میں با جماعت نماز ادا کرتا اور وہاں نمازیوں سے مل کر ان کی خیریت دریافت
کرتا تھا۔اس کی زندگی کے معمولات کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ
نغمہ زار حیات میں نیکی ،خدمت ،بھلائی اور انسانی ہمدردی کا چاند کبھی ماند
نہیں پڑ سکتا ۔وہ اللہ کریم کی رحمت پر پختہ یقین رکھتا تھا ور یہ بات بر
ملا کہتا تھاکہ شرک اور وہم و گماں ہمیشہ بے نشاں رہتے ہیں ۔دلوں میں وہم
کے سم کو کافور کرنے کے لیے اس نے اللہ ہواور ذکر و اذکار میں پناہ تلاش کی
تھی ۔کسی بھی وضیع فرعون کی یاوہ گوئی سن کر نہ تو چاچا عاشق بڑ بڑاتا تھا
اور نہ ہی اس کی رگوں میں یاس و ہراس کا کوئی اندیشہ سر سراتا تھا۔اس نے
ہمیشہ وہی بات کی جو اس کے دل اور ضمیر کے مطابق ہوتی تھی ۔اس کے نطق و لب
پر کسی شہر یار کا خوف کبھی مسلط نہ ہو سکا۔در اصل وہ دل کی آزادی کو
شہنشاہی اور شکم کی بھوک کو موت کا نام دیتا تھا۔ہر کسی کے ساتھ وہ اخلاق
اور اخلاص سے بھر پور رویہ اپناتا ۔وہ سمجھتا تھا کہ فرقہ بندی اور ذات پات
پر مبنی سوچ نے معاشرتی زندگی کے سکون کو بہت نقصان پہنچایا ہے ۔ چاچا عاشق
نے ہمیشہ اپنی انا اور خو داری کا بھرم قائم رکھا اور کسی کے سا منے اپنی
کوئی احتیاج پیش نہ کی۔ تعلقات استوار کرنا اور تعلقات قائم رکھنا اور
دوسروں کے دکھ درد میں دل و جاں سے شامل ہو کر ان کے دکھ بانٹنے میں چاچا
عاشق اپنی مثال آپ تھا ۔کوئی علیل ہوتا تو اس کی بیمار پرسی کے لیے چاچا
عاشق اس کے گھر پہنچتا اور اس کی صحت کے لیے دعا کرتا ۔اگر کوئی عزیز وفات
پا جاتا تو اس کی نماز جنازہ میںشرکت کے لیے تمام مصروفیات ترک کر کے جنازے
میںشامل ہوتا اور میت کو کندھا دیتا ۔ محمد حیات خان سیال ،غلام مرتضی ٰ
شاکر ترک ،سمیع اللہ قریشی ،عباس ہادی ،حاجی محمد حیات ،عمر حیات بالی ،احمد
حیات بالی،احمد تنویر ،رام ریاض ،معین تابش ،رفعت سلطان ،ظفر سعید ،بیدل
پانی پتی اور محمد بخش گھمنانہ کے جنازے میں اسے سب نے زار وقطار روتے ہوئے
دیکھا ۔وہ بہت دل گرفتہ تھا ۔سنگت کے ناتے ٹوٹنے پر اسے دلی صدمہ ہوتا تھا
اور وہ کئی دن آزردہ رہتا ۔اس نے یہ شعر پڑھا تو اس کی ہچکی بندھ گئی ۔
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
گورنمنٹ کالج جھنگ کی تاریخ کا ایک چشم دید گواہ ب ہمارے درمیان موجود نہیں
رہا۔چاچا عاشق اس عظیم،قدیم اور تاریخی تعلیمی ادارے کو محض درس گاہ نہیں
سمجھتا تھا بل کہ اس کے خیال میں یہاں ایک ذرے کو آفتاب بننے کے جو بے شمار
مواقع میسر ہیں وہ اس حقیقت کے غماز ہیں کہ یہ مادر علمی ایک درگاہ کی صورت
اختیار کر چکی ہے۔یہاں کی مسجد میں بیٹھ کر ذکر خدا کرنے والے دل کی مراد
پا لیتے ہیں ۔یہاں جو بھی آتا ہے اسے گوہر مراد مل جاتا ہے اس ادارے کے در
و بام زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کے فروغ کے گواہ ہیں ۔اگر
کوئی علم کا متلاشی صدق دل سے یہاں آ کر اپنی تمناﺅں کی تکمیل کی دعا مانگے
تو اللہ کریم اس کی دعا سن کر اسے حر ف باریاب کا درجہ عطا کر دیتا ہے ۔چاچا
عاشق جہاں مستقبل کی ترقی پر اپنی خوشی کا اظہار کرتا تھا وہاں اسے اس بات
کا بھی قلق تھا کہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی نے جہاں فیض کے بے شمار اسباب
