ٹنڈولکر کے حیرت انگیز انکشافات
(Muhammad Shafiq Ahmed Khan, Kot Addu)
معروف انڈین کرکٹر ٹنڈولکر نے
اپنے اور دنیا بھر کے مردوں کے دلوں کے پھپولے پھوڑتے اور انکشاف کرتے ہوئے
کہا ہے کہ اداس یا ناراض بیوی فاسٹ بالر سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ناراض
اہلیہ کا سامنا کر ناباﺅنسر کھیلنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ دنیا کے آدھے مرد
بیویوں سے ڈرتے ہیں۔باﺅنسر سے بچ سکتے ہیں لیکن بیوی کے غصے سے نہیں۔بیوی
ناراض ہو جائے تو منانا آسان کام نہیں۔ٹنڈولکر جی ! آخر بول پڑے نہ اور گھر
کی بات باہر کہ دی۔ ویسے لٹل ماسٹر گیند کے ساتھ اتنا برا سلوک کیوں کرتے
ہیں ، اب سمجھ آیا، کہ دراصل وہ گھر کے سلو ک کا بدلہ باہر بال سے لیتے ہیں!
ویسے اگر ٹنڈولکر صاحب جیسا ارب پتی بندہ اپنی بیگم کو خوش نہ رکھ سکے اور
اتنا ڈرتا ہو، تو کنگلے کی بیوی نے تو سرمیں لازمی سواہ ڈالنی ہے۔
تو جناب عالی! پہلے تو یہ جانیں کہ بیوی ناراض یا اداس دوسرے لفظوں میں
دکھیاری ہوتی ہی کیوں ہے۔اس بیچاری عقل کی ماری کی اداسی اور ناراضگی کا
ڈوپٹہ اوڑھنے کی وجہ تسمیہ اگر جانیں تو زیادہ تر یہی دکھڑے بکھیڑے ہوتے
ہیں نہ کہ میرا زیور نہیں بنا، یا نئے ڈیزائن کا نہیں بنوایا، یا اماں کے
گھر مانگنے والی کی طرح پرانے کپڑوں میں بھیج دیا، یا ساس، نند، دیورانی،
جیٹھانی سے کشتی، کبڈی ، ریسلینگ، بچوں کا جھگڑا، خرچے کے چرچے میں کی کمی،
الگ گھر میری قسمت میں دھر ، یا پھر کیونکہ عورت فطرتا ہوتی ہی ناشکری، کم
عقل، شکی مزاج اور بے وقوف سی کہ آپ اسے سونے کے نوالے بھی کھلادیں تو وہ
یہی کہے گی کہ اسمیں بھی ضرور کھوٹ ہے۔ یوں گھر میں ہر وقت اداسی اور
پریشانی کے کانٹے بو کر خود بھی ان میں الجھی رہتی ہے اور شوہر کو بھی
پریشان یا پشیمان کر تی ہے۔ اصل میں عورت کی پیدائش ہے ہی بائیں پسلی کی ،
اسلیے یہ دم ٹیڑھی کی ٹیڑھی ہی رہتی ہے اور سیدھا کرنے کی کوشش کرو تڑک کر
کے ٹوٹ جاتی ہے پر سیدھی نہیں ہوتی ۔ کئی ٹیڑھی اور واہیات قسم کی خواتین
واقعی خطرناک بھی ہوتی ہیں کہ غصہ میں کچھ کمزور قسم کے شوہر ان موصوفا ﺅں
کے ماغی خلل کی وجہ سے ہڈیاں چٹخوا بیٹھتے ہیں۔ ہندوستان میں تو خطرناک اور
ناراض بیویوں کے ستائے شوہروں کے مظاہرے بھی ہو چکے ہیں پر مجال ہے کہ کسی
کم عقل بیوی کو عقل آئی ہو۔ ہندوستان کے ہی ایک علاقے کی تصویر اخبار میں
دیکھی کہ بہت سی خواتین ہاتھوں میں ڈنڈے سوٹے لیے ڈانڈیا نہیں بلکہ مار
دھاڑ کی ٹریننگ لے رہی تھیں۔ لگتا ایسا ہے کہ ان شوہر مار بیویوںکے شوہروں
کی بھی شامت آنے والی ہے۔ویسے ذرا یہ ہمارے طالبان کے پاس ان خواتین کو
بھیج کر دیکھیں نہ کہ کیسی ٹریننگ دیتے ہیں؟۔ عورت کی اسی ناراضگی اور
دماغی خلل کی وجہ سے ایک سعودی عدالت نے عورت کی پٹائی کو جائز قرار دیا ہے۔
تاہم تمام خواتین ایک جیسی بھی نہیں ہوتیں۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ
ایک کروڑ میں سے کوئی ایک اچھا دانہ نکل آئے ۔ جیسے کہ سعودیہ میں ہی ایک
بیچاری عقل کی سیدھی عورت نے اپنے شوہر کی خود ہی کھڑے ہو کر دوسری شادی
کرا دی اور بھنگڑا بھی پایا !
