اپنے آپ سے کیا جانے والا ایک
اہم سوال یہ بھی ہے کہ اللہ نے ہمیں کِس نعمت سے محروم رکھا ہے؟ جس قدر جی
چاہے غور کیجیے، اِس سوال کا جواب یہی ہوگا کہ رب کی نعمتوں کا شمار ممکن
ہے نہ شکر۔ قدم قدم پر نعمتیں بکھری پڑی ہیں اور ہم ان سے مستفید ہو رہے
ہیں۔ اہل کراچی پر اللہ کا خاص کرم ہے کہ جہان بھر کی نعمتیں خاصی آسانی سے
میسر ہیں اور اِس پر سَر بسجود ہو رہنا ہی بندگی کا بنیادی تقاضا ہے۔
جس شہر میں رب کی نعمتیں بکھری پڑی ہیں اسی میں بہت سی نعمتیں ایسی بھی ہیں
جو راہوں میں پڑی رہ جاتی ہیں۔ اناج منڈی میں جب مال اُتارا یا چڑھایا جاتا
ہے تو اناج کے ڈھیروں دانے گر جاتے ہیں۔ کبھی کبھی بوریاں پھٹنے سے بھی
اناج کے دانے گر جاتے ہیں اور جو کچھ گرا ہوتا ہے وہ پورا کا پورا اُٹھانا
ممکن نہیں ہوتا۔جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کی تگ و دو میں مصروف کچھ
لوگ ایسی صورتِ حال سے بھی رزق پانے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ آپ نے
دیکھا ہوگا جہاں لوہے کا کام زیادہ ہوتا ہے وہاں مٹی میں لوہے کے ذرات اور
ٹکڑے بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ رَسّی میں مقناطیس باندھ کر
لوہے کے ذرات اور ٹکڑوں کو مٹی سے الگ کرتے ہیں اور فروخت کرکے جسم و جاں
کا رشتہ برقرار رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ بہت سی غریب اور محنت کش خواتین
بھی اناج منڈی میں گاڑیوں سے گرنے والے چاول اور دالوں کے دانے مٹی سے الگ
کرکے جمع کرتی ہیں اور پھر انہیں فروخت کرکے گھر کا چولھا جلتا رکھنے کا
بندوبست کرتی ہیں۔ اِس عمل کو ہم مِٹّی سے رزق یا اندھیروں سے اجالے کشید
کرنا بھی قرار دے سکتے ہیں!
|
|
وہ لوگ ہر اعتبار سے مبارک باد کے قابل اور لائق تحسین ہیں جو حالات کے جبر
کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتے اور کِسی کے آگے ہاتھ پھیلا کر زندگی کو بے
توقیر کرنے کے بجائے خاک چھان کر اناج کے دانے نکالتے ہیں۔ ہمیں اِس دنیا
میں اللہ نے جن مقاصد کے ساتھ بھیجا ہے ان میں ایک یہ بھی ہے کہ کِسی بھی
صورتِ حال سے مایوس نہ ہوں اور برائی کے بطن سے بھی اچھائی برآمد کرنے کی
کوشش کریں! جو لوگ زندگی کے بارے میں مثبت سوچ رکھتے ہیں اور اپنی طرز عمل
سے منفی اقدار کی بیخ کنی کرتے ہیں وہ مایوسی کی بنجر زمین سے بھی امید کی
فصل حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔
زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والی بظاہر کمزور خواتین کی یہ مشقت ان
تمام انسانوں کی غیرت کے منہ پر زنّاٹے دار تھپّڑ ہے جو بہت کچھ پاکر بھی
رات دن محرومیوں کا رونا روتے رہتے ہیں۔ جس معاشرے میں غریب و محنت کش
خواتین مِٹّی چھان کر اناج کا ضیاع روکنے کا مقدس فریضہ انجام دے رہی ہیں
اسی معاشرے میں ایسے بد نصیب اور ناشکرے بھی ہیں جو عام آدمی کے مقابلے میں
آٹھ دس گنا اُجرت پانے کے بعد بھی روتے ہی رہتے ہیں اور کبھی کِسی نعمت کے
لیے اللہ کے آگے سجدہ ریز نہیں ہوتے!
|
|
خاک چھان کر اناج کے دانے الگ کرنے والی خواتین شہر کے ان تمام لوگوں کے
لیے شرم کا سامان ہیں جو بظاہر کِسی جسمانی عارضے میں مبتلا نہ ہونے کے
باوجود محنت سے جی چراتے اور شہر کے مختلف مقامات پر قائم خیراتی دستر خوان
پر بیٹھ کر انتہائی بے شرمی سے صدقے میں مِلنے والی مُفت کی روٹیاں توڑتے
ہیں! اور اِس سے تلخ حقیقت یہ ہے کہ دن بھر مشقت کرنے والوں کو تو روکھی
سوکھی، دال روٹی ہی نصیب ہو پاتی ہے اور مفت خورے صدقے کی مَد میں کاٹے
جانے والے بکروں کی بوٹیاں اڑاتے ہیں! جہاں محنت کو شعار بنانے والے احترام
کی نظر سے نہ دیکھے جاتے ہوں وہاں ایسے ہی تماشے ہوا کرتے ہیں!
دنیا کا ہر محنت کش ایک چلتا پھرتا پیغام ہے۔۔۔ اِس بات کا کہ ہم جس دنیا
میں جی رہے ہیں اس میں سب کچھ آسانی سے نہیں ملتا اور اگر سب کچھ آسانی سے
ملتا رہے تو خرابیاں کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جاتی ہیں! حقیقی کامیابی
انہی کا مقدر بنتی ہے جو محنت کو اپنے وجود اور مزاج کا حصہ بنائے رہتے ہیں۔
دنیا میں جو بھی تبدیلی رونما ہوتی ہے، محنت کرنے والوں ہی کے دم سے ہوتی
ہے۔ لازم ہے کہ ہاتھ پھیلانے کے بجائے اپنا وجود گِھس کر، جان لڑاکر محنت
کرنے والوں کی قدر کی جائے، انہیں حقیقی توقیر سے نوازا جائے۔ |