اچھا سوچیے ---- اچھا کہیے

تنقید اوردوسروں کی خامیوں پر نظر رکھنا دلوں میں فاصلے پیدا کرتا ہے

مہمانوں کے سامنے بہو کے کھانا رکھنے پر ساس صاحبہ کو کچھ کمی محسوس ہوئی جس پر انہوں نے ٹوکتے ہوئے کہا ”کھانا رکھنے کا صحیح ڈھنگ یہ نہیں اِسے یوں پیش کیا جاتا ہے۔“ مہمانوں کے سامنے اس براہ راست تنقید سے ماحول کا رنگ ایک دم بدل گیا، اور بہو بیگم نگاہیں چراتی ہوئی کمرے سے نکل آئیں۔ اس کے بعد ساس صاحبہ نے گھر کی فضا میں ایک بگاڑ سا محسوس کیا۔ لہٰذا انہوں نے بہو کی اچھائیوں اور روشن پہلوﺅں کو تلاش کرنا شروع کیا، تو بہو بھی ان کی گرویدہ ہونے لگی۔ دراصل لب ولہجہ تبدیل ہو تو بات کا مفہوم ہی بدل جاتا ہے یوں بہو نے رفتہ فتہ اپنی کم زوریوں اور عیوب کا اعتراف کر لیا اور اُن کو سدھارنے کی سعی کی۔

خواتین کی سخت زبان اور تنقیدی رویہ ہمیشہ ہی موضوع بحث رہا ہے۔ ساس کی بہو پر، نند کی بھاوج پر اور دیورانی کی جٹھانی پر تنقید کا سلسلہ کوئی نیا نہیں۔ خاندان بھر کی خواتین ایک دوسرے کی خامیوں پر کڑی نگاہ جمائے موقع کے انتظار میں ہوتی ہیں۔ سر کے بال سے پیر کی جوتی تک گھر کی سجاوٹ سے لے کے برتنوں کے انتخاب تک تمام ظاہری اور باطنی پہلو تنقید کا نشانہ بنتے ہیں۔ دراصل دوسروں کو تنقید کا نشانہ اُس وقت بنایا جاتا ہے جب انسان اپنے بارے میں کسی خوش فہمی کا شکار ہو، یہی وجہ ہے کہ بعض تنقیدیں فقط گمان ہی کا شاخسانہ ہوتی ہیں۔

خواتین کی یہ تنقید مختلف رشتوں میں گمبھیر مسائل پیدا کرتی ہے اور مشترکہ خاندانی نظام کے لیے تو یہ ایک زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہر وقت دوسروں کی خامیوں پر نظر رکھی جائے تو گھر کے ماحول پر اِس کا اثر پڑتا ہے اور ایک تناﺅ کی فضا قائم ہو جاتی ہے نتیجتاً نہ چاہتے ہوئے بھی بہت سے مرد حضرات دلوں کے فاصلوں میں حصے دار بن جاتے ہیں۔

اگر ہم یہ سوچ کر کسی پر تنقید کرتے ہیں کہ اس طرح ہم براہ راست اس میں بہتری پیدا کر سکیں گے تو یاد رکھیں ایسا ہر بار ممکن نہیں، جیسے آپ کو کسی خاتون کے لباس پر اعترا ض ہے اور آپ اس لباس کی خامیاں بتا کر اسے درست کرنا چاہیں تو یہ خاصا مشکل امر ہوگا۔ ایک مشہور گجراتی کہاوت ہے کہ ”اندھے کو اندھا نہ کہو بلکہ دھیرے سے پوچھو کہ اے بھائی تمھاری آنکھیں کیسے گئیں؟“ بالکل اسی طرح بات کے لہجے اور انداز کو بدلنے کی ضرورت ہے
جتنے بھی لفظ ہیں وہ مہکتے گلاب ہیں
لہجے کے فرق سے انہیں تلوار مت بنا

رشتے کی نوعیت چاہے کچھ بھی ہو محض دوسروں کی خامیوں پر نظر رکھی جائے تو دلوں میں فرق پیدا ہو جاتے ہیں۔ رویوں میں ذرا سی تبدیلی سارے معاملات کو سدھار سکتی ہے۔ یہ کچھ مشکل نہیں اگر کسی کو یہ کہا جائے کہ اس کی ذات میں بہت سی خوبیاں ہیں اور چند کی نشاندہی کر دی جائے تو مخاطب جھٹ سے اس بات کا اعتراف کرے گا کہ نہیں اس میں فلاں خامی بھی ہے، لیکن بدقسمتی سے اس مثبت رویے کے بجائے ہر کوئی ناقدانہ انداز اپناتا ہے۔

