زندگی کا سفر بھی عجیب و غریب ،دلچسپ
اور منفرد ہوتا ہے ۔ایک ہی وقت میں سفر کرنے والے مختلف تجربات سے گزرتے
ہیں چاہے نتائج جیسے بھی ہوں۔ دو بھائی یا دو دوست ایک ہی سفر پر نکلتے ہیں،
کبھی کسی کی کشتی منجھدار میں پھنس کر کسی نہ کسی طریقے سے کنارے تک پہنچ
جاتی ہے اور کسی کی پرسکون طریقے سے منزل کی جانب رواں دواں ہوتی ہے ۔
سیاست کی گیم بہت ہی خودغرض اور سنگدلانہ ہے۔ جہاں کھلاڑی اپنے مخالف کو
زیر کرنے کے لیے ہر طرح کی ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں اور کسی بھی
قربانی سے دریغ نہں کیا جاتا ۔اگرآپ مغلیہ خاندان کی داستانیں پڑھیں جہاں
اقتدار کے حصول کے لیے باپ یا بیٹے کو بھی قتل کرنے سے گریز نہیں کیاجاتا
تھا اور ہر طرف سازشوں کے جال نظر آتے تھے ۔اگرچہ اب بادشاہت کی جٹریں ختم
ہو چکی ہیں مگر ہوس ،آرزو،جزبات ،اور محرکات نہیں بدلے ۔بس اب انکے انداز
بدل چکے ہیں۔ اگر سیاست کی موجودہ شکل کی بات کی جائے تو ہمیں ہر طرف
سازشوں کی جال نظر آتا ہے ۔ درباری حکمران کے زیادہ سے زیادہ قریب ہونے کے
لیے خوشامد کرتے ہیں۔اور مخالفوں کو زیر کرنے کے لیے حکمران کے کان بھرتے
ہیں۔
اقتدار کی قربت دور سے بہت دلکش ،خوبصورت اور حسین لگتی ہے لیکن اگر
اندرونی حالات کو دیکھا جائے تو سازشوں سے بھرپور ،منافقت اور چالوں سے
بھرپور ایک ماحول نظر آتا ہے۔تو دل مکدر ہو جاتا ہے اور اقتدار کا اصل چہرہ
کھل کر اپنی پوری آب و تاب سے ظاہر ہو جاتا ہے۔پی پی پی ہر بار انکار کرتی
رہی کہ وہ سوئس حکام کو خط نہیں لکھے گی۔ اور سابق وزیراعظم گیلانی بھی
برملا اور سینہ تان کر انکاری رہے اور کہا کہ میرے بعد جو بھی وزیراعظم وہ
بھی خط نہیں لکھے گا ۔لیکن پھر ان کو نااہل قرار دے دیا گیا ۔اور نئے آنے
والے وزیراعظم نے اعلان کر دیا خط لکھنے کا۔
لمبا عرصہ ہوا جاتا ہے کہ پی پی پی کے جیالے مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں اپنے
قائد جناب آصف علی زرداری کا دفاع کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ جزباتی ہو
کر خوشامدی بننے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ صدر صاحب بی بی شہید اور جناب
ذولفقار علی بھٹو کا نام لے کی زیادہ خوشامدی بنتے ہیں۔اور گیلانی صاحب
ایسے ہی کرتے تھےمگر جیسے میں نے کہا نہ کہ اقتدار کا کھیل بہت سنگدلانہ
ہوتا ہے۔ ان کو کھڈے لائن لگا دیا گیا اور ان کو نظرانداز کر دیا گیا ۔
کسی نے قائداعظم محمد علی جناح سے پوچھا کہ سیاست بہت بری چیز ہے ۔قائداعظم
مسکرائے اور فرمایا " سیاست برے لوگوں کے لیے بری ہوتی ہے "
لیکن جناب!اب تو سیاست کے خدوخال ہی بدل چکے ہیں۔اور سیاست اب صرف
مفادات،اپنی خواہش کی تکمیل اور اقتدار کی حوس کا نام بن چکا ہے ۔اقتدار کے
اس کھیل میں بڑے بڑے قریبی رشتے دوستیاں اور ساتھی قربان کر دیے جاتے ہیں
اور حصول اقتدار کی بھینٹ چڑھا دیے جاتے ہیں۔ایسا ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے
اب بھی ہو رہا ہے اور مستقبل میں بھی ہوتا رہا ہے گا ۔فرق صرف انداز اور
طریقہ واردات کا ہے- |