اللہ والوں کے پیارے اقوال

اقوال حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ
فرمایا بھیڑ بکریاں انسا نو ں سے زیادہ باخبر ہوتی ہے کیونکہ چرواہے کی ایک آواز پر چرنا چھوڑ دیتی ہیں اور انسان اپنی خواہشات کی خاطر احکام الٰہی کی بھی پرواہ نہیں کرتاo فرمایا فکر ایک ایسا آئینہ ہے جس میں نیک و بدکا مشاہدہ کیا جا سکتا ہےo فرمایا تم سے قبل آسمانی کتابوں کی ایسی وقعت تھی کہ لوگ اپنی راتیں ان کے معانی پر غور و فکر کرنے میں گزار دیتے تھے اور دن میں اس پر عمل پیرا ہو جاتے تھے لیکن تم نے اپنی کتاب پر زیرو زبر تو لگائے مگر عمل ترک کرکے آسائش دنیا میں گرفتار ہوگئےo کوئی شخص قبرستان میں بیٹھا کھانا کھا رہا تھا اس کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ منافق ہے کیونکہ جس کی نفسانی خواہش مردوں کے سامنے بھی حرکت کرتی ہے اس کو موت و آخرت پر یقین نہیں ہوتا اور جو ان دونوں پر یقین نہ کرے اس کو منافق کہتے ہیں۔

اقوال حضرت مالک بن دینار رحمتہ اللہ علیہ
فرمایا کہ میں نے آسمانی صحائف میں دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلمکی امت کو دو ایسی نعمتیں عطا فرمائی کہ جبرائیل ؑاور میکائیل ؑکو بھی عطا نہیںہوئی۔اول نعمت یہ ہے کہ ماذکرونی اذکرکم تم مجھے یادکرو، میں تمہیں یاد کروں اور دوسری نعمت یہ ہے اُدعونی استجب لکم تم مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گاo منقول ہے کہ کسی نے دم مرگ آپ سے وصیت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو فرمایا کہ تقدیر الٰہی پر راضی رہ تاکہ تجھ کو عذاب حشر سے نجات مل سکے۔

اقوال حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہ
بعض لوگوں نے آپ سے سوال کیا کہ بلا کسی ظاہری مرض کے آپ گریہ و زاری کیوں کرتی رہتی ہیں۔ فرمایا کہ میرے سینے میں ایک مرض پنہاں ہے کہ جس کا علاج نہ تو کسی طبیب کے بس میں ہے اور نہ وہ مرض تمہیں دکھائی دے سکتا ہے اور اس کا واحد علاج صرف وصال خداوندی ہے۔ اس لیے میں مریضوں جیسی صورت بنائے ہوئے گریہ وزاری کرتی رہتی ہوں کہ شاید اسی سبب سے قیامت میں تکمیل تمنا ہو جائے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ اکثر فرمایا کرتیں تھیں کہ صرف زبانی توبہ کرنا کاذب لوگوں کا فعل ہے کیونکہ اگر صدق دل کے ساتھ توبہ کی جائے تو دوبارہ کبھی توبہ کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔

٭اقوال حضرت فضیل بن عیاض رحمتہ اللہ علیہ
فرمایا دو خصلتیں حماقت پر مبنی ہیںاول بلاوجہ ہنسنا، دوم دن رات کی بیدار سے گریز کرنا اورخود عمل نہ کرتے ہوئے دوسروںکو نصیحت کرناo کسی قاری نے بہت خوش الحانی کے ساتھ آپ کے سامنے کوئی آیت تلاوت کی تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میرے بچے کے نزدیک جاکر تلاوت کرو لیکن سورة القارعة ہرگز مت پڑھنا کیونکہ خشیت الٰہی کی وجہ سے وہ ذکر قیامت سننے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ مگر قاری نے وہاں پہنچ کر سورة القار عة کی ہی تلاوت کی اور آپ کا صاحبزادہ ایک چیخ مارکر دنیا سے رخصت ہو گیاo حضرت امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے اپنے کانوں سے حضرت فضیل کو یہ کہتے سنا ہے کہ طالب دنیا رسوا و ذلیل ہوتا ہے۔

