سپاہی مقبول حسین

سپاہی مقبول حسین

جرات و بہادری کی ایک لازوال داستاں

یوم پاکستان کے موقع پر قوم اپنے اس غازی کو سلام پیش کرتی ہے

قوموں کی تقدیر افراد کے ہاتھوں میں ہوا کرتی ہے۔ کوئی قوم کتنی عظیم اور بلند ہمت ہے اس کا اندازہ اس کے جری اور بہادر سپوتوں سے لگایا جاسکتا ہے کہ جو وقت پڑنے پر سردھڑ کی بازی لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ایسے ہی ایک جری سپوت سپاہی مقبول حسین ہیں جن کی شجاعت اور ایمان افروز جذبوں کی کہانی آج ہر محب وطن پاکستانی کی زبان پر ہے۔ جی ہاں یہ وہی سپاہی مقبول حسین ہیں جو 1965 کی جنگ میں آزاد کشمیر کے محاذ پر لاپتہ ہوگئے تھے اور جن کے بارے میں یہی اخذ کیا گیا کہ وہ شہید ہوچکے ہوں گے۔ لیکن 12 ستمبر 2005 کو چالیس سال بھارت کی حبس بے جا میں رہنے اور تشدد کا نشانہ بننے والا مقبول حسین مفلوج جسم اور زخمی زبان کے ساتھ واہگہ کے ذریعے وطن لوٹ آیا۔ موضع ناریاں‘ تراڑ کھل کے رہائشی اور آزاد کشمیر رجمنٹ کے سپاہی مقبول حسین نے تقریباً تریسٹھ برس کی عمر میں چالیس سال کی قید تنہائی کاٹنے کے بعد جب وطن کی سرزمین پر قدم رکھے تو اس کا استقبال کرنے کے لئے نہ تو اس کے والدین اس دنیا میں موجود تھے اور نہ ہی اس کا بھائی مکھن خان جس کے ساتھ سپاہی مقبول حسین اپنے بچپن میں کھیلا کودا ہوگا۔اُسے گلے لگانے کے لئے وہاں موجود تھا۔
وہ صورتیں نجانے کس دیس بستیاں ہیں
اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں
اس کی دو بہنوں میں سے ایک زندہ ہے جسے سپاہی مقبول حسین اب ٹھیک طرح سے پہچان بھی نہیں سکتا ہوگاکہ جس سے اپنی ذات چھین لی جائے وہ کسی کو کیا پہچانے گا۔

بلاشبہ سپاہی مقبول حسین ایسے سپوت روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ آج پاکستان کا پرچم دنیا کی بہترین اقوام کی صف میں انہی سپوتوں کے دم قدم سے لہراتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ سپاہی مقبول حسین نے آزاد کشمیر رجمنٹ میں 16 ستمبر 1960 میں شمولیت اختیار کی۔ اُنہیں 30 مئی 1961 کو 21سیکٹر سگنل کمپنی میں آپریٹر ریڈیو اسسٹنٹ کے طور پر بھجوا دیا گیا۔ 8 فروری 1964 میں انہیں 22سیکٹر سگنل کمپنی میں پوسٹ کردیا گیا۔انہوں نے 1965 کی جنگ میں بطور آپریٹر ریڈیو اسسٹنٹ حصہ لیا۔ 1965 کی جنگ میں ایک آپریشن کے دوران بھارتی فوج کے نرغے میں آگئے۔ لیکن بھارت نے ان کا نام جنگی قیدیوں کی لسٹ میں شامل نہیں کیا اور نہ ہی انہیں جنیوا کنونشن کے تحت قیدیوں کو دی گئی سہولیات فراہم کی گئیں۔ پاکستان کو بھارت کی جانب سے سپاہی مقبول حسین کے بارے میں صحیح اطلاع نہ دینے کی بناء پر پاک فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹرز نے اسے Missing believed dead قرار دے دیا۔ سپاہی مقبول حسین کو جب بھارتی فوج نے گرفتار کیا ان کی عمر 23 برس تھی۔ چالیس سال بھارت کی حبس بے جا میں رہنے اور اذیت آمیز سلوک کی بناء پر سپاہی مقبول حسین ذہنی طورپر مفلوج ہو کر رہ گیا ۔اس کی زبان تشدد کے ذریعے کاٹ دی گئی جس سے اب وہ بولنے سے بھی قاصر ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ 12 ستمبر 2005 کو بھارت نے سول قیدیوں کے ایک قافلے کے ساتھ سپاہی مقبول حسین کو بھی واہگہ کے ذریعے پاکستان روانہ کردیا۔ وہاں انہیں انٹیلی جنس حکام نے رسیو کیا۔ اس کے بعد انہیں عدم شناخت اور ذہنی طور پر مفلوج ہونے کی بناءپر ”بلقیس ایدھی ہوم لاہور“ بھجوا دیا گیا۔ جنہوں نے ان افراد کے حوالے سے اخبارات اور ٹی وی پر اشتہار بھی دئیے۔ اس اشتہار کو دیکھ کر محمد وزیر نامی ایک شخص نے اپنے ایک عزیز جو 1971 میں لاپتہ ہوگیا تھا کی تلاش میں بلقیس ایدھی ہوم سے رابطہ کیا۔ اس نے واپس آکر سپاہی مقبول کے بھانجے بشارت حسین کو اطلاع دی کہ وہاں کچھ ایسے افراد ہیں جن کی تاحال شناخت نہیں ہو پائی۔ آپ وہاں سے کنفرم کریں ‘ہوسکتا ہے آپ کے ماموں انہی میں سے کوئی ایک ہوں۔ بشارت حسین نے اپنی والدہ اور سپاہی مقبول حسین کی بہن سرور جان کے بتائے ہوئے حلیے اور شناختی نشانات کی مدد سے انہیں پہچان لیا لیکن یقین دہانی کرنے کے لئے ان کی ایک تصویر لے کر گاﺅں روانہ ہوگئے۔ سرور جان نے تصویر دیکھتے ہی سپاہی مقبول جان کو شناخت کر لیا۔ بشارت حسین دوبارہ ایدھی ہوم گئے اور ایک کاغذ پر سپاہی مقبول حسین اور سرور جان کے نام لکھ کر سپاہی مقبول کو دکھائے جنہوں نے انگلی کے اشارے کی مدد سے ان ناموں کی شناخت کی۔ اس کے بعد سپاہی مقبول حسین کے فرسٹ کزن حوالدار (ریٹائرڈ) محمد شریف 27 ستمبر 2005 کو انہیں کو بلقیس ایدھی ہوم سے ان کے آبائی گاﺅں ناریاں‘ تراڑ کھل‘ ضلع سندھنوتی آزادکشمیر لے گئے۔
نہ اوہ پینگاں نہ اوہ چُوٹے
نہ اوہ گھمرے گھمرے بُوٹے
نہ اوہ ٹھنڈی چھاں
اِیہہ نئیں مینڈاں گراں
سپاہی مقبول حسین کی تراڑکھل آمد پر بہت بڑی تعداد میں لوگ اس کے استقبال کے لئے وہاں موجود تھے۔ ہر چہرہ خوشی اور تشکر سے لبریز تھا۔ وہاں پر موجود لوگ بتاتے ہیں کہ سپاہی مقبول حسین اپنے آبائی گھر پہنچے تو ان کی آنکھوں میں ایک انوکھی چمک دیکھی گئی۔ انہوں نے اشارے کی مدد سے اپنا آبائی گھر بھی پہچاننے کی کوشش کی اور اپنے ایک پرانے دوست صوبیدار (ریٹائرڈ) برکت کا نام لینے کی کاوش بھی کی لیکن مناسب ادائیگی نہ کرپائے۔ کاش سپاہی مقبول حسین کی زبان کو تشدد کے ذریعے ناکارہ نہ بنا دیا گیا ہوتا تو آج وہ اپنے پیاروں سے چند باتیں تو کر لیتا۔ کچھ ان کی سنتا‘ کچھ اپنی سناتا۔

