جمہوریت کا کیا رونا ،دھونا..
ول ڈیوانٹ کا قول ہے کہ” جمہوریت سب سے مشکل نظام ِ حکومت ہے کیونکہ اِس
میں ذہانت وسیع پیمانہ پر درکارہوتی ہے لیکن حکمرانی اور ذہانت کا بیرہے
اگرچہ آج دنیامیں تعلیم ضرور پھیل رہی ہے لیکن چونکہ احمق لوگوں کی افزائش
نسل اور بارآوری کی صلاحیت ذہن اور عقل مند افراد کی نسبت بہت زیادہ ہے اِس
لئے اجتماعی ذہانت اور عقل مندی میں مسلسل کمی ہورہی ہے کیونکہ دنیا میں
عقل مندوں کی نسبت احمقوں کی تعدادمیں بھی تیزی سے اضافہ ہورہاہے اِس لئے
کسی نے کیا خوب کہاہے کہ” ہم جاہلوں کو محض اِس بناپر اقتداردے دیں کہ اِن
کی تعداد بہت زیادہ ہے..؟“مگرہم نے تو آج یہ ہی دیکھااور محسوس کیا ہے کہ
گزشتہ کئی سالوں سے ہمارے یہاں اقتدار اِن ہی لوگوں کے ہاتھوں میں ہے
جوتعداد میں زیادہ ہیں تب ہی ملک اور قوم کا یہ حال ہوگیاہے کہ آج ہم
اپناآپ بھی کھوچکے ہیںہماری پہچان کیا تھی اور اَب کیا ہوگئی ہے..؟ یہ ہم
خود بھی نہیں جانتے...کیوں کہ آج ہمارے حکمرانوں ،سیاستدانوں ،بیوروکریٹس
اور بعض اشخاص سمیت اداروں نے بھی جمہوریت جیسے مشکل نظام حکومت کو بھی موم
سے بھی نرم سمجھ کر آسان تر بنادیاہے جس سے جمہوریت، جمہوریت نہیں رہی
ہے۔آج کہیں ہمارے یہاں جمہوریت کی آڑ میں انتقامی رورائیاں ہورہی ہیں تو
کہیں کسی کو ذاتیات کی بنیاد پر نشانہ بنایاجارہاہے...اور یہ سب کچھ کرنے
کے بعد آواز بلندکی جارہی ہے کہ یہ جمہوریت کا حُسن ہے یہ کیساحُسن ہے ...؟جو
ہمارے سمجھ سے توبالاترہے۔
بہرحال..!آج مسائل اور پریشانیوں کی چکی میں پسی پاکستانی قوم کو جمہوریت
یا آمریت سے کیا لینادینا...؟اِسے تو بس دووقت کی روٹی اور سُکھ کے لئے
اپنے بنیادی حقوق چاہئے جو ہمارے موجودہ جمہوری حکمران اِسے نہیں دے سکے
ہیں ہم نے اپنے یہاں بس یہی دیکھاہے کہ جمہوریت اور آمریت کا رونا توبس
سیاستدانوں ،حکمرانوں ،بیورکریٹس اور اُن عناصر کا ہوتاہے جو عوام کے
سینےوں میں چھپے ارمانوں کواپنے پیروں سے کُچل کر اوراِن کے سروں پر چڑھ کر
اپناقد اُونچاکرتے ہیں اور عوام کی مجبوریوں کا فائدہ اُٹھاکر اپنا نام اور
اپنی سیاست چمکاناچاہتے ہیں ۔
معاف کیجئے گا..!آج بھی وطنِ عزیز میں رائج اِس انوکھے اور موجودہ جمہوری
دور میں ہمارے یہاں مفادپرستوں کے کئی ایسے گروہ سرگرمِ عمل ہیں جو
جمہوراور جمہوری ہونے کا بھرپور فائدہ اُٹھارہے ہیں اور اپنی بات زبردستی
منوانے کے لئے ایسے حربے استعمال کررہے ہیں کہ جس کا کوئی بھی مہذب معاشرہ
کبھی بھی اجازت نہیں دیتاہے...
