کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنے کی ضرورت

پاکستان میں ایک بڑا مسئلہ کرپشن ہے کرپشن بہت زیادہ خطرناک بھی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سے بڑے ممالک ناصرف مشکلات کا شکار ہوئے بلکہ اس ہستی سے مٹ گئے اور کرپشن کی وجہ سے ملکی معیشت ،عوام ،کاروبار، بیرونی سرمایہ کاری اور ملکی اداروں کا بیڑہ بھی غرق ہو جاتا ہے مہنگائی بے روزگاری امن وامان اور پتہ نہیں کیا کیا (بیماریاں)مسائل پیدا ہو جاتے ہیں اسلام میں کرپشن کے بارے میں سخت تنبیہ کی گئی ہے اسلام میں جہاں رشوت دینے اور لینے والے کو جہنمی قرار دیا گیا ہے وہیں پر امراء اور حکمرانوں کو تحفے اور تحائف لینے سے روکا گیا ہے کیونکہ یہ شبہ پید ا ہوتا ہے کہ حکمران تحفہ یا نذرانہ لینے کے بعد اس شحص یا ادارے کے بارے میں نرم رویہ اختیار کر لیتے ہیں پاکستان کے موجودہ حالات کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے یہاں نذرانے یا تحفے کا کلچر متعارف کروایا اور اب یہ کلچر اتنا عام ہو گیا ہے کہ ایک معمولی سے ملازم سے لیکر اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز افراد بھی ان کو اپنا حق سمجھتے ہیں حج سکینڈل پھر ڈرگز،بجلی کے منصوبے این آئی سی ایل سکینڈل جس میں بڑے بڑے نام جن میں سابق وزیراعظم صاحب کا بیٹا پنجاب کی حکومت کے چند نامور نام بھی سر فہرست تھے وہ بھی سامنے آئے تو عام پاکستانی میں یہ تاثر عام ہوا کہ جہاں بڑے بڑے عہدے رکھنے والے اس کام میں اتنے آگے ہیں تو ایک عام آدمی کا کیا حال ہو گا اسی طرح کے اور بھی بہت سے سکینڈل ہیں جن میں اعلیٰ حکومتی شحصیات ان کے رشتہ داروں کے ساتھ بیوروکریٹ بھی نظر آرہے ہیں سرکاری اداروں کا یہ حال ہے کہ عام آدمی کا وہاں جانا تو محال ہے کیونکہ کہ وہاں کام بعد میں اور نذرانہ پہلے طلب کیا جاتا ہے اور اس طرح کے کمنٹس حال ہی میں اعلی عدلیہ کے جج صاحبان کی طرف سے بھی ا ٓئے ہیں کہ جن اداروں میں ایک پرچی پر بھرتیاں ہو جاتی ہوں وہاں کی سروسسز کا معیار کیا ہو گا اور ایسے اداروں میں بیٹھے ہوئے کرپشن خوردہ لوگوں کے پاس کرپشن کے کتنے طریقے ہوتے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کو کچھ نہ کچھ دیکر جان چھڑانا پڑتی ہے ۔اس سلسلے میں جب ان سے پیسوں میں کمی کا کہا جائے تو ان کا جواب بھی عجیب ہی ہوتا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ سارا مال وہ خود نہیں لے کر جاتے بلکہ اس میں سے وہ اوپر تک بھی حصہ جاتا ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان کو اس حال میں پہنچانے والے ہم خود ہیں کیونکہ اگر ہم ان کوپیسے نہ دیں تو ان کی کیا مجال کہ وہ ہمارا کام نہ کریں لیکن بدقسمتی سے اس ملک میں ایسا نظام بنا دیا گیا ہے کہ مال پانی نہ دینے کی وجہ سے یہ لوگ آپ کا جائز کام بھی نہیں ہونے دیتے اور آخر کار ان کی بات مان کر کچھ نہ کچھ ان کی نظر کرنا پڑتا ہے موجودہ دور میں چھوٹے پیمانے یا نچلی سطح پر کرپشن کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے لازمی نہیں کے مال لینے کو ہی کرپشن کہتے ہیں بلکہ کسی کی نا جائز سفارش بھی اسی کی ایک جدید شکل ہے کئی محکموں میں سفارشی لوگ کم تعلیم کے ساتھ بڑے عہدوں پر فائز ہیں لیکن مجال کے کوئی محکمہ ان کے خلاف کاروائی کر سکے چند دن پہلے ٹرانسپنسی انٹرنیشنل نے کرپشن کے حوالے سے جو تصویر پیش کی وہ بڑی دل دہلا دینے والی ہے جب کسی ملک کا یہ حال ہو کہ محض ایک سال میں اس کی کرپشن میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہو اور اس میں کرپشن کی روک تھام کے حوالے سے کوئی ٹھوس اقدامات بھی نہ کیے جا رہے ہوں تو کون ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کرئے گا کون ہمارے اوپر اعتبار کرئے گا بلکہ اس سے تو وہ لوگ جو یہاں انوسمنٹ کر چکے ہیں ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی اور وہ بھی کسی محفوظ ملک میں سرمایہ کاری کرنے کو ترجیح دیں گئے اس مسئلے کا واحد حل ہے کہ ہمیں اس حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے سخت سے سخت قوانین بنانے کی ضروت ہے تاکہ اس ناسور کو ملک سے ختم کیا جا سکے جیسا کہ چائنہ جیسے ملک میں رائج ہے جہاں کرپشن کی سزا موت ہے ہمارے ہاں کچھ ادارے ایسے ہیں کہ جو کرپشن فری ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی اہلکار اس معاملے میں ملوث پایا جائے تو اس کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں اسی طرح اگر پولیس، محکمہ واپڈا ،ریلوئے اور دوسرے اداروں میں بھی یہی نظام رائج ہو تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ ادارے دنوں میں خالی ہو جائیں کیونکہ ان میں کرپشن کا گراف باقی محکموں سے بہت اوپر ہے لیکن ان محکموں میں اگر کوئی گرفت میں آبھی جائے تو جتنا پیسہ کرپشن سے کمایا ہوتا ہے اس میں سے ایک تہائی خرچ کر کے دوبارہ سے وہی سیٹ حاصل کر لی جاتی ہے دوسری خوفناک بات یہ ہے کہ جس بھی منصوبے کو عوامی فلاحی منصوبے کا نام دیا جاتا ہے جب بھی اس کی گہرائی میں جایا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس کی اصل لاگت کیا تھی اور اس کے مکمل ہونے کی لاگت کتنی ہے حکمران طبقہ اس مال بناؤ پالیسی میں سب سے آگے نظر آتا ہے پاکستا ن کے بہت سے وفاقی وزرا ء پر کرپشن کے الزامات لگائے گئے جو بعد ازاں سچ بھی ثابت ہوئے پاکستان ریلوے ،پی آئی اے، سٹیل مل اور مختلف سرکاری کارپوریشنز حکومتی آکسیجن (بیل آوٹ) پر زندہ ہیں ہاں ان کے بنائے جانے والے سربراہ اس قابل ہو گئے ہیں کہ ان جیسا اپنا ایک آزاد محکمہ بنا سکتے ہیں یہ سب ان محکموں کے پیٹ سے نکلا ہوا مال ہے اس سلسلے میں بہت سے لوگوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے بہت سے سکینڈل سامنے آئے ہیں جو کہ پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں-
 
مزے کی بات ہے اس دور حکومت میں جو بھی اعلیٰ حکومتی شحصیت کسی کرپشن کے الزام میں گرفتار ہوتی ہے وہ اپنے آپ کو بھٹو مرحوم کا سپاہی کہتی ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ بھٹو مرحوم نے ہمیشہ اصولوں کی سیاست کی وہ جیل بھی گئے تو ان اصولوں کی خاطر جس میں عوام کی بھلائی تھی لیکن ان پر کھبی بھی کرپشن کے الزامات نہ لگے ان کا دامن صاف تھا ۔
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 227390 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More