ایک اُستاذ صاحب مَدْرسے میں حسبِ
معمول بچوں کو سبق پڑھا رہے تھے جن میں عِلمی گھرانے سے تَعَلُّق رکھنے
والا ایک مَدَنی مُنّا بھی شامل تھا ۔ اس کی ہر ہر ادا میں وَقار اورسلیقہ
تھا۔ نُورانی چہرہ اسکی قَلبی نُورانیت کی عَکَّاسی کر رہا تھا۔سُرمگیں
چمکتی ہوئی آنکھیں اسکی ذَہانت و فَطَانت کی خبر دے رہی تھیں۔ وہ بڑی
تَوَجُّہ سے اپناسبق پڑھ رہا تھا ۔ اتنے میں ایک بچے نے آکر سلام کیا ۔
اُستاذصاحب کے منہ سے نکل گیا: ''جیتے رہو۔''یہ سُن کر مَدَنی مُنّاچونکا
اور کچھ یوں عرض کی :''یااُستاذی! سلام کے جواب میں تو وَعَلَیْکُمُ
السُّلَام کہنا چاہيے!''استاذصاحب کَمْسِن مُبَلِّغ کی زبان سے اِصلاحی
جملہ سن کر ناراض نہ ہوئے بلکہ خیرخواہی کرنے پر خوشی کا اِظہار فرمایا
اوراپنے اس ہونہار شاگرد کو ڈھیروں دعائیں دی۔
( ملخصاَحیات اعلیٰ حضرت ،ج۱، ص۶۳)
کَمْسِن مُبَلِّغ کون تھا؟
پیارے بھائیو!آپ جانتے ہیں وہ کَمْسِن مبلغ کون تھا؟ وہ چودھویں صدی ہجری
کے مجدّدِدین وملت، اعلٰیحضرت ، اِمامِ اَہلسنّت ، عظیمُ البَرَکت، عَظِیمُ
المَرْتَبت، پروانۂ شمعِ رِسالت ، مُجَدِّدِ دِین ومِلَّت، حضرتِ علَّامہ
مولٰینا الحاج الحافظ القاری شاہ امام احمد رَضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن تھے
۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی وِلادت باسعادت بریلی شریف (ہند)کے مَحَلّہ
جَسولی میں ۱۰ شَوَّالُ الْمُکَرَّم ۱۲۷۲ھ بروز ہفتہ بوقتِ ظہر مطابِق 14
جون 1856ء کو ہوئی۔اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت نے صرف تیرہ
سال دس ماہ چار دن کی عمر میں تمام مُروَّجہ عُلُوم کی تکمیل اپنے والدِ
ماجد رئیسُ المُتَکَلِّمِین حضرت مولانا نقی علی خان علیہ رحمۃ المنّان سے
کرکے سَنَدِفراغت حاصل کرلی۔ اُسی دن آپ نے ایک سُوال کے جواب میں پہلا
فتویٰ تحریر فرمایا تھا۔ فتویٰ صحیح پا کر آپ کے والدِ ماجد نے مَسندِ
اِفتاء آپ کے سپرد کردی اور آخر وقت تک فتاویٰ تحریر فرماتے رہے۔یوں توآپ
رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ۱۲۸۶ھ سے ۱۳۴۰ھ تک لاکھوں فتوے لکھے، لیکن
افسوس! سب کو نَقل نہ کیا جاسکا۔جو نَقل کرلیے گئے تھے ان کا نام ''
اَلْعَطَایَا النَّبَوِیَّۃ فِی الْفَتَاوَی الرَّضَوِیَّۃِ '' رکھا گیا ۔
ہر فتوے میں دلائل کا سمندر موجزن ہے۔فتاوٰی رضویہ (غیر مخرجہ )کی 12اور
تخریج شدہ کی 30جِلدیں ہیں۔یہ غالباً اُردو زبان میں دنیا کا ضَخیم ترین
مجموعۂ فتاویٰ ہے جو کہ تقریباً بائیس ہزار(22000)صَفَحات، چھ ہزار آٹھ سو
سینتا لیس (6847) سُوالات کے جوابات اور دو سو چھ (206)رسائل پر مُشتَمِل
ہے۔ جبکہ ہزارہا مسائل ضِمناً زیرِ بَحث آ ئے ہیں۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
55سے زائد عُلُوم پر عُبُور رکھنے والے ایسےماہرعالم تھے کہ درجنوں علومِ
عقلیہ ونقلیہ پر آپ کی سینکڑوں تصانیف موجود ہیں، ہرتصنیف میں آپ کی علمی
