ہمارے صدرِ گرامی بیمار ہیں۔ان
کی بیماری کہ پہلی خبر سرے محل کی ملکیت کے مقدمے میں سامنے آئی تھی جب
انہوں عدالت کے روبرو ایک بیان دیا تھا کہ ایک ایسی ذہنی بیماری میں مبتلا
ہوں جس میں انسان خالی الذہن ہو جاتا ہے۔بات ٹیکنیکل تھی لیکن حاسدین نے
اڑا دی کہ صدر صاحب نے کہا ہے کہ وہ پاگل ہیں۔ حالانکہ زرداریوں میں رواج
ہے کہ وہ پاگل بھی ہو جائیں تو بھی لوگوں کی پگڑیاں اتار اتار کے گھر لاتے
ہیں۔جیسے کہ زرداری پہلے نواز شریف کی پگڑی ان کے سترہ وزراءکی صورت اپنے
گھر لائے۔پھر ایم کیو ایم کی ٹوپی پہ انہوں نے ہاتھ ڈالا اور مولٰنا فضل
الرحمن کی دستار اور اسفند یار کا کلاہ تو ان کے سروں پہ کبھی رہا ہی نہیں
وہ تو ہمیشہ ہی سے ایوان صدر کی الماریوں میں بند رہا ہے۔گجرات کے چوہدریوں
کی پگ تو وہ ان کے گلے میں ڈال کے انہیں گھسیٹتے ہوئے چوہدریوں سمیت ایوان
صدر لے آئے ہیں۔ذکر تھا صدر صاحب کی بیماری کا۔دوسری بار وہ میمو سکینڈل کے
ہنگام بیمار ہوئے۔کل ان کے دانت میں درد تھالیکن یہ بیماری نہیں تھی بلکہ
دانت کثرتِ استعمال کی وجہ یہ مسئلہ پیدا ہوا تھا۔صدر صاحب کی کمر کا مسئلہ
بھی اکثر اخبار کی زینت بنتا رہتا ہے۔
صدر اپنی باقی بیماریوں کا علاج تو اوپر درج کئے گئے حکماءاور ڈاکٹر ز کی
مدد سے کرتے رہتے ہیں لیکن کمر درد کے لئے جناب صدر نے ایوانِ صدر میں ایک
اونٹنی اور کچھ ترکی النسل بکریاں پال رکھی ہیں۔جنابِ صدر چونکہ فرزندِ
صحرا ہیں اس لئے اونٹنیوں سے تو انہیں اس نسبت سے پیار ہے لیکن بکریاں بلکہ
ترکی بکریاں صدر صاحب کی کمر درد کے علاج کے لئے ممدو معان ہیں۔صدر صاحب
اگر ایوان ِ صدر میں ہوں تو دن میں ایک بار ان بکریوں اور اونٹنی کا شکریہ
ادا کرنے خود ان کے پاس حاضری دیتے ہیں۔صدر کی اتنی توجہ کے باعث ان بکریوں
اور اونٹنی کو بعض وزراءسے زیادہ پروٹوکول ملتا ہے۔ان بکریوں کو نیسلے کا
منرل واٹر پلایا جاتا ہے۔یہ پیاس بجھانے کے لئے ہے اور بھوک مٹانے کے لئے
ان جانوروں کو دودھ ملے پتے، اخروٹ بادام اور پستہ کھلایا جاتا ہے۔مجھے
معاف کیجئیے کہ میں ان محسن قوم معزز ہستیوں کو جانور کہہ کر شاید ان معزز
جانوروں کی توہین کر رہا ہوں ۔مذکورہ جانور یہ خوراک کھا کے ہمارے صدر
محترم کے لئے دودھ مہیا کرتے ہیں۔ جس سے صدر محترم کی کمر اپنی جگہ پہ قائم
رہتی ہے ۔ملک کے صدر کی کمر کو تقویت فراہم کرنے کی وجہ سے ان بکریوں کو
محافظِ جمہوریت یا طبیب جمہوریت کا میڈل ملنا چاہئیے لیکن محافظِ جمہوریت
کا ٹائٹل تو پہلے ہی کوئی لے اڑا لیکن مجھے یقین ہے کہ ان معزز جانوروں کو
نہیںدیا جائے گا کیونکہ اس ملک میں ابھی تک احسان شناسی کی روش جڑ نہیں پکڑ
سکی۔ مجھے یقین ہے کہ جلد یا بدیر ان معزز جانوروں کو ان کا حق مل کے رہے
گا۔
ستم یہ کہ پاکستانی قوم میں کرپشن کی انتہاءہو گئی ہے۔اس کی تازہ مثال وہ
