1856 ءمیں روہیل کھنڈ بریلی کی
علمی و ادبی فضا میں ایک پھول کھلا جس سے مشام علم و ادب معطر و معنبر ہو
گئی امام احمد رضا محدث بریلوی اُفق علم و ادب پر مہر درخشاں بن کر جلوہ
بار ہوئے۔ ابر کرم بن کر گلستانِ ادب پر برسے اور اس کشتِ لالہ زار کو مزید
حسن و زینت بخشی ۔ وہ عالم فاضل ، مفتی ، محقق سائنس داں ، ریاضی داں ،
ماہر نجوم و فلکیات و ہیئت تھے اور ساتھ ساتھ صاحب طرز ادیب و باکمال شاعر
بھی ۔ اس بات پر اُن کے نثری جواہر پارے نیز نعتیہ دیوان ” حدائق بخشش “
شاہد عدل ہیں ۔ اُن کی حیات کے ہر ہر گوشے پر محققین تحقیق میں مصروف ہیں ۔
کئی تحقیقاتی ادارے اکیڈمک طرز پر فروغ رضویات کی خدمت انجام دے رہے ہیں ۔
یہاں ہم رضا بریلوی کے دیوان سے ایک قصیدہ ”قصیدہ معراجیہ “ پر مختصر تبصرہ
کریں گے ۔
دبستان لکھنو کے عظیم نعت گو شاعر سیّد محمد محسن کاکوروی مرحوم ( م ۲۲ 13
ھ / 1905 ء) امام احمد رضا سے ملنے بریلی گئے ۔ محسن کاکوروی اپنا لکھا ہوا
ایک قصیدہ معراج سنانا چاہتے تھے جو دُنیائے شعر و ادب میں ” قصیدہ لامیہ ‘
سے معروف و مشہور ہے ۔ ظہر کے وقت چند اشعار سنائے ، طے ہو اکہ نماز عصر کے
بعد محسن کا قصیدہ سنا جائے گا ۔ رضا بریلوی نے نمازِ عصر سے قبل ہی ایک
عظیم الشان قصیدہ معراجیہ تحریر فرمایا ۔ عصر بعد محسن سے فرمایا پہلے میرا
قصیدہ سن لو ۔ جب محسن کاکوروی نے رضا بریلوی کا 67 اشعار پر مشتمل قصیدہ
سنا تو اپنا قصیدہ لپیٹ کر جیب میں ڈال لیا اور کہا کہ ” مولانا آپ کے
قصیدے کے بعد مَیں اپنا قصیدہ نہیں سنا سکتا ۔ “
قصیدہ کیا ہے ، ایک برستا جھرنا ہے جو اپنی پوری آب و تاب اور نغمگی کے
ساتھ بر س رہا ہے ۔ ایک کیف آور اور وجد آفریں نغمہ ، تشبیہات و تلمیحات
اور نادر تراکیب و بندش کا مرقع ہے ۔ برجستگی ، شگفتگی ، سلیقہ مندی و خوش
اسلوبی اور سلاست و روانی کا عظیم شاہکار ہے ۔ عارفانہ و عالمانہ نکات کا
حامل اور کمالات شعر و سخن سے لب ریز اس قصیدے کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ۔
وہ سرورِ کشورِ رسالت جو عرش پر جلو ہ گر ہوئے تھے
نئے نرالے طرب کے سامان عرب کے مہمان کیلئے تھے
بہار ہے شادیاں مبارک چمن کو آبادیاں مبارک
ملک فلک اپنی اپنی لے میں یہ گھر عنادل کا بولتے تھے
وہاں فلک پر یہاں زمیں میں رچی تھی شادی مچی تھی دھوم میں
اُدھر سے انوار ہنستے آئے اِدھر سے نفحات اُٹھ رہے تھے
حضرت محدث اعظم ہندکچھوچھوی علیہ الرحمہ نے لکھنو کے استاذ شعراءکی مجلس
میں جب اس قصیدہ کو سنایا تو سب پر وجد کی کیفیت طاری ہو گئی اور یہ قصیدہ
ختم ہوتے ہی سب نے بیک زباں ہو کر کہا کہ ” اس کی زبان تو کوثر و تسنیم سے
دُھلی معلوم ہوتی ہے ۔ “ ماہر رضویات ڈاکٹر عبدالنعیم عزیز رقمطراز ہیں ”
یہ نظم موسیقیت اور شاعرانہ نکتہ سنجی کا مرقع ہے ۔ باوجود متبحر عالم دین
ہونے کے رضا نے کمال کرب کے ذکر میں قرآن و حدیث کے الفاظ کے استعمال
یااقتباسات کے ساتھ ریاضی کی اصطلاحات پر مبنی شعر کہے ہیں ۔ تاکہ اِس نازک
مضمون کو نبھا بھی سکیں اور شرعی پاس و وقار بھی برقرار رہے اور قارئین کو
معانی کی بھول بھلیوں میں گم نہ کر کے اُن کے اذہان میں مضمون کو بآسانی
اُتار بھی سکیں ۔
محیط و مرکز میں فرق مشکل رہے نہ فاصل خطوط واصل
کمانیں حیرت میں سر جھکائے عجیب چکر میں دائرے تھے
کمان امکاں کے جھوٹے نقطو تم اوّل آخر کے پھیر میں ہو
