میں نے اپنے مشاہدات سے ایک نتیجہ اخذ کیا
کہ انسان سن سن کر بہت سی باتوں کی شعوری تصدیق نہ ہونے کے باوجود مان
لیتاہے کیوں کہ ان باتوں کا تکرار اتنا ہوچکاہوتاہے ڈرلگنے لگتاہے کہ کہیں
اگر میں نے اس کے خلاف کردیاتویہ نہ ہوجائے یا وہ نہ ہو جائے یا لوگ کیا
کہیں گے ۔اتنے لوگ کرتے چلے آئے ہیں،کہتے چلے آئے ہیں ایساتو نہیں ہوسکتاکہ
سب ہی کہ سب غلط کہہ رہے ہوں ۔ان خوش فہمی سے بھرپور جوابات سے وہ خود کو
مطمئن کرتاہے اور با لآخر وہ بھی اس عقیدہ ،زعم یا گمان یا معلومات پریقین
کرلیتاہے ۔
آج میں بھی آپ کے سامنے معاشرہ میں پھیلے ہوئے ایسے ہی ایک غلط گمان کو
ردکرنے کے لیے نکلاہوا۔یہ وہ گمان ہے کہ جس نے میرے دوست کی اچھی بھلی شادی
کو موخر کردیا۔میں نے پیٹ پر پتھر باند کر اس دن کا انتظار کیا جب شادی ہال
میں طرح طرح کے کھانے لگے ہونگے ۔اچانک اک آواز بلند ہوگی ۔ کھانا
کھالیں۔اور ہم ہیں پاکستانی ہم تو جیتیں گے بھائی جیتیں گےکاعملی مظاہر ہ
کریں گئے ۔منگنی ہوگئی ۔شادی کی ڈیٹ طے پانے لگی فلاں تاریخ ہونی چاہیے ۔جواب
ملا نہ بابا ۔پاگل ہوکیا اس منحو س مہینہ صفر میں بچی کو بیاہ کردو گے ۔تمہیں
پتہ نہیں اس مہینہ میں شادی نہیں ہوتی ۔محرم میں بھی شادی نہیں کرنی چاہیے
۔بہت نقصان ہوسکتاہے ۔صفر میں تو بلائیں نازل ہوتی ہیں ۔یہ سب فلسفے میںبڑی
غور سے سن رہاتھا۔میں چونکہ دوست کی حیثیت سے مدعوتھا۔دوسری جانب دینی
تعلیم کے طالب علم کی حیثیت سے ضمیر کی عدالت باربار یہ فیصلہ سنارہی تھی ۔نہیں
نہیں ۔خیر میں نے نپے تلے الفاظ میں کہاایساکچھ نہیں ۔لیکن چونکہ میں بچہ
تھاوہ بچہ جس کی تھوڑی تھوڑی مونچھیں بھی تھیں اور تھوڑی تھوڑی داڑھی بھی
سراُٹھارہی تھی ۔خیر انہوں نے وہ کیاکہ میرے دوست کو صفر سے نکال کرلمبے
سفر میں ڈال دیا اور کہا کہ اب شادی کے لیے ربیع الاول کا مہینہ طے پایا۔
محترم قارئین :خوشی کی بات ہے کہ پیارامہینہ نصیب ہوا۔لیکن دکھ کی بات بھی
ہے کہ جس مہینہ کو دھتکارا وہ درست نہ تھا ایساکچھ نہیں کہ وہ نحوست والاہے
۔مناسب نہیں ۔۔شادی منع ہے ۔۔نقصان ہوجائے گا۔ایساکچھ نہیں بلکہ سراسر
حماقت و نادانی اور سنی سنائی پر تکیہ کرلینے کا نتیجہ یاپھر اندھی تقلید
کاثمرہے ۔صفر اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہے اسلام کے آنے سے پہلے بھی اس
مہینے کا نام صفر ہی تھا۔ اسلام نے اس کے قدیم نام کو برقرار رکھا۔اسلام سے
پہلے لوگوں کا خیال تھا کہ اس مہینے میں آسمان سے بلائیں اور آفتیں نازل
ہوتی ہیں، لہٰذا وہ اس مہینے میں سفر وغیرہ نہیں کرتے تھے۔چنانچہ اہل علم
نے اس جہالت کے خاتمہ کے لیے اس ماہ کو نام صفرالمظفر(کامیابی
والامہینہ)اورصفرالخیر(بھلائی والامہینہ) سے بھی پکار ،لکھا۔
جوں جوں اسلامی تعلیمات سے دوری بڑھتی جارہی ہے۔ مسلمان قرآن و سنت کی
تعلیمات کی بجائے رسوم و رواج اور شرک و بدعات کی دلدل میں دھنستے چلے
جارہے ہیں اور دین کے بنیادی احکامات تک کو چھوڑ کرچندمن گھڑت چیزوں کو ہی
اصل دین قرار دیا جارہا ہے۔ صفر کے مہینے کے حوالے سے بھی بیشترمسلمانوں
کایہی حال ہے۔عوام میں یہ بات مشہور ہے کہ اس مہینے میں لولے، لنگڑے اور
اندھے جنات بڑی کثرت سے آسمان سے اترتے ہیں اور لوگوں کو نقصان پہنچاتے
ہیں،اسی وجہ سے بعض لوگ اس مہینے میں صندوقوں، اور درودیوار کو ڈنڈے مارتے
ہیں اور کہتے ہیں کہ اس طرح ہم ان ضرر رساں جنات کو بھگارہے ہیں اسی بناء
پر بالخصوص خواتین اپنے چھوٹے بچوں کے معاملے میں بہت محتاط اور خوف زدہ
رہتی ہیں کہ کہیں یہ جنات انہیں نقصان نہ پہنچادیں۔بعض علاقوں میں صفر کے