ایک سروے کے مطابق اکثر مرد ہی عورت سے محبت کا اظہار کر نے میں پہل کر تا
ہے عورت نہیں ۔ اس موقع پر مرد کی عقل گھاس کی بجائے ساگ کھانے چلی جاتی
ہے، یعنی مرد اپنی بربادی کا سامان اپنے ہاتھوں خود ہی تیار کر تا ہے۔
حالآنکہ اسے پتہ ہوتا ہے کہ دنیا کی نوے فیصد خواتین کو دماغی عارضے کی وجہ
سے ہسپتال کہ ضرورت ر ہتی ہے۔دراصل مردوں کا بھی اسمیں کیا قصور کہ دنیا
میں عورت جیسی خصوصیات ؟؟والی اور کوئی شے اللہ پاک نے پیدا ہی نہیں کی! تو
پھر مرد حضرات کہاں جائیں۔؟یا پھر امریکہ کی طرح ہم جنس پرستوں کی شادیاں
تو اب ہمارے ہاں ہو نہیں سکتیں۔ کیونکہ وجہ آپ سب جانتے ہیں کہ ۔۔؟؟؟
لہذا۔۔۔۔ مرد حضرات اس عورت کے چکر میں ایسے گھن چکر ہوئے رہتے ہیں کہ جیسے
امارات میں ایک تلنگا آدمی عورت کاروپ دھار کر نوکرانی بن کر عرصہ دراز تک
ایک گھر میں کام کرتا ر ہا کہ خواتین کی قربت رہے۔ پھر جب بھانڈا پھوٹا
توآپ خود سمجھیے کہ کیا ہو ا ہو گا اور موصوف نے گھر میں کیا کچھ نہیں
دیکھا ہو گا؟ تو ایسا بھی ہوتا ہے زمانے میں۔گذرے زمانے کا تو سبھوں کو یاد
ہوگا کہ اس عورت ہی کے چکر میں لوگ سلطنتیں تک گنوا بیٹھے تھے یا ان
بیچاریوں کو دیواروں میں چنوا دیاتھا ۔ ویسے پچھلے زمانے کی عورت موجودہ
زمانے سے تھی قدرے بہتر ،کہ سارا دن نلکا گیڑ گیڑ کراسکا ستیا ناس رہتا
تھا، آٹا ہاتھ والی چکی پر پیس پیس ہاتھوں میں گٹے پڑ جاتے تھے، کپڑے ہاتھ
سے دھو دھو کر ہاتھ چھل جاتے تھے، لکٹریوں والے چولھے پر روٹی ہانڈی کرتے
کرتے اسکا رنگ بھی الٹی ہانڈی اور توے جیسا ہو جاتا تھا، نوکر چاکر نہ ہونے
سے سارا دن کام میں گڈھاں کی طرح جتی رہتی تھی، ڈھور ڈنگر سانبھ سانبھ کر
خود بھی ڈنگر ہو جاتی تھی،چونکہ اس زمانے میں پردے کا رواج تھا تو سارا دن
گھونگھٹ نکالنے کے چکر میں گرتی پڑتی گوڈے الگ تڑواتی تھی، میک اپ میں صرف
تبت سنو کریم کافی رہتی تھی، فیس فیشل کپڑے دھونے والے صابن یا ملتانی مٹی
سے ہو جاتاتھا، درجن بھر بچوں کے ریوڑ کو سانبھتی خود بھی اس ریوڑ کا چارہ
بن جاتی تھی، میاں کی مالش کرتی اور ٹانگیں دباتی خود بھی دبی رہتی تھی۔ غر
ضیکہ شٹل کاک برقعے میں لپٹی یہ عورت اپنے گھر کے دھندے میں ایسی مست رہتی
تھی کہ اسے ناراض یا اداس ہونے کا موقعہ ہی نہیں ملتا تھا ۔ جوں جوں زمانہ
ترقی کر رہاہے ، عور ت کو سہولیات مل رہی ہیں، توں توں اسکے نخرے بڑھ رہے
ہیں اور دماغ خراب ہو کر تنزلی کی طرف مائل ہے!
