الا ان اولیا ءاللّٰہ لاخوف
علیھم ولا ھم یحزنون 0 الذین اٰمنو وکانوا یتقون لھم البشریٰ فی الحیا ة
الدنیا وفی الاٰخرة لا تبدیل لکلمات اللّٰہ ذلک ھو الفوز العظیم 0
”بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ کچھ غم ۔وہ جوایمان لائے اور
پر ہیزگاری کرتے ہیں انہیں خوشخبری ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اللہ
کی باتیںبدل نہیں سکتیں ۔ یہی بڑی کامیابی ہے ۔“
لفظ ولی کی دو صورتیں ہیں :۔ پہلی یہ کہ یہ علیم اور قدیر کی طرح فصیل کے
وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے ۔ اس صورت میں اس کے معنی ہوں گے ایسی ذات جس کی
طاعات مسلسل رہیںاور مصیت و گناہ ان طاعات میں خلل نہ ڈالےں۔ دوسری صورت یہ
کہ قتیل اور جریح کی طرح فصیل کے وزن پر ہو مگر معنی مفعول کادے اور جس طرح
قتیل و جریح بمعنی مقتول و مجروع ہیں اس صورت میں معنی یہ ہو گا وہ ذات جس
کی حفاظت و نگرانی ہر قسم کے معانی سے مسلسل اللہ کریم فرمائیں اور اسے
ہمیشہ طاعات کی توفیق دےں۔
امام رازی قرآن مجید سے اس لفظ ولی کے ماخذ نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں ۔ یہ
لفظ ان ارشادات قرینہ سے ماخوذ ہے۔ (1)اللّٰہ ولی الذین اٰمنو ا ۔” اللہ
ایمانداروں کا ولی ہے۔“(2)وھو یتولّی الصّالحین ۔” وہ نیک لوگوں کا دوست
اور والی ہے ۔ (3) انت مولانا فانصرنا علی القوم الکافرین۔”تو ہمارا کار
ساز ہے ہمیں قوم کفار پر فتح عطا فرما۔ (4) ذالک با ن اللّٰہ مولیٰ الذین
اٰمنواوان الکافرین لامولیٰ لھم ۔” یہ اس لئے کہ اللہ ایمانداروں کا مولیٰ
ہے اور کافروں کا تو کوئی مولیٰ نہیں ۔ (5 )انما ولیکم اللّٰہ ورسولہ ۔”
تمہارا ولی اللہ اور رسول ہے ۔“ ولی لغت میں قریب کو کہتے ہیں جب بندہ کثرت
طاعات اور زیادتی اخلاص کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے اور اللہ
تعالیٰ اپنی رحمت ،فضل اور احسان سے اپنے بندے کے قریب آجاتا ہے تو یہ
دونوں مل کر ولایت کا خمیر اٹھاتے ہیں ۔ اولیا ءکرام بمصداق آیت یحبھم
ویحبونہ ۔خدائے تعالیٰ کے سچے عاشق بھی ہیں اور اس کے محبوب بھی ۔ مخلوقات
الہٰی میں انبیاءعلیھم السلام کے بعد اولیائے کرام کا مرتبہ سب سے افضل
واعلیٰ ہے اولیاءاکرام کی جماعت ہر زمانہ میں موجود رہی ہے اور ہمیشہ موجود
رہے گی کیونکہ دنیا کا قیام انہیں کے مبارک وجود سے قائم ہے جیسا کہ حضرت
داتا علی ہجویری رحمة اللّٰہ علیہ اپنی کتاب کشف المحجوب میں فرماتے ہیں
خدائے تعالیٰ کسی وقت بھی زمین کو بے محبت نہیں رکھتا اور اس امت کو بغیر
ولی کے نہیں رکھتا اس کے استشہاد میں حضور ں کی یہ حدیث مبارک بیان فرمائی
