2012 کے اختتام پر میں اس بات پر
تو متفق ہوں کہ سماجی میڈیا اور اس کے مضمرات یہاں موجود ہیں۔ انٹرنیٹ پر
جو کھیل کھیلا جارہا ہے اسکے اثرات ہماری سماجی وسیاسی زندگی پر بالواسطہ
طور پر پڑرہے ہیں۔لوگوں کی ذاتی زندگی، سماجی تعلقات ، سماجی و سیاسی
معاملات کو سوشل میڈیا نے بڑی حد تک متاثر کیا ہے۔ اب ٹویٹر کی بدولت آپکی
رسائی ورلڈپاور امریکہ کے صدر اباما تک بھی ہے اور امیتابھ بچن کی ذاتی
زندگی یا خیالات بھی آپ سے چھپ نہیں سکتے۔ ایک بہت موثر میڈیم کے طور پر
سوشل میڈیا کی اہمیت کوکم نہیں کیا جا سکتا ہے۔دنیا بھر میں بہت سی شہری
تحریکوں پر سماجی میڈیا کا بڑا اہم اور دور رس کردار رہاہے کیونکہ روایتی
میڈیا کے باغی ٹویٹر اور فیس بک پر کھل کر احتجاج کرسکتے ہیں جبکہ روایتی
میڈیا پر ایسا ممکن نہیں تھا۔
اب جب فیس بک کے دنیا بھر کے صارفین ایک ارب سے بھی تجاوز کر چکے ہیں اور
دنیا کے ہر ساتواں شخص کی فیس بک تک رسائی ہے تو سوشل میڈیا نے خبر کی صنعت
کو بھی بہت حد تک بدل دیا ہے۔اس سے انکار ناممکن ہے کیونکہ پہلے سے کہیں
زیادہ پڑھے لکھے لوگ اس کی نگرانی کر رہے ہیں اور ان کے سمارٹ فون پر خبر
کا اشتراک روایتی نیوز چینلز سے بھی پہلے اس بات کی تصدیق کرتا ہے۔ پہلے
نیوز ایجنسیاں، ٹی وی چینل اور اخبارات صرف مقامی رپورٹر کے محتاج تھے جبکہ
اب ہر وہ شخص رپورٹر اور عینی شاہد ہے جسکے پاس یہ سہولت موجود ہے۔اُسامہ
بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد آپریشن کے موقع پر شعیب اطہر کے ٹویٹر پر پیغام
نے عالمگیر شہرت حاصل کی۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس میں سے فیس بک پاکستان میں سب سے زیادہ مقبول ہے
جبکہ پن انٹرسٹ کا دنیا بھر میں تیسرا نمبر ہے اور ان دو غیر روایتی ذرائع
ابلاغ کو روایتی ذرائع ابلاغ ( نیوز ویب سائٹ) بھی بخوبی استعمال کررہے ہیں۔
عرب اسرائیل تنازعہ ہو، امریکہ میں سینڈی طوفان ہو، عرب ممالک میں اُٹھنے
والی عوامی بیداری کی تحریکیں ہوں،طالبان کو اپنی تحریک کےلئے رضاکاروں کی
ضرورت ہو یا پھرامریکہ اور پاکستان کی سیاست ہو سماجی میڈیا ہر ایک کی
ضرورت بن گیا ہے۔
2007 کے امریکی الیکشن کے دوران بلاگنگ کو جو اس وقت ابھی بچہ تھا خوب
استعمال کیا گیا جبکہ اس امریکی الیکشن میں فیس بک اور ٹویٹر کا استعمال
ہوا اور اس انتخابی مہم کے دوران ان ذرائع ابلاغ نے اوباما سے 745ملین ڈالر
کا فائدہ اٹھایا۔
پاکستان کی تقریباً 10.1 فیصد آبادی تک انٹرنیٹ کی رسائی ہے اور 5 ملین کے
قریب فیس بک استعمال کرنے والے ہیں جن میں سے نصف تعداد کی عمریں 20 سال سے
بھی کم ہیں جبکہ 60 فیصد فیس بک استعمال کرنے والوں کی عمر 30 سال یا اُس
