عدل و انصاف جل تھل ہوگیا ،شرم
وحیا اٹھ گئی ،اقدار،غیر ت وحمیت جاتی رہی ،مکر وفریب اور دھوکہ دہی عادت
بن گئی،مفادات ،خواہش پرستی اور زر طلبی نے ہوش ہوا کردیئے ،جاہ و اقتدار
کے نشے نے شرافت ِانسانی کو تار تار کردیا ،انسانی آقاﺅں کی خوشنودی کی
خاطرصنف ِنازک کی عصمت دری کو حلال سمجھا گیا،معصوم بے گناہ حواکی بیٹی کی
سسکیوں اور چیخوں کو بھلا کر محمد بن قاسم جیسے غیور مسلمانوں کی روحوں کو
تڑپایا دیاگیا۔بھلا کوئی ادنی ساشخص ماں بہن بیٹی کی طرف میلی آنکھ برداشت
کرسکتاہے؟کیا کوئی ان کی آبروریزی پر خاموش تماشائی بن سکتاہے؟ کیا کسی قوم
کے معزز امراء وزراء سلاطین اورنگہبان قوم کی بیٹیوں کو اغیا ر کی سلاخوں
کے پیجھے دیکھ کر چپ رہ سکتے ہیں؟ کیا کسی مہذب معاشرے میں ایک معصوم بیٹی
پر ڈھائے جانے والے اندوہناک مظالم پر لوگ اطمینان اور چین سے زندگی
بسرکرسکتے ہیں؟ کیاباشعور قوم اپنی بیٹیوں میں ”ملالہ اورعافیہ کی طرح
“تفریق کر سکتی ہے؟بیٹی کسی کی ہو،کوئی بھی ہو جیسی بھی ہوپر وہ عزت ہوتی
ہے اور عزت کی خاطر انسان مر تو سکتا ہے مگر جھک نہیں سکتا،غیور
لوگوںاورزندہ قوموں کایہی شیوہ رہاہے۔
مگر!افسوس ایک پاکستانی قوم ہے جو تہذیب وتمدن ،اقداروروایات ،غیرت و حمیت
سے اب تک کوسوں دور ہے ۔یہ واحد قوم ہے جو پینسٹھ سال سے بجائے ارتقاءکے
انحطاط کا شکا رہے ۔یہ وہ قوم ہے جو ہر بار اژدھوں سے ڈسی جاتی ہے پھربھی
انہی کو اپنا پیشوا بناتی ہے اور سرور دوجہاں رحمة اللعالمین صلی اللہ علیہ
وسلم کے فرمان مبارک ’ ’مومن ایک سوراخ سے دوبارنہیں ڈسا جاتا“کو پس پشت
ڈالے ہوئے ہے ۔یہی وہ قوم ہے جو آزادی سے لے کر اب تک سینکڑوں مظالم
اورحادثات کا شکار ہوئی مگر دو چار دن رسمی احتجاج اورروایتی بیان بازی سے
آگے نہ بڑھ سکی۔یہی وہ قوم ہے جس کے مسلط کردہ حکمرانوں نے انہی کے خون
پسینے سے کمائی گئی حلال کمائی کو سات نسلوں کے لیے ذخیرہ کرکے دشمنوں کے
دامن میں گروی رکھا ہواہے ،اور یہ اب تک اس ظلم کا احتساب نہیں کر سکی ۔
یہی وہ قوم ہے کہ جس پر اپنے ہی ملک کی زمین تنگ کردی گئی اوررہنے کے لیے
امن وامان کی فضاءمکدر کردی گئی ،دو وقت کی روٹی اتنی مشکل کر دی گئی کہ اس
کے باشندے خود کشیوں پر مجبور ہوگئے ،بجلی پانی گیس حتیٰ کہ بنیادی ضروریاتِ
زندگی سے محروم کردیاگیا ،مگر پھر بھی یہ ان کھوٹے سکوں پر اعتماد کیے ہوئے
ہے ۔یہ وہ قوم ہے جس کے پیسوں پر حکمران بیرونِ ملک دوروں پر ہجومِ یاراں
لے جاتے ہیں اورکروڑوں روپیے بے دردی سے لٹا دیتے ہیںاور ان کے سروں پر جوں
تک نہیں رینگتی۔یہ پاکستانی قوم ہی ہے کہ جسے وقت پر انصاف ملتاہے نہ ظلم
