حضرت عبداللہ بن مبارک کے جہادی اشعار
(usama hammad, bahwalpur)
تحریر : حافظ تمیم خالد ۔ محمد
عبید الرحمن
آپ رحمہ اللہ کا مشہور جہادی ترانہ ہر مجاہد کی زبان پر ہو تا ہے جس میں آپ
نے حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کومخاطب کر تے ہوئے جہاد کی اہمیت و فرضیت
اور شوق شہادت پہ اشعار لکھے ہیں۔
ذیل میں وہ اشعار مع ترجمہ پیش خدمت ہیں۔
ےَا عَابِدَ الْحَرَمَیْنِ لَوْ اَبْصَرْتَنَا
اے حرمین شریفین کے عابد! اگر آپ ہم مجاہدین کو دیکھ لیں،
لَعَلِمْتَ اَنَّکَ فِی الْعِبَادَۃِ تَلْعَبُ
تو آپ جا ن لیں گے کہ آپ تو عبادت کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔
مَنْ کَانَ یَخْضِبُ خَدَّہُ بِدُمُوْعِہِ
اگر آپ کے آنسو آپ کے رخساروں کو تر کرتے ہیں ،
فَنُحُوْرُنَا بِدِمَائِنَا تَتَخَضَّبُ
تو ہماری گردنیں ہمارے خون سے رنگین ہوتی ہیں۔
اَوَ کَانَ یَتْعَبُ خَیْلُہُ فِیْ بَاطِلٍ
اور لوگوں کے گھوڑے فضول کاموں میں تھکتے ہیں ،
فَخُیُوْلُنَا یَوْمَ الصَّبِیْحَۃِ تَتْعَبُ
مگر ہمارے گھوڑے تو حملے کے دن تھکتے ہیں ۔
رِیْحُ الْعَبیْرِ لَکُمْ وَنَحْنُ عَبِیْرُنَا
عنبر وزعفران کی خوشبو آپ کو مبارک ہو ،جبکہ ہماری خوشبو تو
رَھْجُ السَّنَابِکِ وَالْغُبَارُ الْاَ طْیَبُ
گھوڑے کے کھروں سے اڑنے والی مٹی اوراﷲ تعالیٰ کے راستے کاپاک غبار ہے۔
وَلَقَدْ اَتَانَا مِن مَّقَالِ نَبِییِّنَا
ہم آپکو اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ایک فرمان سناتے ہیں،
قَوْلُ، صَحِیْحٌُ صَادِقٌُ لَایَکْذِبُ
ایسا فرمان جو بلاشبہ درست اور سچا ہے۔
لَا یَسْتَوِیْ غُبَارُ خَیْلِ اﷲِ فِی
جمع نہیں ہوسکتی، اﷲتعالیٰ کے راستے کی مٹی
اَنْفِ امْرِیٍ وَدُخَانُ نَارٍتَلْھَبُ
اور جہنم کی بھڑکتی آگ کسی شخص کی ناک میں ۔
ھَذَا کِتَابُ اﷲِ یَنْطِقُ بَیْنَنَا
یہ اﷲتعالیٰ کی کتاب ہمارے درمیان اعلان فرمارہی ہے کہ
لَیْسَ الشَّھِےْدُ بِمَیِّتٍ لَایَکْذِبُ
شہید مردہ نہیں ہوتا ،یہ فرمان بلاشبہ سچا ہے۔
راوی کا بیان ہے کہ حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ یہ اشعار پڑھ کر رو پڑے
اور فرمایا ابو عبدالرحمن ﴿عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ ﴾نے بالکل سچ فرمایا
اور مجھے نصیحت کی ۔
اللہ اکبرکبیرا!کیا مقام تھا ان لوگوں کے ہاںجہاد کا ...فضیل بن عیاض رحمہ
اللہ کو ئی چھوٹے آدمی تو نہ تھے ،اپنے زمانے کے صف اول کے عابد اور زاھد
اورحرمین شریفین کو اپنی عبادت اور آہ وزاری سے آباد رکھنے والے ۔لیکن ایک
مرد قلندر کے ’’جذبہ جہاد ‘‘اور’’ دعوت جہاد ‘‘ کو کس انداز سے دادتحسین دے
رہے ہیں۔
اور پھر خود حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ’’جہادی ذوق‘‘اور ’’جہادی
نظریہ‘‘ان کے ان اشعار سے خوب خوب واضح ہو رہا ہے ،جہاد اور دیگر عبادات
وریاضات کے باہمی تقابل اور پُراثر تحریض علی القتال کا جو حسین نقشہ آپ
رحمہ اللہ نے کھینچا ہے،شاید ہی کوئی اور اسکی مثال پیش کرسکے ۔
غور فرمائیں !حرمین شریفین کی عبادت ہو،اور عبادت کرنے والا بھی کوئی عام
آدمی نہیں ’’فضیل بن عیاض رحمہ اللہ جیسا عابد الحرمین ہو،اورپھر اس کی اس
عبادت کو ’’جہاد‘‘کے مقابلے میں ’’کھیل کود‘‘قرار دیاجائے ،یہ کام صرف وہی
شخص کرسکتا ہے جس کا ’’جہادی نظریہ ‘‘پختہ ہو اور وہ قرآن وسنت کے ’’جہادی
مزاج ‘‘سے آشنا ہو ...ورنہ جو لوگ جہاد کی حقیقت کو نہیں سمجھتے اور جہاد
کے بارے میں قرآن کے مزاج کو نہیں سمجھتے ،وہ تو اکثر اسی کو شش میں لگے