معاشرے میں فقط خامیوں اور کم زوریوں پر نگاہ رکھی جائے تو دشواریاں پیدا ہوتی ہیں اور ایک دوسرے کے لیے ناپسندیدگی کا گمان ہوتا ہے۔ بات خواہ چار دیواری کی ہو ، خاندان کی یا ملازمت اور دفتری ماحول کی۔ ہم میں سے بہت سارے لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی کی تعریف اِس کے سامنے نہیں کرنی چاہیے۔ درحقیقت اگر کسی کے عمل کو پسند کرتے ہوئے سراہا جائے، کسی کے عاجزانہ مزاج سے متاثر ہو کر یہ کہا جائے کہ اُن کا یہ روّیہ انتہائی متاثر کن اور قابل قدر ہے، تو یہ چیزیں ایک طرح کی حوصلہ افزائی کا باعث ہوتی ہےں۔ جو دوسروں کو اچھائیوں پر قائم رہنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں بلکہ انہیں مزید اچھے رویّوں اور اچھی عادات اپنانے میں بھی معاونت کرتی ہیں۔

اس کا مقصد یہ ہر گز نہیں کہ ہر شخص اور ہر جگہ صرف اچھائیاں اور خوبیاں ہی ہوتی ہیں اور برائیاں نہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ لوگوں اور ماحول میں موجود خامیوں کو یکسر نظر انداز کر دیا جائے اور انہیں دور کرنے کی کوشش ہی نہ کی جائے۔ مقصود فقط اتنا ہے کہ بات کا انداز بدل دیا جائے تاکہ مزاج میں تلخی اور ماحول میں تناﺅ پیدا کےے بغیر اصلاح کی جاسکے۔

اچھا سوچنا اور اچھائی پر نظر رکھنا ہمارے مزاج میں بھی ایک مسرور کن احساس پیدا کرتا ہے۔ اپنے اندر اور باہر کے ماحول کو بہتر کرنے کے لےے ضروری ہے کے ہر چیز کے روشن پہلوﺅں کو اہمیت دی جائے اور لوگوں پر تنقیدی نگاہ رکھنے کے بجائے ان کے اچھے رویّوں کو سراہا جائے اور ان کی تعریف کی جائے۔ خوش کلامی اختیارکی جائے۔ جب کوئی چیز خامیوں سے پاک نہیں، پھر تنقید کس کام کی۔

اگر دوسروں کی اچھائیوں پر نظر رکھی جائے تو خامیاں خود بہ خود چھپ جاتی ہیں۔ دراصل ہمارے مزاج پر جب تنقیدی سوچ کا غلبہ ہو جاتا ہے تو ہم شاید پہلے سے یہ طے کر بیٹھتے ہیں کہ سامنے والا خواہ کتنا ہی بہتر کیوں نہ ہو، ہم نے اس کی تعریف سے پہلے اس کا تنقیدی جائزہ پیش کرنا ہے۔ ایسے میں ہمیں اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ بعض اوقات سامنے والا کس قدر تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے۔ اگر وہ ظاہر بھی نہ کرے تو اسے قلبی طور پر شدید ضرب لگتی ہے جب کہ اگر ہم کسی کم تعریف کے مستحق فرد کو بھی پہلے سراہیں تو یقیناً اس کا حوصلہ بڑھ جائے گا اور اس کے دل میں ہمارے لیے جگہ بن جائے گی۔ تعریف اور حوصلہ افزائی کے بعد اگر ہم نرم الفاظ میں اس کی خامیاں بھی بتائیں گے تو وہ یقیناً اسے توجہ سے بھی سنے گااور پھر انہیں دور کرنے کی کوشش بھی کرے گا۔ دوسری طرف ہمارا حلقہ احباب وسیع ہونے کے ساتھ لوگوں پر ہماری شخصیت کا اچھا تاثر بھی پڑے گا ۔

٭دوسروں کو تنقید کا نشانہ اُس وقت بنایا جاتا ہے جب انسان اپنے بارے میں کسی خوش فہمی کا شکار ہو، یہی وجہ ہے کہ بعض تنقیدیں فقط گمان ہی کا شاخسانہ ہوتی ہیں٭خواتین کی یہ تنقید مختلف رشتوں میں گمبھیر مسائل پیدا کرتی ہے اور مشترکہ خاندانی نظام کے لیے تو یہ ایک زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہے ٭ہر وقت دوسروں کی خامیوں پر نظر رکھی جائے تو گھر کے ماحول پر اِس کا اثر پڑتا ہے اور ایک تناﺅ کی فضا قائم ہو جاتی ہے-
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 283079 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.

Acha Socho Acha Karo - Find latest Urdu articles & Columns at Hamariweb.com. Read Acha Socho Acha Karo and other miscellaneous Articles and Columns in Urdu & English. You can search this page as Acha Socho Acha Karo.