کا بدلہ بلکہ سالوں سال عدالتی دربانوں کی خاک چھاننی پڑ تی ہے ۔یہی وہ قوم
ہے جس کا کوئی کام بغیرطمع ولالچ کے نہیں ہوتا ،جس کے سرکاری ادارے رشوت
خوری کے گند سے لت پت ہیں،جس کے تعلیمی اداروں میں معیار تعلیم پچاس فیصد
بھی نہیں ہے۔یہ بھی پاکستانی قوم ہے جس کے روزانہ درجنوں آدمی دن دیہاڑے
ماردیے جاتے ہیں اور یہ حساب تو کجا احتساب بھی نہیں کرسکتی ،ظالموں اور
قاتلوں میں فرق نہیں کرسکتی ۔
اور یہ بھی ایک پاکستانی قوم ہے جس کی ایک تعلیم یا فتہ بیٹی عافیہ صدیقی
کو اپنی ہی زمین سے اٹھا کر دشمنوں کے حوالے کر دیا جاتاہے اور کئی برس تک
اس ”زندہ“ اور” باشعور“ قوم کو خبر تک نہیں ہوتی کہ آخراسے زمین نگل گئی یا
آسمان کھاگیا ؟۔پھر جب غیروں کے جگانے پر کچھ بھنک پڑتی ہے توبے سودجاتی ہے
،تبھی ا س معصوم کو بِناکسی ثبوت کے چھیاسی سال قید کی سزاسناکر تاریخِ
انسانیت کے ظلم کی انتہا کردی جاتی ہے اور یہ قوم چند دن کے رسمی اور
روایتی احتجاج کے بعد محوِ سکوں ہوجاتی ہے اور ان کے مسلط کردہ چاپلوس
حکمران بھی وقتی غیظ وغضب کم کرنے کے لیے جگالی کرتے ہیں اور پھر منہ سِی
لیتے ہیں۔اب تو نو بت یہاں تک آن پہنچی کہ طبقاتی تفریق کا ناسور معصوموں
کی داد رسی کوبھی کھانے لگا ہے ،اور ایک ہی مملکت اور ایک ہی قوم میں بسنے
والی ملالہ اور عافیہ کے درمیان ایک چٹان حائل کر دی گئی ۔ایک کی خاطر
فرانس میں مملکتِ پاکستان اور یونیسکوکے تعاون سے کانفرنس کا انعقاد کیا
جاتاہے اورقوم کے خزانے میں سے ایک کروڑڈالر تک ”ملالہ“کی نذر کردیے جاتے
ہیں، جب کہ دوسری طرف مظلمو م ”عافیہ“ کی آزادی کے لے ایک کا غذ کا ٹکڑا
لکھنے کی بھی زحمت نہیں کی جاتی ،ایک طرف وزیر داخلہ سے لے کر صدرِ” محترم“
تک عیادت کے بہانے گلدستوں سمیت جاکر سلامی دیتے ہیں تو دوسری طرف دس سال
سے رِستے زخموں کے کرب والم میں مبتلا عافیہ کی خاطر پھول بھجوائے جاتے ہیں
،نہ کسی سرکاری کارندے کومحض دل جوئی کی خاطر امریکہ روانہ کیا جاتاہے ۔
ایک طرف ملالہ کے لیے ”دختر پاکستان“کا بل پاس کروایاجاتاہے تو دوسری طرف
مظلوم عافیہ کی خاطرایک اجلاس تک نہیں بلایا جاتا۔ ایک کے والد
کوبطورمعاوضہ اقوام متحدہ میں فروغ ِتعلیم کا مشیربنا کرآسمان کی بلندیوں
تک پہچادیا جاتاہے تو دوسری معصوم کی بزرگ ماں کو خوشی کی خاطر عافیہ نہیں
دی جاتی ۔
اسی منافقت ،دوغلے پن اور تفریق کی وجہ سے پاکستان اور اس میں بسنے والے
کروڑوں انسانوں کی جگ ہنسائی ہورہی ہے اور اقوام ِعالم کی نظر میں پاکستان
کا معیار مسلسل گررہاہے ،جس کی وجہ سے دشمن‘ پاکستان کے وجود کو مٹانے کی
خاطر سازشوں کے جال بن رہاہے اور پاکستان کو نا کام اسٹیٹ ثابت کرنے کے پر