واقعہ ہے جو اخبارات میں رپورٹ ہوا ہے کہ صدر صاحب غیر ملکی دورے پہ گئے تو
ان کی غیر حاضری میں ان ترکی بکریوں کے ساتھ پاکستانی عوام جیسا سلوک شروع
ہو گیا۔نہیں آپ غلط سمجھے۔ان کے ہاں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوئی نہ ہی انہیں سی
این جی کی لائنوں میں دھکیلا گیا اور نہ ہی ان کا آٹا مہنگا ہوا بلکہ اس سے
بھی بڑھ کے ان بے زبانوں پہ ظلم روا رکھا گیا۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ
ان بکریوں کو بجائے نیسلے کے منرل واٹر کی بجائے عام سادہ ٹونٹی کا پانی
پلایا گیا۔بادام پستے اور اخروٹ کی موجیں ایوان صدر کے ملازمین خود اڑاتے
رہے اور ان طبیبانِ پاکستان کو درختوں کے سوکھے پتوں پہ ٹرخایا جاتا
رہا۔ایک تو صدر محترم کی عدم توجہ اور غیر حاضری اور دوسرے ایوان ِ صدر کے
ان ظالم کارندوں کے ظلم کے سبب ان جانوروں کے پھول سے چہرے کملہا گئے
تھے۔دودھ تو اب بھی وہ غریب فراہم کئے جا رہے تھے لیکن اس دودھ میں وہ دم
خم نہیں تھا جو صدر اور پاکستان کی کمر کو سیدھا رکھتا ہے۔
صدر صاحب کہ مفاہمت کی پالیسی کے قائل ہیں اس معاملے میں انہوں نے کسی بھی
قسم کی مفاہمت سے انکار کر دیا اور ان لالچی اور بد عنوان کارندوں کو سخت
سست کہا اور ان کی کھنچائی کی جنہوں نے ان کی غیر موجودگی میں ان کے جیالوں
سے بے اعتنائی برتی تھی۔ان ڈاکٹروں اور عملے کے دوسرے لوگوں کے خلاف
کاروائی کی جا رہی ہے اور پہلے مرحلے میں چار جانوروں معاف کیجئیے عملے کے
چار لوگوں کو معطل کر دیا گیا ہے اور باقی کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔سیب
امرود ،بادام اخروٹ اور پستے کھانے والوں کا پیٹ چیر کے اس کے اندر سے یہ
فواکہات اور میوہ جات بر آمد کئے جانے چاہیئں کہ ان لوگوں نے نہ صرف بے
زبان جانوروں کے ساتھ زیادتی کی ہے اور ان کا حق مارنے کا جرم کیا ہے بلکہ
پاکستان کی کمر پہ بھی وار کرنے کی کوشش کی ہے۔اپنی اوقات سے بڑھ کے کھانے
والے ان جانور نما انسانوں کو کڑی سے کڑی سزا دی جانی چاہئیے بلکہ ان کے
خلاف ریاست کے خلاف سازش اور اسے کمزورکرنے کا مقدمہ قائم کیا جانا چاہئیے
تا کہ آئندہ کسی کو جئرات نہ ہو کہ وہ مملکت کو کمزور کرنے کی کسی کوشش کا
حصہ بن سکے۔
ویسے میں سوچتا ہوں کہ اگر صدر صاحب کے یہ طبیب یعنی خدمت گذار جانور بادام
پستے اخروٹ اور امرود کھاتے ہیں تو بلاول بختاور اور آصفہ کیا کھاتے ہوں
گے۔کیونکہ میرے بچے تو اب روٹی کی شکل بھی بھولتے جا رہے ہیں۔یہ خبر پڑھ کے
بہت سے لوگوں نے یہ خواہش طاہر کی ہے کہ انہیں محسنین جمہوریت کی خدمت کا
موقع دیا جائے ۔اندر خانے ان کرپٹ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ بھلے یہ میوے
نہیں کھائیں گے لیکن کم از کم ان کی زیارت سے تو مستفیذ ہو سکیں گے۔بد بخت
کرپٹ لوگ ! اپنا رانجھا رکھنے سے پھر بھی باز نہیں آتے۔ |