رہتے ہیں کہ کسی طرح اپنی ہر چھوٹی موٹی دینی خدمت کو جہاد ،بلکہ ’’جہاد
اکبر ‘‘قرار دے کر اصلی جہاد سے جان چھڑالیں،جہاد کے لغوی معنی لے کر ہر
’’جدوجہد ‘‘کو جہاد شرعی کا درجہ دینا اور پھر اسی پر مطمئن ہو کر ’’حقیقی
جہاد‘‘سے روگردانی کرنا بلکہ دوسروں کو بھی روکنا ،یہ وہ خطر ناک کینسر ہے
جو ’’امت مسلمہ ‘‘ کے اکثر بدن میں سرایت کرچکا ہے،عوام تو عوام ،خواص بھی
اس مرض کا شکار ہوچکے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ پر
کہ انہوں نے امت کے علمائ و مشائخ کیلئے بہترین نمونہ چھوڑا ہے۔ذرا اندازہ
کیجئے !کہ حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ جیسے جلیل القدر امام، حرمین
شریفین کی عبادت کو جہاد کے مقابلے میں محض ایک کھیل سمجھ رہے ہیں ...آخر
کیوں؟...صرف اس لئے کہ انہوں نے جہاد کو قرآن سے سمجھا اور پھر قرآن کے
مزاج میں خود کو رنگنے کی کوشش کی ، کیونکہ قرآن اعلان فرمارہا ہے۔
’’کیا تم نے حاجیوں کا پانی پلانااور مسجد حرام کاآبادکرنا اس کے برابر
کردیا جو اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اللہ تعالیٰ کی
راہ میں لڑا اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ برابرنہیں ہیں اور اللہ تعالیٰ ظالم
لوگوں کو راستہ نہیں دکھاتا۔ ﴿التوبہ19/﴾
حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
یعنی حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد حرام کا ظاہری طور پر بسانا ،ایمان
باللہ اور جہاد فی سبیل اللہ میں سے کسی ایک کے برابر عمل نہیں ہوسکتا افضل
ہو نا تو کجا؟﴿یعنی افضل ہونا تو دور کی بات ہے﴾﴿فتح الجواد ص ۲۳۴ ج۲﴾
صاحب فتح الجواد حفظہ اللہ رقمطراز ہیں:
پچھلی آیت میں یہ سبق تھا کہ مجاہدین مساجد کی تعمیر کریں ،انہیں آباد
رکھیں اور ان کی حفاظت و تطہیر کریں یہ ان کی لازمی ذمہ داری ہے ....اور اس
آیت میں یہ سبق ہے کہ مساجد کی آبادی حتیٰ کہ مسجد الحرام کعبہ شریف کی
آبادی اور خدمت بھی جہاد فی سبیل اللہ کے برابر نہیں ہے....دراصل حاجیوں
کوپانی پلانا اور مسجد حرام کی تعمیروخدمت کرنا ایسے اعمال ہیں جن میں بے
حد روحانی کشش ہے ،اس لئے کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان انہیں میں مشغول ہو کر
جہاد سے منہ موڑ لیں ،یہ کام بھی مسلمانوں نے خود ہی کرنے ہیں مگرساتھ ساتھ
انہوں نے فریضہ جہاد کو بھی زندہ رکھنا ہے ،اور جہاد ان کاموں سے افضل ہے
۔حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے غالباً اسی آیت کے مفہوم کو سامنے رکھ
کر عابد الحرمین حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کو وہ اشعار لکھے جو مشہور
عالم ہیں۔
یَا عَابِدَ الْحَرَمَیْنِ لَوْ اَبْصَرْتَنَا
لَعَلِمْتَ اَنَّکَ فِی الْعِبَادَۃِ تَلْعَبُ
حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ نے بھی ان کے اس دعوے کی تصدیق فرمائی کہ جہاد
فی سبیل اللہ بے شک زیادہ فضیلت والاعمل ہے ،واللہ اعلم بالصواب﴿فتح الجواد
ص۳۳۴ ج۲﴾
یہ تو صرف ایک شعر کا حال ہے ،اگر حضرت رحمہ اللہ کے تمام اشعار کو کھولا
جائے اور ان کی توضیح و تشریح کی جائے تو دعوت جہاد اور نظر یہ جہاد کا
اچھا خاصہ مواد میسر آجائے ،کیونکہ آپ رحمہ اللہ جہاں میدان جہادکے شہسوار
تھے وہیں میدان علم کے بھی امام تھے اسلئے آپ رحمہ اللہ کی ہر بات جہاں ایک
طرف سند کی حیثیت رکھتی ہے وہیں دوسری طرف اپنے پس منظر میں قرآن وسنت کی
مضبوط بنیاد بھی رکھتی ہے۔
اے کاش!کہ اب بھی کوئی’’ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ ‘‘ہواکرے۔ |
|