بچپن سے سنتےآرہے تھے کہ زندہ ہاتھی ایک
لاکھ کا ہوتا ہے اور مرا ہوا ہاتھی سوا لاکھ لیکن اس مقولے کی سمجھ نہیں
آتی کہ کس طرح مرا ہوا ہاتھی سوا لاکھ کا ہوجاتا ہے لیکن اپنے فلاحی اسلامی
ملک میں کنٹونمنٹ بورڈکو چلانے والے بیلٹ والی سرکار کے ریٹائرڈ اہلکاروں
کو دیکھ کر اس مقولے کی سمجھ آگئی - جس سیانے نے بھی یہ مقولہ کہا تھا شائد
اسے پہلے سے اندازہ تھا کہ اسلامی فلاحی عوامی اور جمہوری ملک میں کنٹونمنٹ
بورڈ بنیں گے اور ان کنٹونمنٹ بورڈ میں ریٹائرڈ بیلٹ والی سرکار کے اہلکار
ڈیوٹی دینگے اور اندھے ہونے کے باوجود بھی ان کی اپنی بدمعاشی ہوگی -
اس وقت بلوچستان میں خضدار لورا لائی ارمارہ کوئٹہ اور ژوب میں کنٹونمنٹ
بورڈ ہیں خیبر پختون خوار میں ایبٹ آباد بنوں ڈیرہ اسماعیل خان کوہاٹ مردان
نوشہرہ پشاور رسالپور نوشہرہ حویلیاں کالا باغ اور مری گلیات کنٹرونمنٹ
بورڈز ہیں پنجاب میں سب سے زیادہ کنٹونمنٹ بورڈ ہیں جن میں اٹک سنجوال
بہاولپور چکلالہ گجرانوالہ جہلم کامرہ کھاریاں منگلہ ملتان مری اکاوڑہ
راولپنڈی سرگودھا شورکوٹ سیالکوٹ ٹیکسلا لاہور واہ او ر والٹن کنٹونمنٹ
بورڈز ہیں صوبہ سندھ میں کلفٹن کنٹونمنٹ فیصل کنٹونمنٹ حیدر آباد کنٹونمنٹ
کراچی کورنگی ملیر منوڑہ اور پنوں عاقل شاہ کنٹونمنٹ بورڈ کے علاقے ہیں ملک
میں اس وقت 43 کے قریب کنٹونمنٹ بورڈز ہیں جن میں رہائش پذیر لوگوں کیلئے
الگ سہولیات ہیں اور ان کو چلانے والے بھی الگ قسم کے لوگ ہیں-
کچھ دن قبل ڈبگری میں واقع گورنمنٹ گرلز جامعہ سکول کی طالبات نے احتجاج
کیا ان کا احتجاج کنٹونمنٹ بورڈ کے خلاف تھا کیونکہ کنٹونمنٹ بورڈ اپنے زیر
انتظام مارکیٹ کو دو منزلہ بنا نے کیلئے تعمیرات کروا رہی ہیں جس کے باعث
نہ صرف وہاں پر طالبات بلکہ سکول کی استانیوں کی بے حرمتی بھی ہورہی ہیں
اور کنسٹرکشن مکمل ہونے کے بعد سکول کی عمارت میں گھپ اندھیرا ہو جائیگاا
جس کے باعث طالبات کو پڑھنے میں بھی مشکلات کاسامنا کرنا پڑے گا اسی کے
ساتھ ساتھ مارکیٹ میں تجارتی سرگرمیاں زیادہ ہونے کے باعث یہاں پر لوگوں کی
آمد زیادہ ہوگی اور طالبات کو چھیڑنے اور ہراساں کئے جانے کے خدشات بھی
ظاہر کئے جارہے ہیں اس صورتحال پر متعلقہ سکول کی طالبات نے احتجاج کیا
احتجاج کرنے والی سکول کی انتظامیہ کا موقف بھی ہے کہ اس بارے میں کنٹونمنٹ
بورڈ کو آگاہ کیا گیا لیکن شائد وہاں پر اندھے بیٹھے ہیں اس لئے انہیں کچھ
نظر نہیں آیا -چونکہ یہ اس سکول میں بلڈی سویلین کی بچیاں پڑھ رہی ہیں اس
لئے ان کیلئے قانون الگ ہیں اور ان کے سر پر بدمعاشی کرنے والے افسران اور
وزراء بھی خاموش ہیں کہ ان کی اوقات اتنی نہیں کہ وہ کنٹونمنٹ بورڈ والوں
سے یہ پوچھ لیں کہ یہ کونسا ڈرامہ ہورہا ہے-حالانکہ طالبات کے نام پر تعلیم
کے ڈرامے تو یہاں بہت سارے لوگ کررہے ہیں لیکن جب حقیقت میں صورتحال بنتی
ہے تو پھر ان لوگوں کی گھگھی بندھ جاتی ہیں-
ایک روز قبل کنٹونمنٹ بورڈ کے اہلکاروں نے امریکی قونصل خانے کے باہر بننے