وجاہت،فقہی مُہارت اور تحقیقی بصیرت کے جلوے دکھائی دیتے ہیں ، بالخصوص
فتاوٰی رضویہ توغَوَّاصِ بحرِفِقہ کے لئے آکسیجن کا کام دیتا ہے ۔آپ
رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے قرآنِ مجید کا ترجَمہ کیاجو اُردو کے موجودہ تراجم
میں سب پر فائِق ہے۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ترجَمہ کا نام ''کنزُالایمان''
ہے ۔جس پر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلیفہ صدر الافاضل مولانا سَیِّد
نعیم الدین مُراد آبادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حاشیہ خزائن العِرفان
لکھا ہے۔۲۵صفَر الْمُظَفَّر۱۳۴۰ھ بمطابق ۱۹۲۱ء کوجُمُعَۃُ الْمبارَک کے
دن ہندوستان کے وقت کے مطابق ۲ بج کر ۳۸ منٹ پر،عین اذان کے وقت اِدھر
مُؤَذِّن نے حَیَّ عَلَی الفَلاح کہا اور اُدھر اِمامِ اَہلسُنَّت ،
مُجَدِّدِ دین ومِلّت، عالِمِ شَرِیْعَت، پیرِطریقت، حضرتِ علامہ مولٰینا
الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رَضا خان علیہ رحمۃ الرحمن نے داعئی
اَجل کو لبیک کہا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مزارِپُراَنوار بریلی شریف
(ہند)میں آج بھی زیارت گاہِ خاص و عام بنا ہوا ہے۔
اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت حافظ ِ قراٰن، فقہیہ، مفتی،
محدث ،مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ دینِ اسلام کے عظیم مبلِّغ بھی تھے ۔ آپ رحمۃ
اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی تحریروتقریر میں جابجا نیکی کی دعوت پیش کی
ہے۔یقینا نیکی کی دعوت کے کام میں اِنفرادی کوشش کو بڑا عمل دَخل ہے حتّٰی
کہ ہمارے میٹھے میٹھے آقا،مدینےوالے مصطَفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ
وسلم نیز سب کے سب اَنبیاءِ کرام علیہم الصلوۃ والسلام نے نیکی کی دعوت کے
کام میں اِنفرادی کوشش فرمائی ہے۔ہمیں بھی چاہے کہ انفرادی کوشِش کے
ذَرِیعے خوب خوب نیکی کی دعوت دیتے جائیں اور ثواب کا خزانہ لوٹتے جائیں۔
ایک بار اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت نَماز کے بعد دہلی (ھند)
کی ایک مسجدمیں مشغولِ وظیفہ تھے ۔ ایک صاحب آئے اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ
علیہ کے قریب ہی نماز پڑھنے لگے۔جب تک قیام میں رہے مسجد کی دیوار کو
دیکھتے رہے ،رُکوع میں بھی سر اوپر اٹھاکر سامنے دیوارِ ہی کی طرف نظر رکھی
۔جب وہ نماز سے فارِغ ہوئے تواس وقت تک اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ
الْعِزَّت بھی اپنا وظیفہ مکمل کر چکے تھے ۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے
انہیں اپنے پاس بلاکر شرعی مسئلہ سمجھایا کہ ''نماز میں کس کس حالت میں
کہاں کہاں نگاہ ہونی چاہے۔ ''پھر فرمایا:''بحالتِ رُکوع نگاہ پاؤں پرہونی
چاہیے ۔''یہ سنتے ہی وہ صاحب قابوسے باہر ہوگئے اورکہنے لگے:'' واہ صاحب!