تول رہا ہے ۔حکمرانوں کے مکروفریب ،دوہرے معیار،اور پاکستانی قوم کی بے حسی
،بے اعتنائی اورغفلت ہی کا نتیجہ ہے کہ اس معصوم کی مدد کے لیے دیار ِ غیر
سے چاروفودگاہے بگاہے ہمارے دروازے پر دستک دینے آگئے،جس میں بشمول سینیٹرز
اورسابق امریکی صدارتی امیدوار کے‘ امریکن وومن کانگریس کی چھ مرتبہ منتخب
ہونے والی سنتھیامیکینی اور عافیہ صدیقی کی وکیل ٹینا فوسٹر بھی ہے۔ان وفود
کا آنا پاکستانی حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہے کہ جو عہد تو ملک وملت اور
رعایا کے حقوق کے تحفظ کا کرتے ہیں ،مگر حال یہ ہے کہ ایک معصوم عافیہ
صدیقی کو دشمن اغوا کرلیتاہے اور یہ مکاراس کی رہائی کے لیے ذرا سی سنجید ہ
کوشش نہیں کر سکتے ۔اسی طرح ان لوگوں کا آنا پاکستانی قوم کے لیے بھی ایک
طعنہ ہے کہ” تم کہنے کو تو اسلام جیسے عالمگیر مذہب کے پیروکار ہو اور عمر
بن خطابؓ جیسے عادل حکمران کے نام لیوا ہواور خالد بن ولیدؓ اور سلطان صلاح
الدین ایوبی ؒجیسے بہادر مجاہدوں کے نغمہ خواںہو“ مگر تمہاری یہ حالت ہے کہ
تم اپنی ایک بہن کو انصاف نہیں دلا سکتے ،اپنے حکمرانوں سے اس کی آزادی کی
خاطر پوچھ نہیں سکتے اور اس مظلوم کی خاطر اپنی جان فدا نہیں کرسکتے ؟کیا
تمہارے آباﺅ اجداد کی روایت اسی طرح چلی آرہی ہے؟۔
قانونِ الہی تو یہی ہے کہ وہ مظلوم کی پکار پر خود لبیک کہتاہے ۔وہ چاہے تو
ایک مچھر سے نمرود جیسے ظالم وجابر کا کام تمام کرادے ،وہ چاہے تو ابابیلوں
کے ذریعے بدمست ہاتھیوں کے گروہوں کو نیست ونابود کردے وہ چاہے تو فور ا
عافیہ صدیقی کی رہائی کا بندو بست کردے ،مگر اس وقت حکمرانوں کی منافقت
،تفریق اور ہماری بے حسی،لاپرواہی اور غفلت کا کڑا حساب ہوگا ،اور جب حساب
شروع ہوگیاتو پھر عافیت محال ہے ۔پس ضرور ت ہے! متحد ہونے کی،جاگنے کی،دل
میں دردِانسانیت کا احساس پید ا کرنے کی اور اس کی قدر ومنزلت پہچاننے کی
اور اپنے آپ کو بدلنے کی،اوریہ سب ممکن ہے! بس عزم وہمت مطلوب ہے ،پھر
منافقت رہی گی،نہ طبقاتی تفریق ،دھوکہ دہی اور کرپشن کی شکایت ہوگی ،نہ امن
وامان ،دہشت گردی اور مہنگائی جیسے بے تحاشا مسائل کا سامنا ہوگا،عدل
وانصاف کی خاطر عدالتوں کے دھکے کھانے کی حاجت ہوگی ،نہ مظلوم عافیہ صدیقی
کی پکار کی خاطردیار ِغیر سے اغیار کے آنے کی پشیمانی ہوگی ،پاکستان کے
خلاف سازشیں کرنے کی ہمت ہوگی ،نہ اسلام اوراہل ِاسلام پر انگشت اٹھانے کی
جرات ہوگی ،کیوں کہ ارشاد باری ہے کہ ”اللہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتے جو
اپنی حالت خود نہ بدلے“۔عافیہ صدیقی کی پکار بھی یہی ہے۔ |