مگرہم کیا کریں کے ہمارے یہاں ایساہرگزنہیں ہوتاہے جیسادیناکے مہذب معاشروں
اور ترقی یافتہ ممالک میں نظرآتاہے ...یہاں مجھے بڑے افسوس کے ساتھ یہ
کہناپڑرہاہے کہ ہمارے یہاں ا گر کچھ ہوتاہے تو وہ یہ ہے کہ اپنے مفادات کو
مقدس جان کر وہ سب کچھ کرگزرو جس سے اپنی ٹانگ اور گردن اُونچی ہوجائے اِس
مقصد کے حصول تک چاہے کسی(بالخصوص غریب اور ملک ) کا جتنابیڑاق ہوتاہے تو
بھلے سے ہوتارہے مگراپنے مقاصد ہر حال میں حاصل ہوجائیں...
اگرچہ دورِ آمریت میں یہ مفادپرست عناصر جن میں ہمارے حکمران ،سیاستدان ،
بیوروکرٹیس اور دیگرمدرپدرآزاد ہوکر اپنا تن من اور دھن کڑاہی میں ڈال کر
اپنی من مانی جاری نہیںرکھ سکتے ہیں اِس دور میں تو جیسے اِن کے رامانوں پر
اُوس پرجاتی ہے اور اِن کے سارے ارمان کسی صیاد کے ہاتھوں قید پنچھی جیسے
ہوکر مرجاتے ہیں اور یہ دورِآمریت میں ڈنڈوں اور جیلوں کے خوف سے کونوں
کُدھروں میں چھپے بیٹھے رہتے ہیں یوں اِس دوران اِن کا باہر نکل کر اور
عوام کو جمع کرکے اِنہیں بیوقوف بنانے اور اپنی سیاست چمکانے کا حب الوطنی
کا جذبہ اندر ہی اندر تلملاکررہ جاتاہے ۔
مگریہ امتیاز جمہوریت کو ہی حاصل ہے کہ اِس میں ہر فرد کو اپنے جائز و
ناجائز مطالبات منوانے کے لئے ہڑتالوں ، احتجاجوں ، ریلیوں ، جلسوں اور
جلوسوں کا موقع میسر آجاتاہے یہ جمہوریت ہی تو ہے کہ جس میں مسیحاؤں یعنی
بلوچستان کے ڈاکٹروں نے دوماہ بعد ہڑتال ختم کرنے کا اعلان کرکے اپنے
موجودہ اورزندہ بچ جانے اور آئندہ بیمارہونے والے مریضوں پر احسان العظیم
کردیاہے۔
خبرکچھ یوں ہے کہ کوئٹہ سمیت بلوچستان بھرکے سرکاری ونجی اسپتالوں میں
تعینات ڈاکٹرز نے اپنے ساتھیوں کے اغوا اورسیکورٹی سمیت مختلف مطالبات کے
حق میں 16اکتوبر سے جو ہڑتال کی تھی یہ ہڑتال گزشتہ دنوں پی ایم اے
بلوچستان اور سیکرٹری صحت اور دیگر حکام کے درمیان ہونے والے کامیاب
مذاکرات کے بعد ختم کردی گئی ہے اور اَب اِن اسپتالوں میں تعینات بڑے چھوٹے
ڈاکٹروں کی ہڑتال ختم ہوتے ہی صوبے کے تمام اسپتالوں میں 59روز بعد کام
شروع ہوگیاہے جس پر مریضوں نے سُکون کا سانس لیا ہے کیوں کہ صوبہ بھر کے
سرکاری اسپتالوں میں اُوپی ڈیز اور آپریشن ٹھیٹرز کھل گئے۔
معاف کیجئے گا اِس سارے منظر اور پس منظر میں ،میں یہاں یہ کہناچاہوں گاکہ
آج جس طرح بلوچستان کے ڈاکٹرز نے دوماہ بعد اپنی ہڑتال ختم کرنے کا اعلان
کیا ہے کیا یہی کام دوماہ قبل نہیں کیاجاسکتاتھا ...؟اور آج جس مقام پر
پہنچ کر پی ایم اے بلوچستان اور سیکرٹری صحت اور دیگرحکام نے اپنی مصروفیات
میں سے ذراسا وقت نکال کر ڈاکٹرز کے مسائل بھی ضرورسُنے ہوں گے اور اِنہیں
فوری طورپر حل کرنے اور کرانے کی بھی یقین دہانی ضرورکروائی ہوگی کیا یہی
سب کچھ بہت پہلے نہیں کیاجاسکتاتھا...؟ یہ سب کچھ اُس وقت کیوں