سے کم ہے اور یہی لوگ عمران خان کی اُمید ہیں کیونکہ عمران خان کا فیس بک
پر آفیشل پیچ مشہور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کو مانیٹر کرنے والے ادارے
social bakers کے مطابق پاکستان میں تیسرے نمبر پر ہے لیکن وہ کیوں بھول
جاتے ہیں کہ سابق صدر پرویز مشرف کا فیس بک پر آفیشل صفحہ پاکستان میں
دوسرے نمبر پر ہے تو کیا پرویز مشرف کو بھی اتنے ووٹ مل سکتے ہیں؟ جبکہ
میاں شہباز شریف بڑی تیزی سے اُنکے قریب تر پہنچنے والے ہیں اور اب تو
ڈاکٹر طاہرالقادری بھی سماجی میڈیا کی افادیت کو استعمال کرنے کا کوئی موقع
ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔
عمران خان کی سوشل میڈیا ٹیم کے انچارج ڈاکٹر عواب علوی اور اُنکے بیٹے
عارف علوی ہیں جن پر متواتر یہ الزامات لگائے جاتے رہے ہیں کہ وہ شوکت خانم
کو دیئے گئے لوگوں کے زکواة کے پیسے استعمال کررہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کی
ٹیم کی طرف سے یہ الزام بھی بار بار سنا گیا کہ شہباز شریف نے پچیس لوگوں
پر مشتمل ایک ٹیم بنائی ہے جو حکومت پنجاب کا فنڈ استعمال کرکے عمران خان
اوراُنکے ہمنواﺅں کی کردار کشی کر رہی ہے۔ سچ جو بھی ہو ایک بات طے ہے کہ
سوشل میڈیا نے روایتی میڈیا کے مقابلے میں بہت جلد اپنا مقام بنالیا ہے یہ
الگ بات ہے کہ پاکستان میں روایتی میڈیا کا کو ئی ضابطہ اخلاق نہیں ہے تو
غیر روایتی میڈیا تو بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ یہاںتاثیر فیملی کو بے عزت کیا
جاسکتاہے تو معاف عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کو بھی نہیں کیا
جاتا۔صحافی یا کالم نگار جس کو اپنی طاقت پر بڑا ناز ہوتا ہے آپکے پسندیدہ
لیڈر، کھلاڑی یا اداکار پر تنقید کرکے تو دیکھے جو حشر ہوتا ہے وہ نصرت
جاوید، مبشر لقمان اور مایاخان بہتر بتاسکتی ہیں۔
ہمارے قدامت پسند (جو خلافت فوری طورپر واپس لانے پر بضد ہیں) اور لبرل (
جو جمہوریت کے علمبردار ہیں) دواہم طبقات پر مشتمل معاشرے کو سوشل میڈیا نے
جو قریب لانے کا موقع مہیا کیا ہے وہیں کھل کر ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے
کی سہولت بھی دی ہے۔ اب کو ئی بھی قدامت پسند کسی لبرل کو فیس بک پر اپنے
نظریات ٹھونس سکتاہے تو لبرل کب پیچھے رہے گا وہ اپنی جمہوریت کا درس دیکر
قدامت پسندوں کی خلافت کو ٹھکراسکتاہے جبکہ اس سے پہلے اردو اخبارات کو
دیکھنا لبرل اپنی توہین سمجھتا تھا جبکہ انگریزی اخبارات کو سمجھنا قدامت
پسندوں کی توہین تھی لیکن اب پہنچ ہر کسی کی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک دوسرے کے خیالات کا احترام کیا جائے اور اختلاف
کو دلیل سے رد کیا جائے۔ |