جناب عالی ! ویسے اہلیہ چاہے ناراض ہو یا خوش، میرے خیال سے اسکا سامنا ہر
شکل میں مشکل ہوتا ہے کہ اس بیچاری کے پاس دکھ درد اور طعنے تشنے کے علاوہ
ہوتا ہی کیا ہے ۔ہمارے ایک شادیوں کی وجہ سے مشہور سمارٹ سے سیاستدان کہتے
ہیں کہ میں غمی میں سے بھی خوشی کا پہلو نکال لیتاہوں جو کہ انکی اچھی صحت
کا راز ہے۔ پر ہماری خواتین الٹ کرتی ہےں کہ اگر میاں کوئی خوشی کی خبردے
،یا خوشی کی بات کرے تو یہ موصوفائیں اس خوشی میں سے بھی غمی کا پہلو نکال
کر ایسے بین ڈالنا شروع کر دیتی ہیں کہ جیسے آجکل ہمارے سیاستدان سپر یم
کورٹ کے سچ کہنے پر بین ڈال رہے ہیں ۔ ویسے اہلیہ کو ناراض کرنے میں شوہر
کا ہی نقصان ہوتا ہے کہ : ناراض ہوگی تو سالن جلادے گی، ناراض ہوگی تو
استری کرتے کپڑے ساڑ دے گی،ناراض ہو گی تو واشنگ مشین میں کپڑے پھاڑ دیگی،
ناراض ہوگی تو میاں کا کھانا پینا بند یا پھر لیٹ کر دے گی،ناراض ہوگی تو
بچے دوسرے گھروں میں کٹوریاں لیے سالن مانگتے پھر رہے ہونگے، ناراض ہوگی تو
سیدھے منہ بات نہیں کرے گی، ناراض ہو گی تو کھانے میں نمک مرچ تیز ملیگا،
ناراض ہو گی تو سسرالیوں کو لفٹ نہیں کرائیگی، ناراض ہوگی تو بچے سارا دن
بنا پیمپر گھر بھر کو لیٹرین بنا رکھیں گے، ناراض ہوگی تو پورا گھر جھاڑ
جھنکار ہو جائیگا، ناراض ہوگی تو ہر آنے جانے والے کے آگے میاں اور اسکے
خاندان کی برائیاں کر ے گی، کھانا پینا چھوڑ یا کم کر دیگی یا پھر چھپ چھپ
کر کھائیگی، ناراض ہوگی تو بچوں کا مار مار کر بھرکس نکالیگی اور بچے اسکول
سے روزانہ لیٹ ہونگے ۔ ناراض ہوگی تو اپنی پھوٹی قسمت کو روئے گی اور میاں
کے تمام مرحومین کے نام لے لے کر کوسنے دیگی۔ غرضیکہ ناراضگی میں ہر وہ کام
کریگی کہ جس سے کہ میاں کے دل پر ایسے چھریاں چلتی ہیں جیسے کہ حکومت آئے
روز عوام پر مہنگائی کا چھرا چلا کر انہیں بغیر بقر عید کے ذبح کرتی رہتی
ہے۔ویسے میرے خیال سے جیسے اسکول اور مدرارس میں اساتذہ کرام ایک عدد موٹا
سا ڈنڈا بچوں کی پٹائی کے لیے رکھتے ہیں، اسی طرح کا ایک مولا بخش سرسوں کے
تیل میں ڈبوکر بیوی کے لیے بھی گھر میں رکھا جائے کہ جہاں اسکا دماغ گڑ بڑ
شروع کرے فورا چھترول سے اسکا تریاق شروع کر دیا جائے اس سے پہلے کہ یہ وبا
اسکے پورے جسم میں پھیلے!وہ اسکولوں کا ایک سلوگن ہے نہ کہ ۔۔ مار نہیں
پیار۔۔۔پر بیوی کے کیس میں یہ جملہ الٹا پڑھا جائے کہ۔۔ پیار نہیں مار۔۔
جہاں تک یہ بات کہ دنیا کے آدھے مر دبیویوںسے ڈرتے ہیں۔ میرے خیال سے یہ
بات غلط ہے ۔ مرد بیویوں سے ڈرتے ورتے بلکل نہیں بلکہ اصل میں وہ بیچارے تو
بچوں کو رلتا نہ دیکھنے اور بچوں کو۔۔ چھولے کرارے۔۔۔ چھوٹے دو نمبر کا
پانا لاﺅ۔۔۔۔۔ چھوٹے ٹیبل پر کپڑا لگاﺅ۔۔۔۔۔۔یا جانے دو استاد ڈبل اے۔۔۔۔
کی نوبت نہ آنے دینے کی وجہ سے اسکے تھلے لگ کر رہتے ہیں۔ ورنہ عورت ذات ہے
ہی کیا چیز صرف ایک ماشہ، تولہ سونے یا پھر دو لفظوں کی مار۔ ویسے مارنے
والے تو اس صنفِ نازک کے ساتھ رضیہ غنڈوں والی والا سلوک ر کھتے ہیں اور