نہیںکیاگیاجب اُس ہڑتالی عرصے کے دوران مریضوں اور اِن کے لواحقین کو ذہنی
اور جسمانی اذیتیوںکا سامناتھا...؟ اور اِس موقع پر میں یہ بھی عرض
کرناچاہوں گا کہ اگر یہی کچھ پہلے ہوجاتاتو یقینا کوئٹہ سمیت بلوچستان کے
سیکڑوں مریض مرنے سے تو بچ جاتے ...!مگر نہیں یہ سب کچھ اگر پہلے
ہوجاتاتودنیاکو کیسے پتہ چلتاکہ ہمارے یہاں مکمل جمہور اور جمہوریت رائج ہے
جہاں ڈاکٹرز سمیت وکلاءجو خود کو انسانوں کے بڑے مسیحاگرداندتے ہیں اِنہیں
اپنے مطالبات منوانے کے لئے غیر معینہ مدت تک ہڑتال اور احتجاج کرنے کا
پوراپوراحق حاصل ہے اوراِس طرح حکمرانوں کوبھی یہ باورکرانے کا موقع مل
گیاکہ یہ کسی مسئلے سے بے خبرنہیں ہیں بلکہ کے باخبر ہیں یہ اور بات ہے کہ
ڈاکٹرز کے مسائل سُننے اوراِن کی ہڑتال ختم کرانے کے لئے اِن کی توجہ ذراسی
دیر(بس یہی کوئی دوماہ )بعد ہوئی مگرچلوہوئی تو ہے اور دنیانے یہ بھی دیکھ
لیاکہ جب سرکاری مشینری حرکت میں آئی تو ڈاکٹر ز کی ہڑتال بھی ختم ہوگئی
اور سرکاری و نجی اسپتالوں میں کام بھی شروع ہوگیااورجو بیمار ہیں اِن کے
چہروں پر بھی شادابی آمڈ آئی ہے اوراِس موقع پر میں یہ بھی کہناچاہوں گاکہ
جو مریض دورانِ ہڑتال انتقال کرگئے ہیں کیا ہڑتالی ڈاکٹرز اورحکومتی اراکین
نے اِن سے بھی متعلق کچھ سوچاہے یاندامت کے دوآنسوبہاکر اِن کے اہلخانہ سے
افسوس کے دوبول ،بول کر فاتحہ بھی کی ہے ...؟یاہڑتالی ڈاکٹرز کے ساتھ
مذاکراتی عمل میں شامل جمہوری حکومت کے اراکین اپنی کامیابی پر اپنے اپنے
کالرزاُونچاکرکے چلے گئے ہیںآج اگر ملک میں کسی آمر کی حکمرانی ہوتی تو کم
ازکم ملک میں ڈاکٹرز جو انسانوں کے مسیحاکے روپ میں ہوتے ہیںیہ تو ہڑتال نہ
کرتے اور کسی آمر کے ڈنڈے کے خوف سے خاموشی سے اپنے فرائض بھی نبھاتے اور
انسانوں کو مرنے سے بھی بچاتے....
ہاں تو میں یہ کہناچاہ رہاہوں کہ آج اگر ہم سب اپنی اِس موجودہ اور انوکھے
صدر اور اِن کی منفرد اور سب سے جداجمہوری حکومت کا جائزہ لیں تو اِس
جمہوری حکومت کے سارے عرصے میں ایسی جمہوریت جابجانظرآئے گی جس میں عوام کو
کسی بھی معاملے میں ایک رتی کا بھی ریلیف ملتا نظر نہیں آئے گاجس کی مثال
ملک کی تاریخ میں نہ تو ماضی میں کسی جمہوری حکومت میں نظر آئے گی اور نہ
آئندہ ہمارے یہاں آنے والی کسی جمہوری حکومت میں دیکھی جاسکے گی گزشتہ پونے
پانچ سالوں میں ہمارے یہاں مادہ پدر آزاد جس جمہوری نظام کا پرچار کیاگیاہے
اِس سے تو بہترتھاکہ ملک میں کوئی دورِ آمریت ہوتاجس میں کم ازکم ڈاکٹرز تو
ہڑتال نہ کرتے اور عوام کو سُکھ تو نصیب ہوتااور آج جمہوریت کوچاٹنے اور
اِس کی پوجاکرنے والے حکمرانوں ، سیاستدانوں ، بیوروکریٹس اور دیگراداروں
کے ہاتھوں ساری پاکستان قوم کھلوناتو نہ بن رہی ہوتی اور اپنے بنیادی حقوق
اور اشیائے ضروریہ سمیت گیس پانی اور توانانی سے تو محروم نہ ہوتی کہ جیسی
آج ہے۔ |