والی بلٹ پروف دیوار بھی گرادی بقول ان کے یہ غیر قانونی طور پر بن رہی تھی
حالانکہ اس دیوار کو بنے ہوئے بھی کئی ماہ گزر چکے ہیں اب سوال یہاں یہ
پیدا ہوتا ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈ کے متعلقہ اہلکار کیا سو رہے تھے یا پھر
انہیں"ڈالروں"کی بارش نے اندھا کردیا تھا جو انہیں اتنی بڑی دیوار نظر نہیں
آرہی تھی جو سڑک کنارے بنائے جارہی تھی اگر گرانا ہی تھا تو پہلے ہی
گرادیتے لیکن اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈ والوں کی بدمعاشی اس
شہر میں غریب لوگوں پر ہی چلتی ہیں اور اندھوں کی طرح کام کرنے والے یہ لوگ
شائد ڈالروں کی وجہ سے اندھے بھی ہو جاتے ہیں- کبھی آپ نے شہر کے اہم جگہوں
پر بدمعاشی کرنے والے کنٹونمنٹ بورڈ کے اہلکاروں کو دیکھا ہے ان میں ایسے
بھی ہیں جن کی موٹاپے کی مثال دی جاتی ہیں اور اسی موٹاپے کی وجہ سے ان
اہلکاروں کی آنکھیں ہر وقت بند رہتی ہیں شائد یہ ادارے کا اثر ہے جنہیں
بازار میں سڑک کنارے پندرہ سو یا پانچ ہزار روپے کی چھابڑی اور ٹھیلہ تو
نظر آتا ہے اور بدمعاشوں کی طرح غریبوں سے ان کی کمائی کی وسیلہ چھین لیا
جاتا ہے اور اگر مزاحمت کرے تو ان غرباء کیساتھ ان کا رویہ ایسا ہوتا ہے
جیسے زمین کا نظام اللہ سے ان لوگوں سے لیا ہو اور زمین پر خدائی کے
دعویدار یہ لوگ ہوں یقین نہیں آتا تو شعبہ بازار سے لیکر صدر روڈ کے مختلف
علاقوں میں کی جانیوالی ان کی آپریشن کو دیکھ لیں اندازہ ہو جائیگا کہ
کنٹونمنٹ بورڈ والے کتنے غریب دشمن لوگ ہیں -بات ہورہی تھی مرے ہوئے ہاتھی
کی میرا مطلب ہے کنٹونمنٹ بورڈ میں تعینات ریٹائرڈ بیلٹ والی سرکار کی
بدمعاشی کی ماشاء اللہ اتنے وسیع اختیارات کے مالک ہوتے ہیں کہ ان کے آگے
کسی کی نہیں چلتی حتی کہ ہمارے نام نہاد لی ڈر بھی ان کے سامنے دم نہ ہونے
کی وجہ سے سر ہلا دیتے ہیں اسی باعث بڑے لی ڈر بھی خاموشی سے سر جھکا کے
چلتے ہیں کنٹونمنٹ کے زیر انتظام علاقوں میں صفائی کرنے والے سینکڑوں
اہلکارو ں سے بیگار کیمپ کی طرح کام لیا جارہا ہے ڈیوٹی صبح سات بجے سے شام
پانچ بجے تک کمی کمینوں سے لی جارہی ہیںاور تنخواہ بھی اسلامی فلاحی عوامی
جمہوری ملک کے حکمرانوں کے اعلان کردہ تنخواہ سے کم دی جارہی ہیںلیکن کوئی
ان سے پوچھنے والا نہیں کیونکہ یہاں مرا ہوا ہاتھی میرا مطلب ہے کنٹونمنٹ
بورڈ سے پوچھنے کی ہمت کس میں ہے کہ ان میں بیلٹ والی سرکار کے ریٹائرڈ ہیں
جو مخصوص لوگوں کیلئے"یس سر" اور ہم جیسے " بلڈی سویلین"کو "سوری نو وے
"کہتے ہیں -کنٹونمنٹ بورڈمیں " بلڈی سویلین " کیلئے جگہ تو ویسے بھی نہیں
ان کی گاڑیوں کو گزرنے کیلئے کیلئے باقاعدہ سٹکرز جاری ہوتے ہیں اگر سٹکرز
نہیں تو پھر کمی کمین کی گاڑی کنٹونمنٹ بورڈ میں داخل بھی نہیں ہوسکتی بھلے
سے کچھ بھی ہو جائے -کنٹونمنٹ بورڈ میں دی جانیوالی سہولیات سے شہر کے عام
علاقوں میں رہائش پذیر کمی کمینوں کو اپنے اوقات کا پتہ چلتا ہے - |