پیدا کر دئیے ہیں وہاں قدیم تہذیب و ثقافت کے نشانات اب معدوم ہوتے چلے جا
رہے ہیں ۔ وہ بتاتا تھا کہ کالج میں ایک بیل خانہ ہو ا کرتا تھا ۔اس میں
بیل گاڑی کو کھینچنے والے بیل باندھے جاتے تھے ۔یہی بیل گھاس کاٹنے والی
مشین بھی کھینچتے اور انھیں کنویں پر جوت کر گھاس کے میدانوں اور کالج کے
باغات کوسیراب کیا جاتا تھا۔دریائے چناب سے نکلنے والی ایک نہر کا پانی بھی
کالج تک آتا تھا۔اب یہ تمام آثار غائب ہو چکے ہیں ۔کئی ٹیوب ویل نصب ہو چکے
ہیں ۔سقے اور ماشکی ہوتے تھے اب تو الیکترک کولر لگ گئے ہیں ۔جھٹ پٹے کے
وقت مشعل اور مٹی کے دئیے فروزاں کر نے کے لیے جگہ تو اب بھی پرانی عمارت
میں موجود ہے مگر اب برقی قمقمے اور فانوس عام ہیں۔ اس تمام ترقی نے
معاشرتی زندگی سے سادگی اور بے تکلفی کو غائب کر دیا ہے ۔ چاچا عاشق کی گل
افشانیءگفتار کا ایک منفرد رنگ تھا۔وہ اکثر ماضی کی یادوں میں کھو جاتا۔ایک
دن وہ بیل خانے کا ذکر کرتے ہوئے ا س دور کے باغبانوں کے لطیفے سنا رہاتھا
تو اس نے بتایا کہ کون کہتا ہے کہ اب بیل نا پید ہوچکے ہیں ۔پرانے زمانے
میں لوگ اپنی انا کو کچل کر کہتے تھے کہ آ بیل مجھے مار لیکن اب مفاد پرستی
اور ہوس نے یہ معیار بدل دیا ہے۔اب جسے دیکھو وہ لذت ایذا چاہتا ہے کیونکہ
سادیت پسندی کامرض آج کے حریص انسان کو دوسروں کے درپئے آزار رکھتا ہے ۔ اب
بھی ابن الوقت لوگ کہیں نہ کہیں سے کسی بیل کو ڈھونڈ نکالتے ہیں اور اس بیل
کو تھپکی لگا کر اپنے مد مخالف کی طرف اشارہ کرتے ہیں جا بیل اسے مار۔ وہ
بیل اپنے آقا کے اشارے پر بے گناہ شکار پر ٹوٹ پڑتا ہے ۔اب تو جس کا اشارہ
اسی کا بیل اور جس کی لاٹھی اسی کی بھینس والی بات درست ثابت ہوئی ہے ۔زندگی
کے معیار ،اقدار اور روایات میں جو تبدیلی رونما ہو چکی ہے ،چاچا عاشق اس
پر دل گرفتہ رہتاتھا ۔
کچھ کم فہم لوگ ایسے وفا شعار ، محنتی اور جفاکش ملازمیں کو ادنیٰ ملازمیں
یا درجہ چہارم کے ملازمین کہہ کر اپنی بے بصری اور کور مغزی کا ثبوت دیتے
ہیں ۔میری دانست میں یہ منکسر المزاج لوگ چھوٹی پوسٹ پرکام کرنے اور کم
تنخواہ لینے کے با وجود بہت بڑے انسان ہوتے ہیں ۔یہ اپنی دنیا کے بادشاہ
ہوتے ہیں اور کبھی در کسریٰ پر صدا نہیں کرتے ۔انھیں یہ معلوم ہوتاہے کہ ان
بوسیدہ اور فرسودہ کھنڈرات،اور ان میں موجود لاشوں میں اتنی سکت کہاں کہ وہ
جاندار انسانوں کی آہ و فغاں سن سکیں ۔یہ اعلیٰ کردار کے حامل لوگ درجہ اول
کے ملازمین ہیں جن کا سکیل بھی پہلا ہے اور عزت اور وقار میں درجہ بھی پہلا
ہے ۔ان کا کام اس قدر کٹھن ہے کہ اس کا عدم اعتراف نا شکری کے مترادف ہے ۔ایسے
لوگ اداروں کے لیے بہت قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں ۔ان کی وجہ سے فروغ گلشن و صوت
ہزار کا موسم اہل چمن کو نصیب ہوتا ہے ۔
پچیس نومبر 2011 شام کے سائے ڈھل رہے تھے۔چاچا عاشق اپنے سفر آخرت پر روانہ
ہو رہا تھا۔لحد تیار تھی اور اس کے بچھڑنے پر ہر آنکھ اشک بار تھی ۔ہزاروں
لوگ اس عظیم انسان کے جنازے میں شامل تھے ۔ان میں بڑی تعداد کالج کے اساتذہ
اور طلبا کی تھی ۔ شہر کے خطیب اور ممتاز عالم دین حافظ اللہ دتہ نے چاچا
عاشق کی نماز جنازہ پڑھانے کے بعد حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا ” ساتھیو!
