قیامت کب آئے گی ؟

ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت سے اقتباس :
امامِ اہلسنت رضی اللہ عنہ سے کسی نے سوال کیا۔
عرض : قیامت کب ہوگی اور ظہورِ امام مہدی کب ؟
ارشاد : قیامت کب ہوگی اسے اللہ (عَزَّوَجَلَّ)جانتا ہے اور اس کے بتائے سے اس کے رسُول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ۔قیامت ہی کا ذکر کر کے ارشاد فرماتا ہے :
عٰلِمُ الْغَیۡبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا ﴿ۙ۲۶﴾اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی

اللہ (عَزَّوَجَلَّ)غیب کا جاننے والا ہے ، وہ اپنے غیب پر کسی کو مسلّط نہیں فرماتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے ۔(پ۲۹، الجنّ:۲۶،۲۷)

امام قسطلانی وغیرہ نے تصریح فرمائی کہ اس غیب سے مراد قیامت ہے جس کا اوپر متصل آیت میں ذکر ہے ۔

(ارشاد الساری شرح صحیح البخاری، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالی عٰلِم الغیب ۔۔۔۔۔۔الخ،ج۱۵، ص۳۹۲)

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے پہلے بعض علمائے کرام نے بملاحظہ احادیث حساب لگایا کہ یہ اُمت سن ہزار ہجری سے آگے نہ بڑھے گی ۔ امام سیوطی (علیہ رحمۃ اللہ القوی)نے اس کے انکار میں رسالہ لکھا ''اَلْکَشْف عَنْ تَجَاوُزِ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ الْاَلْف'' اس میں ثابت کیا کہ یہ اُمت ۱۰۰۰؁ھ سے ضرور آگے بڑھے گی ۔ امام جلال الدین (سیوطی علیہ رحمۃ اللہ القوی)کی وفات شریف ۹۱۱؁ھ میں ہے ، اور اپنے حساب سے یہ خیال فرمایا کہ ۱۳۰۰؁ھ میں خاتمہ ہوگا ۔ بِحَمْدِ اللہ تعالٰی اِسے بھی چھبیس بر س گذرگئے اور ہنوز(یعنی ابھی تک) قیامت تو قیامت ، اَشراطِ کبریٰ (یعنی بڑی نشانیوں )میں سے کچھ نہ آیا۔اِمام مہدی کے بارے میں اَحادیث بکثرت اور متواتر ہیں مگر اِن میں کسی وقت کا تعین نہیں اوربعض علوم کے ذریعہ سے مجھے ایسا خیال گذرتا ہے کہ شاید ۱۸۳۷؁ھ میں کوئی سلطنت اسلامی باقی نہ رہے اور ۱۹۰۰؁ ھ میں حضرت امام مہدی ظہور فرمائیں۔

مؤلف : جب مَیں مکہ معظمہ حضرت مولاناعبدالحق صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ قاضی رحمت اللہ وہابی کو حاضرِ خدمت پایا اور یہ وہ وقت تھا کہ مولانااس کو سندِ حدیث دے چکے تھے۔ مجھے یہ نہایت ہی گراں گزرا ۔ مَیں نے مولاناعبدالحق صاحب سے عرض کیا کہ میں بھی آپ کی غلامی میں حاضر ہوا ہوں ، اور یہ بھی آپ سے سند حاصل کرچکے ہیں تو یہاں وہ اختلاف جوہم میں ان میں دربارہ مسئلہ غیبِ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم (یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے علمِ غیب کے بارے میں)ہے بآسانی طے ہو سکتا ہے ، اس پر مولانانے تین دن میں ایک رسالہ ''بفَرائِد السَّنِیَّۃ فِی الْفَوَائِد الْبَھِیَّۃ'' تحریر فرما کر قاضی رحمت اللہ کو دیا ۔اس رسالہ میں مولانانے آثارِ قیامت کے متعلق بہت سی اَحادیث جمع فرمائیں لیکن ان میں بھی تعینِ وقت نہیں ۔

ارشاد : حدیث میں ہے :'' دنیا کی عمر سات دن ہے ،میں اس کے پچھلے دن میں مبعوث ہوا۔''

دُوسری حدیث میں ہے :'' میں امید کرتا ہوں کہ میری اُمت کو خدائے تعالیٰ نصف دن اور عنایت فرمائے۔'' (سنن ابی داؤد ،کتاب الملاحم، باب قیام الساعۃ، الحدیث ۴۳۵۰،ج۴، ص۱۶۷)

ان حدیثوں سے اُمت کی عمر پندرہ سو بر س ثابت ہوئی:

وَ اِنَّ یَوْمًا عِنۡدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ

تیرے ربّ(عَزَّوَجَلَّ) کے یہاں ایک دن تمہاری گنتی کے ہزار برس کے برابر ہے ۔ (پ۱۷، الحج:۴۷)

