انتخابی نشانات

الیکشن کمیشن کے مطابق ملک میں سیاسی جماعتیں زیادہ اور انتخابی نشانات کم ہیں۔ بلی اور لوٹے سمیت آٹھ انتخابی نشانات کو فہرست سے خارج کرنے کے بعد الیکشن کمیشن کے پاس 217رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کیلئے صرف 171نشانات رہ گئے ہیں۔ لوٹے کے انتخابی نشان پر تو شاید تمام سیاست دانوں کو اعتراض تھا البتہ الیکشن کمیشن نے نواز لیگ کے اعتراض پر بلی کا نشان بھی فہرست سے نکال دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کو دی گئی درخواست میں نواز لیگ نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ ہمارے انتخابی نشان شیر کی شکل بلی سے مشابہت رکھتی ہے، اس لیے ووٹر شیر کے بجائے بلی پر مہر لگا دیتے ہیں۔ ’’ترازو ‘‘کا نشان حاصل کرنے کیلئے جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے درمیان جنگ جاری ہے، جبکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی نئی نویلی سیاسی جماعت تحریک تحفظ پاکستان کیلئے میزائل کا انتخابی نشان مانگ لیا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) چاہتی ہے کہ کتاب بند شکل میں اسے ملے، کیونکہ یہ انتخابی علامت ایک عرصے سے اس کا نشان ہے لیکن الیکشن کمیشن کا خیال ہے کہ بند کتاب کے بجائے کھلی کتاب کو نشان بنایا جائے۔

آئندہ انتخابات میں پیپلز پارٹی (تیر)، نواز لیگ (شیر)، قاف لیگ (سائیکل)، ایم کیو ایم (پتنگ) اور اے این پی (لالٹیں) کے انتخابی نشانات کے تحت ہی الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ بظاہر دہشت گردی کی مخالف ہیں لیکن ان کے پسندیدہ انتخابی نشانات پر غور کرنے سے سارا منظرنامہ واضح ہو جاتا ہے کہ کون کتنا امن پسند اور صلح جو ہے۔ 1971ء اور 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کا انتخابی نشان ’’تلوار‘‘ تھا۔ 1988ء کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو نے ’’تیر‘‘ کے نشان کا انتخاب کیا۔ اس وقت برسراقتدار جماعت پیپلز پارٹی جو امن کی سب سے بڑی داعی ہے کا انتخابی نشان تیر ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ تیر اور تلوار دونوں امن کی علامت نہیں ہیں۔ 1993ء کے انتخابات میں پہلی بار نواز لیگ کو ’’شیر‘‘ کا نشان ملا تھا۔ شیر بہادری کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ خوف اور دہشت کی بھی علامت ہے لیکن یہ کیسا شیر ہے جو اپنا شکار خود کرنے کی بجائے بچا کھچا تلاش کرتا ہے اور مخالفین کو میدان میں للکارنے کی بجائے غار میں چھپ کر دھاڑتا ہے۔

قاف لیگ کی سائیکل پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے پنکچر کر دی ہے۔ 2008ء کے انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی والے اسے ’’قاتل لیگ ‘‘اور نواز لیگ والے ’’جرنیلی لیگ ‘‘کا طعنہ دیتے رہے مگر آج یہ جماعت آدھی پیپلز پارٹی اور آدھی نواز لیگ میں ہے۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد اور نشان پر اسکی جو لے دے ہو رہی ہے، اس سے کچھ اندازہ ہوتا ہے کہ ق لیگ کو اس دفعہ ’’ٹشو پیپر‘‘ بننے کی سعادت حاصل ہوگی۔ ایم کیو ایم کا انتخابی نشان ’’پتنگ‘‘ ہے لیکن پچھلے کئی سالوں سے پتنگ بازی متنازعہ بنی ہوئی ہے۔ ویسے بھی پتنگ بازی میں دھاتی ڈور استعمال کرنے سے گردنیں کٹنے کا خدشہ رہتا ہے۔ انتخابی نشان ’’مکا‘‘ پر شہید بھٹو گروپ کا قبضہ ہے، اس لیے موجودہ حالات کے تناظر میں ایم کیو ایم کا انتخابی نشان ’’مک مکا‘‘ ہونا چاہئے۔ اے این پی کے ساتھ انتخابی نشان ’’لالٹین‘‘ ہی جچتا ہے، کیونکہ اس کا حکومتی اتحادی ہونے سے ہی آج عوام لالٹینیں خریدنے پر مجبور ہیں۔ اگر پھر بھی وہ اپنی ثقافت کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی دوسرا نشان حاصل کرنا چاہتی ہے تو پھر بندوق یا پشاوری چپل میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لے۔