چاچا عاشق اپنے اس آخری سفر پر روانہ ہو گیاہے جو سب زندہ انسانوں کو درپیش
ہے ۔اس کا معاملہ اب اپنے خالق کے حضور پیش ہو چکا ہے ۔اس نے اپنی زندگی
میں اگر کسی کے ساتھ زیادتی کی ہو تو اسے معاف کردیں ۔اگر اس نے کسی کا
کوئی قرض دینا ہو تو وہ اس کے بیٹو ں سے ابھی اور اسی وقت وصول کر سکتا
ہے۔“سب لوگ اشک بار تھے اور حسرت و یاس کے عالم میں چپ تھے۔ ایک کونے سے
ایک غم زدہ طالب علم نے آہ بھر کر کہا ”چاچا عاشق تو کسی کا مقروض نہ تھا
کالج کے ہزاروں طالب علم جو اس کی بے لوث محبت ،اعانت اور شفقت کے مقروض
ہیں وہ یہ قرض کیسے ادا کر سکتے ہیں ۔ہمیں یہ قرض اب کون معاف کرے گا؟“
”سچ کہتے ہو ہم سب پر اس عظیم انسان کی بے لوث محبتوں کا قرض واجب الادا ہے
۔“ایک بزرگ نے زار و قطار روتے ہوئے کہا ”کاش ہم اس کی زندگی کے طریقوں کو
لائق تقلید سمجھیں اور اس کی محبت کاقرض کسی طرح دردمندوں اور بے سہاروں کو
ادا کر سکیں ۔“
تقدیر کے چاک کو سوزن تدبیر سے کبھی رفو نہیں کیا جا سکتا ۔وہ دل آویز نگاہ
اب ہم پر کبھی نہیں پڑ سکتی جس کی ایک جھلک امید بھی بندھاتی اور تسکین کا
موثر وسیلہ بھی بن جاتی تھی ۔ہمار ی زندگی ریگ ساحل پر نوشتہ وقت کی ایک
ایسی تحریر کے ما نند ہے جسے سیل زماں کے تھپیڑے دیکھتے ہی دیکھتے مٹا دیتے
ہیں اور ہم بچھڑنے والوں کے غم زدہ پس ماندگان بے بسی کے عالم میں دیکھتے
اور ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔مشیت ایزدی کا تقاضا یہی ہے کہ انسان صبر رضا کا
پیکر بن جائے اور قیامت کے دکھ میں بھی ضبط کو شعار بنائے ۔اس وقت یہی
کیفیت دل پر گز رہی ہے ۔وقت کی مثال سیل زماں کی تندو تیز موجوں کی ہے جو
لحظہ ہر آن نہایت سرعت سے گزررہی ہیں ۔یہ تلا طم خیز موجیں پلک جھپکتے میں
گزر جاتی ہیں ۔کوئی شخص اپنی شدید تمنا اور سرتوڑ کوشش کے باوجود ان گزر
جانے والی سیل زماں کی لہروں کے لمس سے دوبارہ کبھی فیض یاب نہیں ہو سکتا ۔جو
چاند چہرے اجل کے ہاتھوں شب فرقت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں وہ عدم کے دیس میں
ابدی نیند سو جاتے ہیں اور ہماری آنکھیں پھر ان کی دید کو ہمیشہ ترستی رہتی
ہیں ۔ہم صدائے جرس کی جستجو میں دیوانہ و ار نکلتے ہیں مگر ہمارا واسطہ
سرابوں سے پڑ جاتا ہے اور ہم سکوت کے صحرا میں بھٹکتے پھرتے ہیں ۔زندگی کی
ساعتیں مسلسل کم ہو رہی ہیں مگر کسی کو اس کا احساس تک نہیں ۔سیر جہاں کا
حاصل حیرت و حسرت کے سوا کچھ بھی تو نہین ۔چاچا عاشق دلوں کو مرکز مہر و
وفا کرنے کا سلیقہ جانتا تھا۔وہ ایک سچا مسلمان ،نمازی ،خداترس اور محب وطن
پاکستانی تھا ۔اس کی یاد دلوں سے کبھی محو نہیں ہو سکتی ۔دنیا بلا شبہ دائم
آباد رہے گی مگر چاچا عاشق کے نہ ہونے کی ہونی دنیا کی بے ثباتی کے غم میں
اضافہ کرتی رہے گی ۔اب تو سمے کے سم کے ثمر نے بہت نڈھال کر دیا ہے ۔ اس کے
جانے سے تو رتیں ہی بے ثمر ہو کر رہ گئی ہیں ۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے
میں ایسے لوگ کم یاب ہی نہیں بل کہ نایاب بھی ہیں ۔اس سے وابستہ یادیں اب
زندگی کااثاثہ بن گئی ہیں ۔
پھیلی ہیں فضاﺅں میں اس طرح تیری یادیں
جس سمت نظر اٹھی آواز تری آئی |