آٹھ اکتوبر 2005 ءکو سپاہی مقبول حسین کے بھانجے بشارت حسین انہیں آزادکشمیر رجمنٹل سنٹر ایبٹ آباد میں لے کر گئے۔ آزادکشمیر رجمنٹ سنٹر ان کی رول شیٹ کا معائنہ کیا گیا اور انہیں فوری طور پر اپنی Strength پرلے لیا گیا۔ وہاں انہیں جونیئر کمیشنڈ آفیسرز میس میں رکھا گیا اور ان کی دیکھ بھال کے لئے ایک Attendent مقرر کیا گیا۔ بعدازاں سپاہی مقبول حسین نے جنرل ہیڈکوارٹرز راولپنڈی میں ایڈجوٹنٹ جنرل پاکستان آرمی سے ملاقات کی۔ جنہوں نے سپاہی مقبول حسین کی ہر لحاظ سے نگہداشت کرنے کا اعادہ کیا اور کہا کہ ایسے جوان پاک فوج کا اثاثہ ہیں۔ انہوں نے ہدایت کی کہ سپاہی مقبول حسین کا علاج سینئر عسکری سائیکاٹرسٹوں سے کروایا جائے اور اس کے آرام و سکون کا ہر لحاظ سے خیال رکھا جائے۔ انہوں نے سپاہی مقبول حسین کو ایک چیک بھی پیش کیا۔

سپاہی مقبول حسین کے معالج نے بتایا کہ ابھی اس حوالے سے کچھ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ ان کی ذہنی حالت کس حد تک سدھرے گی۔ بہرکیف ہم پُرامید ہیں کہ مناسب علاج و معالجہ سے ان کی حالت کسی حد تک بہتر ضرور ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ سپاہی مقبول حسین زیادہ روشنی کا سامنا نہیں کرسکتے۔ بستر پر لیٹنے کی بجائے بیٹھے رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ واک بھی بستر پر ہی کرتے ہیں۔ انہیں باہر کھلی فضا میں نکل کر چلنا زیادہ پسند نہیں ہے۔ کھانا خود سے نہیں مانگتے۔ کھلائیں تو کھا لیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کئی برسوں پر محیط قید تنہائی اور تناﺅ میں رہنے کی وجہ سے شاید ان کی یہ حالت ہوگئی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ان کی حالت انشاءاﷲ بتدریج بہتر ہوگی۔

سپاہی مقبول حسین نے ملکی سرحدوں کے دفاع کو یقینی بنانے کے لئے اپنی جان تک کی پروا نہ کی۔ ان کی یہ قربانی قوم کے ہر نوجوان کے لئے ایک قابل تقلید عمل ہے کہ انہوں نے قوم کے آج کے لئے اپنی جوانی اور عمر داﺅ پر لگا دی۔ سپاہی مقبول حسین ایسے غازی جب تک اس ملک و قوم کو میسر رہیں گے دشمن ہماری سرحدوں کی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات بھی نہیں کرسکتا کہ بہادر ماﺅں کے یہ شیر دلیر سپاہی ہر دم ہر لحظہ وطن کے دفاع کے لئے مرمٹنے کو تیار ہیں۔ قوم اپنے اس ہیروکو یوم پاکستان کے موقع پر سلام پیش کرتی ہے۔
Yousaf Alamgirian
About the Author: Yousaf Alamgirian Read More Articles by Yousaf Alamgirian: 51 Articles with 101504 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.