اِن حدیثوں سے جو مستفاد (یعنی نتیجہ حاصل)ہوا وہ اس تو قیت کے منافی (یعنی مخالف) نہیں جو اس علم سے میرے خیال میں آئی ہے کیوں کہ یہاں حضور سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرف سے اپنے ربّ عَزَّجلالہٗ سے استدعا (یعنی دعا )ہے۔ آئندہ انعامِ الہٰی (عَزَّوَجَلَّ) وہ جس قدر زیادہ عمر عطافرمائے جیسے جنگ ِبدر میں حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم) نے صحابہ کرام( علیہم الرضوان) کو تین ہزار فرشتے مدد کے لئے آنے کی اُمید دلائی۔

اَلَنۡ یَّکْفِیَکُمْ اَنۡ یُّمِدَّکُمْ رَبُّکُمۡ بِثَلٰثَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُنۡزَلِیۡنَ

کیا تمہیں یہ کافی نہیں کہ تمہارا ربّ (عَزَّوَجَلَّ)تین ہزار فرشتے اتار کر تمہاری مدد فرمائے ۔(پ۴، اٰلِ عمرٰن :۱۲۴)
اس پرحق سُبْحَانَہ، تَعَالٰی نے فرشتوں کا اضافہ فرمایا کہ

کیوں نہیں اگر تم صبر کرو اور تقویت پر رہو اور کافر ابھی کے ابھی تم پر آئیں تو تمہارا ربّ (عَزَّوَجَلَّ) پانچ ہزار نشان والے فرشتو ں سے تمہاری مدد فرمائے گا۔(پ۴، اٰلِ عمرٰن: ۱۲۵)
عرض : حضور نے جفر سے معلوم فرمایا ؟
ارشاد: ہاں! (اور پھر کسی قدر زبان دبا کر فرمایا )آم کھایئے پیڑ نہ گنئے ،(پھر خود ہی ارشاد فرمایا)کہ میں نے یہ دونوں وقت (۱۸۳۷؁ھ میں سلطنت اسلامی کا ختم ہونا اور ۱۹۰۰؁ھ میں امام مہدی کا ظہور فرمانا ) سیِّدُالْمُکاشِفِیْن (یعنی اصحابِ کشف کے سردار )حضرت شیخ محی الدین ابنِ عربی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کلام سے اخذ کئے ہیں ، اللہ اکبر ! کیسا زبر دست واضح کشف تھا کہ سلطنتِ ترکی کا بانیِ اول عثمان پاشا حضرت کے مدتوں بعد پیدا ہوا مگر حضرت شیخ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اتنے زمانے پہلے عثمان پاشا سے لے کرقریب زمانہ آخر تک جتنے بادشاہ اسلامی اور ان کے وزراء ہو ں گے رموز (یعنی اشاروں کنایوں ) میں سب کا مختصر ذکر فرمایا ۔ ان کے زمانے کے عظیم وقائع (یعنی غیر معمولی واقعات ) کی طرف بھی اشارے فرمادیئے ۔کسی بادشاہ سے اپنی اس تحریر میں بہ نرمی خطاب فرماتے ہیں اور کسی پر حالتِ غضب کا اظہار ہوتا ہے ، اس میں ختمِ سلطنتِ اسلامی کی نسبت لفظِ''ایقظ'' فرمایا اور صاف تصریح فرمائی کہ لَا اَقُوْلُ اَیْقَظ الْھِجْرِیَۃ بَلْ اَیْقَظ الْجَفْرِیَۃ (یعنی میں ایقظ ھجریہ کے بارے میں نہیں کہتا بلکہ میری مراد ایقظ جفریہ ہے ۔ت)میں نے اس ''ایقظ جفر ی'' کا جو حساب کیا تو ۱۸۳۷؁ ھ آتے ہیں اور انہیں کے دوسرے کلام سے ۱۹۰۰؁ ھ ظہورِ امام مہدی کے اخذ کئے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں : رباعی

اِذَا دَارَ الزَّمَانُ عَلٰی حُرُوفٍ ------ بِبِسْمِ اللہِ فَالْمَھْدِی قَاما
وَیَخْرُجُ فِی الْحَطِیْمِ عَقِیْبَ صَوْمٍ ------ اَلَا فَاقْرأہ، مِنْ عِنْدِیْ سَلاَما

(یعنی :جب زمانہ بسم اللہ کے حروف پر گھومے گا تو امام مہدی ظہور فرمائیں گے اور حطیم کعبہ میں شام کے وقت تشریف لائیں گے، سنو انہیں میرا سلام کہنا ۔ت)

خود اپنی قبر شریف کی نسبت بھی فرمادیا کہ اتنی مدت تک میری قبر لوگو ں کی نظروں سے غائب رہے گی مگر

'' اِذَا دَخَلَ السِّیْن فِی الشِّیْن ظَہَرَ قَبْرُ مُحْیِ الدِّیْن''

جب شین میں سین داخل ہوگا تو محی الدین کی قبر ظاہر ہوگی ۔
سلطان سلیم جب شام میں داخل ہوئے تو ان کو بشارت دی کہ فلاں مقام پر ہماری قبر ہے ۔ سلطان نے وہاں ایک قبّہ بنوا دیا جو زیارت گاہِ عام ہے۔
Azeem Gul
About the Author: Azeem Gul Read More Articles by Azeem Gul: 6 Articles with 24957 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.

search this page : Qayamat Kab Ayegi