’’ترازو ‘‘کے انتخابی نشان پر جماعت اسلامی اور تحریک انصاف دونوں اپنا حق جتاتی ہیں مگر الیکشن کمیشن کے رول کے مطابق ترازو جماعت اسلامی کا حق ہے، کیونکہ اس نے 70ء کا الیکشن اسی انتخابی نشان پر لڑا تھا۔ تحریکِ انصاف ’’چراغ‘‘ کی حق دار ہے جو 2002ء کے الیکشن میں اس جماعت کا انتخابی نشان رہا ہے۔ اگر تحریک انصاف کو روشنی پسند نہیں تو پھر وہ ’’بیٹ‘‘ کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ آج تک یہ راز نہیں کھل سکا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے پاس کونسی کتاب ہے۔ اسی راز کو فاش کرنے کیلئے شاید الیکشن کمیشن اسے کھلی کتاب دینا چاہتا ہے مگر جمعیت بند کتاب پر ہی بضد ہے۔ بہرحال کتاب چاہے کھلی ہو یا بند البتہ اس کے فرنٹ پر واضح الفاظ میں ’’73ء کا آئین‘‘ لکھا ہونا ضروری ہے ورنہ یہ مولانا صاحب کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ ڈاکٹر قدیر خان اپنی نئی جماعت کیلئے ’’میزائل‘‘ مانگ رہے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ وہ ’’ایٹم بم‘‘ کا مطالبہ کرتے شاید اسی بہانے اس کا ’’دیدار‘‘ ہی نصیب ہو جاتا۔ پشاور باڑے والوں نے تو بہت پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اگر ایٹم بم نہیں چلاتے تو ہمیں اس کی شکل ہی دکھا دو ہم خود بنا لے گا۔

الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ وہ پارٹی سے ہٹ کر کچھ سیاسی شخصیات کو ذاتی حیثیت میں بھی انتخابی نشانات الاٹ کرے۔ راجہ پرویز اشرف کو انتخابی نشان میں ایسا ’’بلب‘‘ ملنا چاہئے جس پر 31دسمبر 2009ء لکھا ہو۔ زرداری صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے سیاست مولانا فضل الرحمن سے سیکھی، اس لیے ان کو بھی کتاب دی جائے جس پر واضح الفاظ میں ’’میثاق جمہوریت‘‘ لکھا ہونا چاہئے۔نواز شریف کا انتخابی نشان ’’ہوائی جہاز‘‘ ہونا چاہئے تاکہ جدہ آنے جانے میں آسانی رہے۔ عبدالرحمن ملک کیلئے آج کل ’’موبائل‘‘ ہی بہترین انتخابی نشان ہے البتہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی سفارش پر انہیں کیلا یا سیب بھی دیا جا سکتا ہے۔ الطاف حسین کا انتخابی نشان ’’ٹیلی فون‘‘ ہونا چاہئے تاکہ انہیں اپنے ووٹروں سے رابطہ کرنے میں آسانی رہے۔ میاں شہباز شریف کا انتخابی نشان ’’لیپ ٹاپ‘‘ ہونا چاہئے یا پھر ’’پیلی ٹیکسی‘‘ بھی دیا جا سکتا ہے۔ ’’مکا‘‘ شہید بھٹو سے واپس لے کر پرویز مشرف کو دے دینا چاہئے ویسے بھی وہ ’’ڈرتے ورتے ‘‘کسی سے نہیں ہیں۔ چودھری شجاعت حسین کا انتخابی نشان ’’کالی عینک‘‘ ، غلام احمد بلور کا ’’ٹرین‘‘ اور شیخ رشید کا ’’سگار‘‘ یا ’’ستو‘‘ ہونا چاہئے۔ اسی طرح نااہلی کی مدت پوری ہونے کے بعد آئندہ کیلئے یوسف رضا گیلانی کو انتخابی نشان ’’خط‘‘ ملنا چاہئے، جبکہ جو اُمیدوار انتخابات میں دھاندلی کرے اس کا الیکشن روک کر اسے دوبارہ انتخابی نشان ’’جوتا‘‘ دیا جائے۔
Najeem Shah
About the Author: Najeem Shah Read More Articles by Najeem Shah: 163 Articles with 194361 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.