کہ میری امت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا رہے گا جو نیکی پرقائم رہے گا اور
میری امت کے چالیس آدمی سنت ابراہیمی پر ہمیشہ قائم رہیں گے ۔ پس
انبیاءعلیہم السلام کے بعد خدا سے نزدیک اس گروہ کے علاوہ اور کوئی نہیں او
راعزازو اکرام کے اعتبار سے بھی اس گروہ سے زیادہ خدا کے نزدیک کوئی نہیں
ہے ۔
اس گروہ سے زیادہ نہ کوئی بلند حوصلہ اور عالی ہمت ہو سکتا ہے اور نہ کوئی
ایسا بے نیاز اور کا مل ترین جیسا کہ اولیاءکاملین کی جماعت ہو تی ہے ۔ حلم
و بردباری ، شجاعت و دلیری ، سخاوت و جوانمردی وغیرہ اور اخلاق حمیدہ میں
ان کا کوئی ہمسر نہیں ہو سکتا ۔
کسی نے شیخ ابو عبد اللہ سالمی رحمة اللّٰہ علیہ سے دریافت کیا کہ اولیاءکو
کس طرح پہچانا جاسکتا ہے ۔ فرمایا زبان کی لطافت ونرمی، حسن اخلاق اور
کشادہ روئی وخندہ پیشانی ، اعتراض سے احتراز کرنا ،عذر قبول کرنا ، خلق خدا
سے شفقت و محبت سے پیش آناوغیرہ جملہ اخلاق حمیدہ ان میں پائے جاتے ہیں ۔
ان سے محبت کرنا خدا سے محبت کرنا ہے ۔ ان کی محبت میں رہنا خدا کے قرب کا
سبب ہے ۔ ان کی تلاش خدا کی طلب ہے ۔ ان سے تعلق و اخلاص رکھنا خدا سے تعلق
و تقرب کے مترادف ہے ۔ ان پاک باطن گروہ کے خدا شنا سی کے طریقے مختلف ہیں
۔ ہر ایک کا ایک علیحدہ مشرب ہے ۔ بعض پوشیدہ بعض آشکارا ، بعض سے کرامات
کا ظہور ہوتا ہے اور بعض غرور نفس کے خطرہ کی وجہ سے کرامات کا اظہار مضر
سمجھتے ہیں ۔
بعض کا طریق ترک ماسو ی ٰاللہ ہے وہ کسی چیز سے کوئی تعلق نہیں رکھتے اور
نہ کسی چیز سے لذت حاصل کرتے ہیںگویا اس جماعت کا عمل اس آیت شریفہ پر ہے ۔قل
اللّٰہ ثم ذرھم فی خوضھم یلعبون 0۔ ان کا قول ہے کہ جب تک ترک کمال نہیں ہو
گا قلب کو سکون و اطمینان نہیں ہو سکتا ۔
بعض اولیاءظاہری طور پرتو دنیا وی امور میں مشغول رہتے ہیں لیکن یہ باطن
دنیا سے منقطع ، گو یا خلوت درانجمن کے مصداق ہوتے ہیں ۔ گویا وہ اس آیہ
مبارکہ پر عمل پیرا ہیں ۔ رجال لا تلھم تجارة ولا بیع عن ذکر اللّٰہ ۔ اس
لئے ان حضرات کے ظاہر حال کو دیکھ کر اعتراض اور ان کے باطنی اسرار سے بحث
نہیں کرنی چاہیے۔ حضرت ممشاد دینوری نے فرمایاکہ جو شخص ان محبوبان خدا کی
محبت و دوستی سے انکار کرے گا اس کی ادنیٰ سزا یہ ہے کہ خدا اس کو اپنے
دوستوں کے زمرہ سے خارج کر دے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اولیائی تحت
قبائی لا یخر فھم غیری ۔”میرے دوست دامن میں چھپے ہیں ۔ بجز میرے ان کو
کوئی نہیں پہچانتا ۔ ہاں وہ جن کو میں اس کی توفیق بخش دوں ۔ اس کے لئے کسی
کو نظر حقارت سے نہیں دیکھنا چاہیے ۔