مہینے کے اختتام پر خواتین مکڑی کے جالے صاف کرتے ہوئے کہتی ہیں: اے
صفر!دور ہوجا۔ان تمام باتوں کی بنیاد اس مہینے میں بکثرت جنات کے زمین پر
اترنے اور لوگوں کو نقصان پہنچانے کے نظریے پر ہے، جس کی کوئی اصل
نہیں۔بلکہ یہ زمانہ جاہلیت کی توہم پرستی ہے،جس سے اسلا م اپنے پیروکاروں
کومنع کرتاہے۔
صَفَّر المُظَفَّر کی ابتدائی تیرہ تاریخوں کو انتہائی منحوس تصور کیا جاتا
ہے اور ان دنوں میں نہ صرف یہ کہ شادی، بیاہ اور سفر وغیرہ سے گریز کیا
جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ پورے صفر کے مہینے کا نام ہی تیرہ تیزی رکھ دیا گیا ہے
اور پورے مہینے کو منحوس سمجھ کر اس میں کسی بھی نئے کام کا آغاز نہیں کیا
جاتا۔ اس کی بظاہر وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ان تیرہ دنوں میں حضور اکرم ؐ
کے مرض الوفات میں شدت آگئی تھی، لہٰذا صفر کے ابتدائی تیرہ دن اور ان کی
وجہ سے پورا مہینہ منحوس اور ہر قسم کی خیر و برکت سے خالی ہے۔ حالانکہ اس
بات کی کوئی اصل نہیں۔ بلکہ کتب بینی سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپؐکے مرض
میں شدت صفر کے آخری ایام میں پیدا ہوئی تھی۔
لوگوں میں مشہورہے کہ صفر کے آخری بدھ کو حضور اکرمؐ کی بیماری میں افاقہ
ہوگیا تھا اور آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے غسل صحت فرمایا تھا، پھر تفریح
کے لیے گھر سے باہر تشریف لے گئے تھے، اسی بناء پر بعض خواتین گھی، چینی یا
گڑ کی روٹیاں پکا کر تقسیم کرتی ہیں اور جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ حضرت
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضور اکرمؐ کی صحت یابی کی خوشی میں یہ
عمل کیا تھا۔بعض لوگ اس بدھ کو اہتمام سے سیرو تفریح کے لیے باغات اور
پارکوں میں جاتے ہیں جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ہم رسالت مآب ؐ کی صحت
یابی کی خوشی میں یہ عمل کرتے ہیں۔بعض علاقوں میں باقاعدہ تہوار منایا جاتا
ہے۔مزدور اور کاریگر اپنے مالکان سے اس دن کھانے اور مٹھائی کا مطالبہ کرتے
ہیں۔
محترم قارئین !میں زیادہ طوالت کی طرف نہیں جاؤں گا بس عرض یہ ہے کہ آج میں
اور آپ جس ماحول میں سانس لے رہے ہیں ۔یہاں تو علم و دانش کے دریا بہہ رہے
ہیں ۔روشنی و ضوء وضیاء کا دور ہے پھر میں یہ حال وجہ کیاہے ؟کیونکہ جہالت
کو تو علم ختم کرتاہے تو اتناعلم ،نت نئی ایجادات ،اُڑتی چڑیاکے پر گن لیں
۔سمندروں کی تہوں،فضاء کی بلندیوں کوانسان نے سر کرلیالیکن صفرکے مہینے پر
اسے تشویش ہی رہ گئی ۔میں جہاں تک سمجھاہوں اس کی اصل وجہ دین سے دوری ،دینی
تعلیمات کی کمی ،علوم عصری کا غلبہ ،علوم اسلامیہ کو ثانوی حیثیت دینے کی
وجہ سے ہے ۔دین کے ایک ادنی خادم کی حیثیت سے میرایہ دعوی ہے کہ آپ دین
اسلام کے سائبان تلے آئیں ،دین کو سیکھنے کی کوشش کریں ۔یہ دین آپ پر وہ وہ
مخفی جہاں افشاں کردے گاجہاں شایدآپ کبھی بھی نہ پہنچ سکتے ۔
مجھے معلوم ہے میرا پیغام پڑھ کر آپ نے مجھے مولوی ،ملاکا خطاب تو ضرور
دیاہوگا۔لو بھائی ڈاکٹر صاحب چینی کے ریٹ بھی بتاتے ہیں تو اسلام کی روشنی
میں ،کسی کی مداح و ذم کو بھی گھسیٹ کر اسلام کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں
۔کیاکروں۔جس نے اس دنیا کو بنایا،جس نے اس ذہین انسان کو بنایا،اسے اشرف
المخلوقات بنایا،دنیا کا را ز اس کو سمجھایا،طاقت و قوت کا سرچشمہ
عطافرمایا۔اسی خالق و مالک ربّ نے فرمایا:
اِنَّ الد َّین عِنْد اللّٰہ ِ السلام
تو کیاخیال ہے ۔میری فلاسفی ٹھیک نہیں جو ربّ کی پسند وہ ہو سب کی پسند ۔ |