بہت سی غیر ضروری نازیبا قسم کی کاروائیاں روا رکھتے ہیں کہ کبھی کسی نے اس
بیچاری کا کان کاٹ دیا تو کبھی ناک، کبھی چوٹی کاٹ دی تو کبھی بال، کبھی
ٹانگ توڑی تو کبھی ہاتھ، کبھی سر پھوڑا تو کبھی دانت، کبھی آنکھ پھوڑی تو
کبھی آنت، کبھی مکا مارا تو کبھی لات، کبھی ڈنڈا مارا تو کبھی ڈانگ۔ کبھی
استرا تو کبھی چھرا، کبھی گرم پانی تو کبھی تیزاب۔ کبھی گھر بھر کے برتن تو
کبھی کچھ اور وغیرہ وغیرہ۔ویسے یہ ہے زیادتی کہ اس صنفِ نازک پر اتنا ظلم
کیا جائے۔
اب رہی بات بیوی کے غصے سے بچنے ا ور منانے کی تو بیوی کے غصے سے بچنے کا
ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ اسے غصہ آنے ہی نہ دیں۔ جہاں دیکھیں کہ موصوفہ
ناگواری کا اظہار کر ہی ہیں اور بات بڑھنے والی ہے تو وہیں ایک موٹے سے
ڈندے کی ایک کاری ضرب اسکے دماغ کے عین اوپر لگائیں تاکہ دماغ کی خرابت
درست ہو اور وہ اپنی اصلی حالت میں آ جائے ۔یاپھر دو ننگی تاریں بجلی کے
440 وولٹ کے شو میں لگائیں اور کرنٹ موصوفہ کے دماغ کو پہنچائیں انشاءاللہ
بہت افاقہ ہوگا۔ اسکے علاوہ بھی بہت سے سوفٹ طریقے ایسے ہیں کہ بیوی کا
دماغ خراب ہی نہ ہونے دیا جائے لیکن یہ آپکے مزاج اور موڈ پر منحصر ہے کہ
کیا آپ ایسا کرنا پسند کریں گے ۔ مثلا: میاں گھر کے کام کاج خود کرے، بیگم
کی لاتیں دبائے، بیگم کو روز سسورال لیکر جائے،اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر
سسورال کا ہی ہو جائے، بچوں کو اٹھانا،بٹھانا، پڑھانا ، لکھانا، سمجھانا
وغیرہ اور دیگر تمام گھریلو امور کی ذمہ دا ر یاں خود سنبھالے،رات برات
بچوں کی پیشی پوٹی کرانے کی ذمہ داری خود لے لے، بیوی کے ڈراموں کے لیے ایک
ٹی وی الگ لاکر مختص کر دے، بیوی کے آرام میں خلل واقع نہ ہو، نوکرانی کا
بندوبست ہو۔ تینوں ٹائیم کھانا باہر سے آئے،ہر ہفتے نئے سوٹ، ہر ماہ سونے
کے کڑے، بندے، جھمکے، لاکٹ، چین، ٹاپس آئیں، بیوٹی پارلر گھر میں ہی ہو،
سسرال والوں کو اپنے ہی گھر کا حصہ جانیں، بیوی کو کبھی غصے میں دیکھیں تو
گھر سے باہر نکل جائیں، گھر کے تمام امورِ خانہ داری خود نمٹائیں،تاہم ہر
شادی بیاہ اور غمی خوشی میں بیگم کو آگے رکھے اور خود ہاتھ باندھ کر پیچھے
رہے، لینا دینا تمام بیگم کے ہاتھوں میں ہو، ساری کمائی لاکر پہلے بیگم کے
ہاتھ پر رکھے ، الگ تھلگ گھر ہو، آنے جانے کی روک رکاوٹ نہ ہو۔۔۔ وغیرہ
وغیرہ۔۔۔ تو پھر نہ غصہ آئیگا اور نہ لڑائی ہوگی۔
تاہم اگر یہ عورت ذات پھر بھی نہ مانے تو سرائیکی کی ایک مثال ہے کہ : ایہہ
تا ں ہے ای جتیاں دے ڈاہ دی۔ یعنی یہ تو ہے ہی جو تے کے آگے سیدھی رہنے
والی ۔ تو جناب! بارہ نمبر کا جوتا چلا یئے اور کام پائیے اور محترم
ٹنڈولکر صاحب کو بھی مشورہ کہ اس کالم کو پڑھ کر اس پر من و عن عمل کرنے کی
کوشش کریں، سکھی رہیں گے۔
خواتین کے لیے فوٹ نوٹ: برائے مہربانی اس لکھے کو دل پر لیکر اداس یا
پریشان مت ہو یئے گا، نہ ہی غصہ کیجئے گا کہ کہیں رنگ کالا نہ پڑجائے اور
پھر فیئر اینڈ لولی کی ضرورت پڑے۔ جسٹ ایک کہانی یا برف پر لکھا سمجھ کر
بھلا دیجئے گا۔شکریہ۔ |
|