بڑے مولانا بنتے ہو، نماز میں قبلہ کی طرف منہ ہونا ضروری ہے اور تم میرا
منہ قبلہ سے پھیرناچاہتے ہو!''یہ سن کراعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ
الْعِزَّت نے ان کی سمجھ کے مطابق کلام کرتے ہوئے فرمایا:''پھر تو سجدہ میں
بھی پیشانی کے بجائے ٹھوڑی زمین پر لگائيے!''یہ حکمت بھراجملہ سن کر وہ
بالکل خاموش ہوگئے اوران کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ '' قبلہ رُو ہونے کا
مطلب یہ نہیں کہ اوّل تا آخرقبلہ کی طرف منہ کرکے دیوار کو دیکھا جائے ،بلکہ
صحیح مسئلہ وہی ہے جو اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت نے بیان
فرمایا۔ (حیات اعلی حضرت ،ج۱،ص۳۰۳)
مَقُولہ مشہور ہے : '' کَلِّمُواالنَّاسَ عَلٰی قَدْرِ عُقُوْلِہِمْ (یعنی
لوگوں سے ان کی عقلو ں کے مطابق کلام کرو ) (ابجد العلوم ،ج ۱،ص ۱۲۹)
آپ نے دیکھا کہ اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت نے ایک عام شخص
سے اس کی عَقْل کے مطابق کلام کیا تو آپ کی زبان سے نکلے ہوئے حکمت بھرے
ایک جملے نے بَرسَهَابرَس سے نماز میں غَلَطی کر نے والے کی لمحہ بھر میں
اِصلاح فرما دی۔
اللہ عَزّوَجَلَّ کی اعلٰی حضرت پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری مغفِرت
ہو
اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم
صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ا مجد علی اعظمی علیہ
رحمۃاللہ القوی نے علومِ دینیہ کی تکمیل کے بعد کچھ عرصہ تدریس فرمائی۔پھر
بعض وجوہات کی بنا پر تدریس چھوڑ کر مَطَب(یعنی کلینک) شروع کر دیا (کیونکہ
آپ حکیم بھی تھے)۔ذریعۂ مَعَاش سے مطمئن ہوکر جُمادَی الاُولیٰ ۱۳۲۹ھ میں
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کسی کام سے'' لکھنؤ ''تشریف لے گئے۔وہاں سے اپنے
اُستاذِ محترم حضرت مولاناشاہ وَصِی احمد مُحَدِّث سُورتی علیہ رحمۃ اللہ
القوی کی خدمت میں ''پیلی بھیت'' حاضر ہوئے ۔ حضرت محدث سورتی علیہ رحمۃ
اللہ القوی کو جب معلوم ہوا کہ ان کا ہونہار شاگرد تدریس چھوڑکر مطب میں
مشغول ہوگیا ہے تو انہیں بے حد افسوس ہوا۔چُونکہ صدرُ الشَّریعہ علیہ رحمۃُ
ر بِّ الورٰی کا ارادہ بریلی شریف حاضِر ہونے کا بھی تھا چُنانچِہ بریلی
شریف جاتے وقت مُحدِّث سُورَتی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے ایک خط اِس مضمون
کا اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت کی خدمت میں تحریر فرمادیا
تھا کہ'' جس طرح ممکن ہو آپ اِن (یعنی صدرُ الشریعہ ، بدرالطریقہ مفتی محمد
امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ الغنی) کو خدمتِ دین وعلمِ دین کی طرف
مُتوجِّہ کیجئے۔''
جب اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت کے درِ دولت پر حاضِری ہوئی
توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نہایت لطف وکرم سے پیش آئے اور دریافت
فرمایا:مولانا کیا کرتے ہیں؟میں نے عرض کی: مَطَب کرتا ہوں ۔اعلیٰ حضرت
عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت نے فرمایا :''مطب بھی اچھا کام ہے
،اَلْعِلْمُ عِلْمَانِ عِلْمُ الْاَدْیَانِ وَعِلْمُ الْاَبْدَان (یعنی علم
دو ہیں؛علمِ دین اور علمِ طبّ )، مگر مطب کرنے میں یہ خرابی ہے کہ صبح صبح
قارُورہ (یعنی پیشاب)دیکھنا پڑتا ہے۔''ولی کامل کے لبہائے مبارکہ سے نکلا
ہوا یہ جملہ اپنے اندر ایسی رُوحانیت لئے ہوئے تھا کہ صدر الشریعہ رحمۃاللہ
تعالی ٰ علیہ کے دل سے طِبابَت(یعنی علاج معالجے کے پیشے) کاخیال جاتارہا۔
پھرمطب چھوڑااوراعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت جیسے عظیم
رُوحانی طبیب کی زیر نگرانی بریلی شریف ہی میں رہ کر دینی کاموں میں مصروف