٭اقوال حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ علیہ
فرمایا کہ جس کو تین حالتوں میں دلجمعی حاصل نہ ہو تو سمجھ لو کہ اس کے اوپر باب رحمت بند ہو چکا ہے۔ اول تلاوت کلام مجید کے وقت‘ دوم نماز میں ‘ سوم ذکر و شغل کے وقتo آپ رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ایک غلام خرید کر جب اس سے دریافت کیا کہ تم کھاتے کیا ہو؟ تو اس نے کہا کہ جو آپ کھلا دیں۔میں نے پھر پوچھا تمہاری خواہش کیا ہے؟ تو اس نے جواب دیا جو آپ کی خواہش ہو۔ غلام کو ان چیزوںسے بحث نہیںہوا کرتی یہ سن کر میں نے سوچا کہ کاش میں بھی اللہ تعالیٰ کا یونہی اطاعت گزار ہوتا تو کتنا بہتر ہوتاoکسی نے آپ رحمتہ اللہ علیہ سے سوال کیا کہ دلوںپر پردے کیوں پڑے ہوئے ہیں؟ فرمایا کہ خدا کے دشمنوں کو اپنا دوست سمجھنے پر اور آخرت کی نعمتوں کو فراموش کر دینے کی وجہ سے۔

٭اقوال حضرت بشر حافی رحمتہ اللہ علیہ
فرمایا کہ دنیاوی نمود کا خواہشمند لذت و آخرت سے محروم رہے گاo ایک دن آپ رحمتہ اللہ علیہ نے قبرستان میں مُردوں کو لڑتے ہوئے دیکھ کر اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ ان کا رازمجھے بھی معلوم ہو جائے۔ جب میں نے ان مُردوں سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ایک ہفتہ قبل کسی شخص نے سورہ اخلاص پڑھ کر اس کا ثواب ہمیں بخش دیا تھا ، آج پورے ایک ہفتے سے ہم اس کی تقسیم میںمصروف ہیں لیکن ابھی تک وہ ختم نہیں ہواoفرمایا کہ جو دنیاوی عزت چاہتا ہے اسے تین چیزوں سے کنارہ کش رہنا چاہیے، اوّل مخلوق سے اظہار حاجت کرنا، دوم دوسروں میں عیب نکالنا، سوم کسی کے مہمان کے ہمراہ جاناo

٭اقوال حضرت ذوالنون مصری رحمتہ اللہ علیہ
فرمایا کرتے تھے کہ ایک دن میںدریاپر وضو کر رہا تھا کہ سامنے کے محل پرایک خوبصورت لڑکی نظر آئی اور جب میں نے اس سے گفتگو کرنے کیلئے کہا تو اس نے کہا کہ دور سے میں تم کو دیوانہ تصور کیے ہوئے تھی اور جب کچھ قریب آگئی تو میں نے عالم سمجھا اور جب بالکل قریب آگئی تو اہل معرفت تصور کیا لیکن اب معلوم ہوا کہ تم ان تینوں میں سے کچھ بھی نہیں اور جب میں نے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ دیوانے وضو نہیں کرتے، عالم نامحرم پر نظر نہیں ڈالتے اور اہل معرفت خدا کے سوا کسی کو نہیں دیکھتے ۔یہ کہہ کر وہ غائب ہو گئی اور میں نے سمجھ لیا کہ یہ غیب کی جانب سے ایک تنبیہ ہےoفرمایا ہر جرم کی ایک سزا ہوا کرتی ہے اسی طرح ذکر الٰہی سے غفلت کی سزا دنیاوی محبت ہےo فرمایا کہ انسان پر چھ چیزوں کی وجہ سے تباہی آتی ہے۔ 1- اعمال صالحہ سے کوتاہی کرنا 2- ابلیس کا فرمانبردار ہونا 3- موت کو قریب نہ سمجھنا 4- رضا الٰہی چھوڑ کر مخلوق کی رضا مندی حاصل کرنا 5- نفس پرستی کرنا 6- اکابرین کی غلطی کو سند بنا کر ان کے فضائل پر نظر نہ کرنا اوراپنی غلطی کو ان کے سر تھوپناo فرمایا کہ اگر تم حصول معرفت کے متمنی ہو توخدا سے ایسی دوستی کی مثال پیش کرو جیسی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کی۔ کبھی ذرہ برابر مخالفت نہ کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں ”صدیق“ کے خطاب سے نوازاoفرمایا شکم سیر کو حکمت حاصل نہیں ہوتیoفرمایا قلیل کھانا جسمانی توانائی کا ذریعہ اور قلیل گناہ روحانی توانائی کا ذریعہ ہےo فرمایا کہ خوف الٰہی کی نشانی یہ ہے کہ خدا کے سوا ہر شے سے بے خوف ہو جائےoفرمایا جو قضا و قدر پر راضی رہتا ہے وہ ہی اپنے نفس سے واقف ہو جاتا ہے۔

