سَفر کو چلے .... suffer تک پہنچے!

اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کسی نظام کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا تو فوراً اپنی رائے بدل لے کیونکہ پاکستان ایسی کسی بھی رائے کو پوری شدت سے ناکام بنانے کے لیے دُنیا کے نقشے پر موجود ہے! ہم وہ قوم ہیں جو ترتیب، نظم، قواعد، ضوابط اور ایسی ہی دوسری بہت سی ”عِلّتوں“ سے بہت دور، بڑے آرام سے ”رینڈم“ کے اُصول پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ ایسی زندگی ہے جس میں تکالیف اور پریشانیاں بڑھتے بڑھتے اب زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ بقول اصغر گونڈوی مرحوم
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے!
 

image

دُنیا بھر میں صبح کام پر جانا اور شام کو واپس آنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ دُعا دیجیے ہر طرح کے نظام کی ناکامی کو کہ اب پاکستان میں کام پر جانا بجائے خود کام ہے! اور شام کو کِسی نہ کِسی طرح گھر واپس پہنچ جانا کوئی بڑی چوٹی سَر کرنے سے کم نہیں! جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس نے زندگی یونہی ضائع کی ہے اور کبھی کچھ نہیں کیا وہ اگر روزانہ کام پر جاتا ہے تو اِسی پر فخر کرے! کام کے مقام تک پہنچنا اب کئی مراحل پر مشتمل مہم جوئی کی حیثیت اختیار کرچکا ہے! بہت محتاط ہوکر بھی اندازہ لگایا جائے تو کراچی کی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے۔ اتنی بڑی آبادی کے لیے اب تک ماس ٹرانزٹ سسٹم متعارف کرایا نہیں جاسکا۔ دُنیا اگر غور سے دیکھے تو حیران رہ جائے کہ اِتنے بڑے شہر میں سرکاری شعبے کی ٹرانسپورٹیشن نہ ہونے کے برابر ہے اور پھر بھی شہر رواں دواں رہتا ہے! ایک زمانہ تھا کہ لوگ بسوں میں سُکون سے کھڑے ہو رہنے پر اللہ کا شکر ادا کرتے تھے۔ پھر یہ ہوا کہ کِسی نہ کِسی طرح لٹکنے کی گنجائش پیدا کر پانے کو اللہ کا احسان مانا جانے لگا! اور اب حالت یہ ہے کہ فیکٹری یا دفتر جانے کے لیے کِسی کو ویگن یا کوچ کی چھت پر جگہ مل جائے تو اپنے مُقدر پر رشک کرنے لگتا ہے! اللہ ہی جانتا ہے کہ ہمیں اپنے مُقدر پر ابھی اور کتنا اور کِس کِس طرح رشک کرنا ہے!

کِسی بھی معاملے میں کچھ بھی درست نہ ہونے کے باعث اب ملک مسائل اور بحرانوں کی آماجگاہ ہوکر رہ گیا ہے۔ بُحران دُنیا بھر میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور جب کہیں ٹھکانہ نہیں ملتا تو پاکستان کی طرف آ دھمکتے ہیں! لاکھ دُہائی دیجیے کہ اب مزید سہنے کی گنجائش نہیں رہی مگر بحران کب کِسی کی سنتے ہیں؟ ان کا کام تو واقع اور برپا ہونا ہے! کوئی بھی سرکاری ادارہ، محکمہ یا وزارت کراچی میں ماس ٹرانزٹ سسٹم لانے کے بارے میں سوچنے کے موڈ میں دِکھائی نہیں دیتی۔ مختلف سطحوں کی پرائیویٹ گاڑیاں کِسی نہ کِسی طور رواں رہ کر شہر کو رواں دواں رکھتی ہیں۔ روزانہ ایک کروڑ سے زائد افراد کا گھر سے نکلنا اور پھر واپس آنا دیگر ممالک کے بڑے شہروں میں بسنے والوں کے لیے کوئی کمال ہو نہ ہو، کراچی جیسے شہر میں واقعی کمال ہے جہاں کِسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے، کوئی بھی سڑک بند ہوسکتی ہے، قتل کی کوئی بھی واردات زندگی کا پہیہ جام کرسکتی ہے اور کہیں بھی گاڑیوں کو آگ لگاکر لوگوں کو صرف صورتِ حال کے رحم و کرم پر چھوڑا جاسکتا ہے!

کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ زندگی کے گوناگوں مسائل کے ہاتھوں عاجز شہریوں کو ایسا جامع ماس ٹرانزٹ سسٹم دیا جائے جو اُنہیں کام پر جانے اور واپس آنے کی معیاری سہولت فراہم کرے؟ کیا یہ کوئی پسندیدہ بات ہے کہ لوگ کام پر جاتے جاتے تھک جائیں اور واپسی کے عمل میں گھر تک پہنچتے پہنچتے تقریباً اَدھ مُوئے ہو جائیں! عوام کا گاڑی کی چھت پر سوار ہوکر سفر کرنا کیا کوئی ایسی بات ہے جس پر فخر کیا جائے اور زندگی کا حصہ بن جانے والی اِس ”روایت“ کو تسلسل سے ہم کنار رہنے دیا جائے؟ ہر شہری کو اور کچھ ملے نہ ملے، اِتنی سہولت ضرور ملنی چاہیے کہ کام پر جانا ہو تو با وقار طریقے سے جائے اور گھر واپس آئے تو اِس حالت میں کہ بے جا تھکن جسم و جاں پر سوار نہ ہو، غیر ضروری فرسودگی کا احساس نہ ہو! کراچی جیسے شہر کو پبلک ٹرانسپورٹ کے معاملے میں یوں بے یار و مددگار چھوڑ دینا کِسی بھی اعتبار سے حکومت کے لیے کوئی قابل فخر بات نہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ”بے نظامی“ کا عذاب سہنے والے شہریوں کو اور کِسی معاملے میں نہ سہی، کم از کم ماس ٹرانزٹ کے حوالے سے کوئی نظام میسر ہو اور وہ یومیہ سفر سہولت اور وقار کے ساتھ کرنے کے قابل ہوسکیں! اگر اِتنا بھی ہو جائے تو بہت ہے کہ نا امیدی کے ستائے ہوئے شہریوں کے لیے ذرا سی معقولیت اور مستعدی بھی نعمت سے کم نہیں ہوا کرتی! اللہ کرے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیوں کی چھتوں پر چڑھ کر سفر کرنے والوں دیکھ کر ہمارے ارباب اختیار کچھ سوچیں اور نا اہلی و بدعنوانی کی چوٹی سے اُتر کر کچھ ایسا کریں کہ زندگی کی ٹریفک حقیقی مفہوم میں رواں ہو جائے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 486405 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More