محیط کی چال سے تو پوچھو کدھر سے آئے کدھر گئے تھے
(امام احمد رضا اور محسن و امیر ، از : ڈاکٹر عزیزص 13)
اس قصیدہ میں جہاں عصری علوم کی تراکیب و اصلاحات کا استعمال کیا گیا ہے
وہیں دینی عقائد اور اصلاحات کی ترجمانی بھی کی گئی ہے ، کہیں عقیدہ ختم
نبوت کا بیان ہے تو کہیں حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان
اولیت کا ذکر ، کہیں رسول عظم صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت اور نورانیت کا
ذکر ہے تو کہیں خدائے بزرگ و برتر کی قدرت اور شانِ بے نیازی کا بیان ہے ۔
نماز اقصیٰ میں تھا یہی سر عیاں ہو معنیِ اول آخر
کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے
وہی ہے اول وہی ہے آخر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر
اُسی کے جلوے اسی سے ملنے اُسی سے اُسکی طرف گئے تھے
تبارک اللہ شان تیری تجھی کو زیبا ہے بے نیازی
کہیں تو وہ جوش لن ترانی کہیں تقاضاے وصال کے تھے
رضا بریلوی کے اِس قصیدہ میں منظر کشی بھی عجیب کیف و سرور کا علام پیدا
کردیتی ہے اور علم نجوم و فلکیات کی اصطلاحات اس قصیدہ کو چار چاند لگادیتی
ہیں ۔ اس نوع کے چند اشعار دیکھیں
یہ چھوٹ پڑتی تھی اُنکے رُخ کی کہ عرش تک چاندنی تھی چھٹکی
وہ رات کیا جگمگا رہی تھی جگہ جگہ نصب آئینے تھے
یہ جھوما میزابِ زر کا جھومر کہ آرہا کان پر ڈھلک کر
پھوہار برسی تو موتی جھڑ کر حطیم کی گود میں بھرے تھے
خدا ہی دے صبر جان پر غم دکھاﺅں کیوں کر تجھے وہ عالم
جب اُنکو جھرمٹ میں لے کے قدسی جناں کا دولہا بنا رہے تھے
ضیائیں کچھ عرش پر یہ آئیں کہ ساری قندیلیں جھلملائیں
حضورِ خورشید کیا چمکتے چراغ منہ اپنا دیکھتے تھے
اِسی طرح درج ذیل اشعار میں علم نجوم و فلکیات کی اصطلاحات کو استعمال کیا
گیا ہے ۔
وہ برج بطحا کا ماہ پارہ بہشت کی سیر کو سدھارا
چمک یہ تھا خلد کا ستارہ کہ اِس قمر کے قدم گئے تھے
خدا کی قدرت کہ چاند حق کے کروروں منزل میں جلوہ کر کے
ابھی نہ تاروں کی چھاﺅں بدلی کہ نور کے تڑکے آلئے تھے
الغر ض اگر باریک بینی سے کوئی ادب شناس اس علمی و ادبی شہ پارے کا فنی و
ادبی جائزہ لے تو نئے گوشے اور نئے جلوے سامنے آئیں گے ۔ بقول احسن
العلماءعلامہ سیّد محمد حسن میاں برکاتی مارہروی علیہ الرحمہ ” محدث بریلوی
کے ایک ایک شعر پر ڈاکٹریٹ کیا جا سکتا ہے ۔ “ (فکر رضا کے جلوے ، از :
توفیق احسن برکاتی ٬ ص۳۳ ، ممبئی )
اِس بے مثال و بے نظیر قصیدے کے اختتام پر رضا بریلوی کس شان عاجزی و غلامی
سے سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں رحمت سے حصہ طلب
کررہے ہیں ۔ اِس عدیم المثال قصیدہ کے تعلق سے وضاحت بھی کرتے ہیں کہ نہ
مجھے شاعری کی ہوس و شوق ہے نہ اس بات کی پرواہ کہ اس میں کس شان و کمال
علمی سے ردیف و قافیے اور تراکیب و استعمارات و محاورات کا استعمال کیا گیا
ہے کہ پوری دُنیائے ادب اس کی مثال لانے سے قاصر ہے ۔ یہ سب کچھ شہرت کے
لئے نہیں بلکہ ہمارا مقصود و مدعا صرف اور صرف بارگاہ رسول اعظم صلی اللہ
علیہ وسلم میں مقبولیت حاصل کرنا ہے اور یہ اشعار و ظیفہ کے طور پر رقم
ہوئے ہیں ۔ ملاحظہ ہو
نبی رحمت شفیع اُمت رضا پہ للہ ہو عنایت
اسے بھی ان خلعتوں سے حصہ جو خاص رحمت کے واں بٹے تھے
ثنائے سرکار ہے وظیفہ قبول سرکار ہے تمنا
نہ شاعری کی ہوس نہ پروا روی تھی کیا کیسے قافیے تھے |