حضرت ذوالنوں مصری رحمة اللّٰہ علیہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے جس بندہ
سے ناراض ہوتا ہے اس کی زبان کو اولیاءاللہ پر طعن و تشنیع اور اعتراضات و
انکار کرنے میں دراز فرمادیتا ہے ۔
ابراہیم قعار رحمة اللّٰہ علیہ نے فرمایادنیا میںدو چیزیں سب سے زیادہ پسند
یدہ ہیں ایک فقیروں کی صحبت ،دوسرے اولیاءاللہ کی محبت اور خدمت ۔ حضرت ابو
العباس رضی اللہ عنہ عطا نے فرمایا اگر تو ان کے مراتب تک نہیں پہنچ سکتا
تو کم از کم ان کے دوستو ںسے تعلقات اور محبت پیدا کر وہ تیری شفاعت کرینگے
۔ حضرت ابو عبد اللہ سنجری رحمة اللّٰہ علیہ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ مفید
چیز نیکو ں کی صحبت ہے اور افعال و اقوال میں ان کی اتباع و پیروی اور
اولیاءاللہ کے مزارات مقدسہ کی زیارت و حاضری ۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمة اللّٰہ علیہ کا فرمان ہے کہ نیکوں کی صحبت
میں بیٹھنا نیکی کرنے سے زیادہ بہتر ہے ۔
حضرت ابراہیم ادھم رحمة اللّٰہ علیہ نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ
ایک فرشتہ ہاتھ میں رجسٹر لئے ہوئے ہے اور کچھ لکھ رہا ہے ۔ میں نے پوچھا
کیا لکھ رہے ہو ۔ فرشتے نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کے دوستوں کے نام لکھ
رہا ہوں ۔ میں نے پوچھا کہ میرا نام بھی لکھا ہے ؟ کہا نہیں، میں نے کہا
اگر چہ میں خدا کے دوستوں میں سے تو نہیں ہوں لیکن اس کے دوستوں کا دوست
ہوں اور ان سے محبت رکھتا ہوں ۔ میں فرشتے سے یہ کہہ ہی رہا تھا کہ فرشتے
کو حکم ملا کہ دفتر کو پھر سے لکھو اور سب سے اوپر ابراہیم ادھم کا نام
لکھو کیونکہ یہ ہمارے دوستوں کا دوست ہے ۔
سردار اولیاءحضرت جنید بغدادی رحمة اللّٰہ علیہ نے فرمایا اگر کسی کوپاﺅ کہ
اس میں ایمان ہے اور اولیاءسے خلوص و عقیدت رکھتا ہے اور ان کی ہدایتوں پر
عمل کرتا ہے ۔ اس سے دعا کی درخواست کیا کرو۔ سہیل بن عبد اللہ تشری رحمة
اللّٰہ علیہ نے فرمایا بد نصیبی اور محرومی کی علامتوں میں سے ہے کہ
اولیاءاللہ کی صحبت و زیارت سے احتراز کرے اور ان کی باتوں اور نصیحتوں کو
قبول نہ کرے ۔ حضرت محبوب سبحانی غوث الثقلین رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ
یہ گروہ اولیاءدنیا اور آخرت کے بادشاہ ہیں۔
اولیاءاللہ کی سیرت کرداراور ان کے اقوال ہمارے لئے مشعل راہ ہیں ۔ اللہ
تعالیٰ ان اولیاءکی برکت سے دنیا و آخرت میں نیک عمل کی توفیق عطا فرمائے
اور آخرت میں ان کی بدولت نجات نصیب فرمائے اور اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کا
ایک ادنیٰ خادم گردان لے اور ان کی توجہ سے دولت ایمان نصیب فرمائے۔ آمین ! |