اقوال حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ
آپ رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے بارہ سال تک نفس کو ریاضت کی بھٹی میں ڈال کر مجاہدے کی آگ سے تپایا اور ملامت کے ہتھوڑے سے کوٹتا رہا، جس کے بعد میرا قلب آئینہ بن گیا ، پانچ سال مختلف قسم کی عبادات سے اس پر قلعی چڑھاتا رہا ، ایک سال تک جب میں نے خود اعتمادی کی نظر سے اس کا مشاہدہ کیا تو اس میں تکبر و خود پسندی کا مادہ موجود پایا، چنانچہ پھر مسلسل پانچ سال تک سعی بسیار کے بعد اس کو مسلمان بنایا اور جب اس میں خلائق کا نظارہ کیا تو سب کو مردہ دیکھا اور نماز جنازہ پڑھ کر ان سے اس طرح کنارہ کش ہو گیا۔ جس طرح لوگ نماز جنازہ پڑھ کر قیامت تک کیلئے مردے سے جدا ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد مجھے واصل الی اللہ کا مرتبہ حاصل ہو گیاo آپ عشاءکی چار رکعت پڑھ کر سلام پھیرتے ہوئے فرماتے کہ یہ نماز قابل قبول نہیں یہ کہہ کر پھر چار رکعت نماز پڑھتے پھر یہی فرماتے کہ یہ بھی قابل قبول نہیں حتیٰ کہ اسی طرح رات ختم ہو جاتی اور صبح کو اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے کہ میں نے تیری بارگاہ کے لائق نماز کی بہت سعی کی لیکن محروم رہا کیونکہ جیسا میں خود ہوں ویسی ہی میری نماز ہے لہٰذا مجھے اپنے بے نمازی بندوں میں شمار کرo فرمایا بھوک ایک ایسا ابر ہے جس سے رحمت کی بارش ہوتی رہتی ہےo

اقوال حضرت شفیق بلخی رحمتہ اللہ علیہ
جب لوگوں نے آپ سے سوال کیا کہ اللہ پر کامل اعتماد کرنیوالا کون ہے؟ فرمایا جو دنیاوی شے کے فوت ہو جانے کو غنیمت تصور کرے اور جواللہ کے وعدوں کو انسانوں کے وعدوں سے زیادہ اطمینان بخش سمجھے o فرمایا کہ میں نے متعدد علماءسے سوال کیا کہ دانشور‘ دولت مند‘ بخیل‘ دانا اوردرویش کا کیا مفہوم ہے؟ اور سب نے یہی جواب دیا کہ دانشور وہ ہے جو جب دنیا سے احتراز کرے۔ دولت مند وہ ہے جو قضا و قدر پر مطمئن رہے،دانا وہ ہے جو فریب دنیا میں مبتلا نہ ہو سکے، درویش وہ ہے جو زیادہ طلب نہ کرے،اور بخیل وہ ہے جو دولت کو مخلوق سے زیادہ عزیز تصور کرتے ہوئے کسی ایک کو حبہ نہ دے۔
Jaleel Ahmed
About the Author: Jaleel Ahmed Read More Articles by Jaleel Ahmed: 383 Articles with 1217678 views Mien aik baat clear karna chahta hoon k mery zeyata tar article Ubqari.org se hoty hain mera Ubqari se koi barayrast koi taluk nahi. Ubqari se baray r.. View More