ہوگئے اور علمِ دین کی اِشاعت کے ذریعے لوگوں کا رُوحانی علاج کرنے لگے ۔
لئے بیٹھا تھا عشقِ مصطفےٰ کی آگ سینے میں
ولایت کا جبیں پر نقش ، دل میں نو ر وحد ت کا
(تذکرۂ صدر الشریعہ، ص ۱۲،مُلخصًّا)
پیارے بھائیو! اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت کی اِنفرادی
کوشش کے نتیجے میں دوبارہ علمِ دین کے شعبے سے وابستہ ہونے والے صدر
الشریعہ علیہ رحمۃُ ربِّ الوَرٰی وہی ہستی ہیں جنہوں نے مسلمانانِ پاک وہند
کو اُردو زبان میں ''بہارِ شریعت ''جیسا علمی خزانہ عطا کیا ۔''بہارِ شریعت
'' فقۂ حنفی کا بہترین اِنسائیکلوپِیڈیا (یعنی معلوماتی مجموعہ)ہے ۔
سَجَّادہ نشیں سرکار کلاں مارہرہ شریف حضرت مہدی حَسَن میاں رحمۃ اللہ
تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :'' میں جب بریلی شریف آتا تو اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ
رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت خود کھانا لاتے اور ہاتھ دُھلاتے ۔ایک مرتبہ میں نے
سونے کی انگوٹھی اور چھلے پہنے ہوئے تھے، حسب ِدَستور جب ہاتھ دُھلوانے لگے
تو فرمایا : '' شہزادہ حضور!یہ انگوٹھی اور چھَلّے مجھے دے دیجئے!''میں نے
اُتار کر دے دئيے اور بمبئی چلاگیا۔بمبئی سے مارہرہ شریف واپس آیا تو میری
لڑکی فاطمہ نے کہا: ''اباحضور ! بریلی شریف کے مولانا صاحب (یعنی اعلیٰ
حضرت قدس سرہ)کے یہاں سے پارسل آیا تھا ،جس میں چھلے انگوٹھی اورایک خط تھا
جس میں یہ لکھاتھا : ''شہزادی صاحبہ یہ دونوں طلائی اشیاء آپ کی ہیں
(کیونکہ مَردوں کو ان کا پہننا جائز نہیں)۔''(حیات اعلی حضرت،ج ۱،ص۱۰۵)
سبحٰن اللہ عَزّوَجَلَّ! کیسا پیارا اندازِ تبلیغ تھا مجدد ِ دین و ملت
،سرکار اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت کا۔اللہ عَزَّوَجَلَّ
ہمیں بھی اسلا م کی سربلندی کی خاطر حکمت ودانائی کے سا تھ بڑے ہی اَحسن
انداز میں خوب خوب نیکی کی دعوت عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ
ا لنبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم
شہا ایسا جذبہ پاؤں کہ میں خوب سیکھ جاؤں
تیری سنتیں سکھانا مَدَنی مدینے والے
اللہ عَزّوَجَلَّ کی اعلٰی حضرت پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری مغفِرت
ہو
اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم
حضرتِ مولانا نُور محمد علیہ رحمۃُاللہِ الصَّمَد اور حضرت مولانا سیِّد
قَنَاعت علی علیہ رحمۃُاللہِ القَوِی یہ دونوں حضرات،مجددِ دین وملت، اعلیٰ
حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت جیسے سچے عاشقِ رسول کی صحبتِ بابرکت
میں رہ کر علمِ دین کی دولتِ بے بہا حاصل کر رہے تھے ۔ ایک مرتبہ مولانا
نور محمد رحمۃاللہ علیہ نے سید صاحب کا نام لے کر اس طرح پکارا :'' قناعت
علی ، قناعت علی ! '' جب سیِّدُالسَّادات علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عاشقِ
صادِق کے کانوں میں یہ آواز پڑی تو گوارانہ کیا کہ خاندانِ رسول کے شہزادے
کو اس طرح نام لے کر پکارا جائے ۔ فوراََ مولانانُور محمد صاحب کوبلوایا
اوراِنفرادی کوشش کرتے ہوئے فرمایا: ''کیاسیِّد زادوں کو اس طرح پکارتے ہیں
! کبھی مجھے بھی اس طرح پکارتے ہوئے سنا؟ (یعنی میں تو استاذ ہوں پھر بھی
کبھی ایسا انداز اختیار نہیں کیا)''
یہ سن کرمولانانورمحمد صاحب بہت شرمندہ ہوئے اور ندامت سے نگاہیں جھکا لیں
۔ اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت نے فرمایا: ''جائيے ! آئندہ
خیال رکھئے گا۔'' (حیاتِ اعلیٰ حضرت،ج۱،ص۱۸۳)
اللہ عَزّوَجَلَّ کی اعلٰی حضرت پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری مغفِرت
ہو
اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم |