پاکستان کے ”چانکیہ مہا راج“
(M. Ibrahim Khan, Karachi)
ہم بھی کیا سادہ ہیں۔ محترم وزیر
داخلہ کو پورس کے ہاتھیوں میں شمار کر بیٹھے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ رحمٰن
ملک صرف اپنوں پر قیامت ڈھا سکتے ہیں، مگر اُنہوں نے اپنی سالگرہ پر تاج
محل دیکھنے کے بہانے آگرہ جانے کی بات کرکے نئی دہلی جاکر بہت کچھ اِتنی
خوب صورتی سے پلٹ دیا کہ لاکھ عدم خواہش (!) کے باوجود ہم داد دیئے بغیر نہ
رہ سکے۔ ثابت ہوا کہ وہ ایسی بندوق ہیں جس سے گولی ہی نہیں، گولا بھی داغا
جاسکتا ہے!
رحمٰن ملک نے بھارت کا دو روزہ دورہ ایسی خوب صورتی سے کیا کہ دونوں طرف کے
میڈیا والے حیران، بلکہ پریشان رہ گئے۔ موصوف کو بیان دینا اور پھر اُس سے
پلٹ جانا خوب آتا ہے۔ قدر ناشناسی دیکھیے کہ پاکستان میں اِس ہُنر کو صرف
تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اپنی بات سے مُکر جانے کو بھارت میں چانکیہ
نیتی سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے۔ چانکیہ قدیم بھارت کا ایک دانشور اور
حکمرانی کے طور طریقوں میں غیر معمولی مہارت رکھنے والا نابغہ تھا۔ چانکیہ
کے وجود پر بھارت کو ہمیشہ ناز رہا ہے اور ہم ہر ہزیمت کے بعد ”چانکیہ نیتی“
کا رونا روتے آئے ہیں مگر اب پتہ چلا کہ قدرت نے ہمیں بھی، حسب ضرورت، ایک
چانکیہ مہا راج سے نوازا ہے! رحمٰن ملک نے بھارت میں اِتنے بیانات داغے اور
پھر اِس قدر تیزی سے اپنی بات سے پلٹ بھی گئے کہ بھارتی میڈیا کے لوگ اُن
کا مُنہ ہی تکتے رہ گئے۔ پہلے اُنہوں نے کہا کہ ممبئی حملوں اور بابری مسجد
کی شہادت کو ایک ہی عینک سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اور پھر کہہ دیا کہ اُن کے
بیان کو مسخ کرکے پیش کیا گیا ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ اب اُن کی کسی بھی بات
کو مسخ کرنے کی گنجائش کہاں رہی ہے!
بھارت نے ممبئی حملوں کا معاملہ اُٹھایا تو رحمٰن ملک سمجھوتہ ایکسپریس کے
سانحے کو دوبارہ ٹریک پر لے آئے! ایسے میں بھارت کے پاس بیک ٹریک کے سوا
کوئی راہ نہ بچی! جب بھارت نے کالعدم لشکر طیبہ کا معاملہ چھیڑا تو رحمٰن
ملک نے بلوچستان کی سنگلاخ زمین کو مزید سنگلاخ بنانے کی بھارتی کوششوں پر
روشنی ڈالنا شروع کیا! بلوچستان کا باب کُھلتا دیکھا تو بھارتی میڈیا نے
گھبراہٹ میں رحمٰن ملک پر بیان دیکر پلٹ جانے کا الزام عائد کیا۔ مگر صاحب،
یہ تو بھارت کا پُرانا وتیرہ ہے۔ اگر رحمٰن ملک نے جیسا دیس ویسا بھیس والی
سوچ اپنائی تو حیرت کیسی؟
بات بیانات تک رہتی تو کوئی بات نہ تھی۔ رحمٰن ملک گئے تو تھے مہمان بن کے
مگر اپنے میزبان یعنی بھارتی ہم منصب سُشیل کمار شِندے کے لیے ان گنت
مشکلات چھوڑ کر چلے آئے۔ شِندے جی نے پاکستانی ہم منصب کے دورے کے بعد
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو بریفنگ دی تو منتخب ارکان خود اُن کو بریفنگ
دینے پر تُل گئے!
رحمٰن ملک کے ساتھ دو دن کیا گزارے کہ شِندے جی بھارت کی روایتی سیاست یعنی
چانکیہ نیتی ہی بھول گئے! ہوا یہ کہ جب رحمٰن ملک کے دورے اور بات چیت کے
بارے میں منتخب ارکان کو بریفنگ دینے کا وقت آیا تو شِندے جی نے پہلے ایوان
زیریں لوک سبھا اور اس کے بعد ایوان بالا راجیہ سبھا میں بیانات دیئے۔
دونوں ایوانوں میں اُنہوں نے کالعدم لشکر طیبہ کے سابق اور جماعت الدعوة کے
موجودہ سربراہ حافظ سعید کو انگریزی میں ”مسٹر“ اور ہندی میں ”شری“ کہا۔
کسی ناپسندیدہ پاکستانی کو بھارتی پارلیمنٹ میں مسٹر یا شری کہا جائے، یہ
انتہا پسند ہندوؤں سے بھلا کِس طور گوارا ہوسکتا تھا؟ وہ سب مل کر شِندے جی
پر برس پڑے۔ شِندے جی بھی کتنے سادہ ہیں۔ وہ اِتنی سی بات بھی یاد نہ رکھ
سکے کہ اُن کے ملک میں منتخب ایوانوں کی دال روٹی پاکستان کے خلاف بولنے پر
چل رہی ہے۔
پتہ نہیں رحمٰن ملک نے دو دن میں کیا پَٹّی پڑھائی کہ شِندے کو اپنے پُرانے
سبق یاد ہی نہ رہے۔ بھارتی وزیر داخلہ یاد ہی نہ رہا کہ اُن کے دیش میں راج
نیتی کا پہلا اُصول یہ ہے کہ پاکستان کی کِسی بھی شخصیت میں ہر حال میں
کیڑے نکالنے ہیں۔ اور پھر حافظ سعید؟ اُن سے تو بھارتی اپوزیشن کو خدا
واسطے کا بیر ہے۔ یعنی شِندے جی نے تو پوری بھارتی راج نیتی کی ساکھ ہی داؤ
پر لگادی! یہ تو بہت ہی بُری بات ہے۔ ایسے میں اُن کی وزارت کا چلنا تو دور
کی بات ہے، خود بھارت کا چلنا دشوار ہو جائے گا! ناپسندیدہ پاکستانیوں کو
مسٹر اور شری کہنے سے تو بھارت کا پورا سیاسی ڈھانچا ہی دھڑام سے زمین پر آ
رہے گا!
بھارتی پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی کا کریڈٹ رحمٰن ملک کو جانا چاہیے جنہوں
نے اپنے مشہور زمانہ ”پلٹو“ بیانات سے ایسی دھما چوکڑی مچائی کہ بھارتی ہم
منصب کے لیے ایوان میں بولتے وقت حواس برقرار رکھنا دشوار ہوگیا۔ رحمٰن ملک
نئی دہلی گئے تو بیانات کے ذریعے پارلیمنٹ میں داخل، بلکہ دخیل ہوگئے اور
پھر بھارتی وزیر داخلہ کے حواس انٹا غفیل ہوگئے!
حافظ سعید کے معاملے پر بھارتی پارلیمنٹ میں جو ہنگامہ برپا ہوا وہ رحمٰن
ملک کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جب ایک رحمٰن ملک کے ہوتے ہمارا یہ
حال ہے تو ذرا سوچیے کہ اگر ہمارے پاس دو چار رحمٰن ملک ہوتے تو بھارتی
سیاست کی واٹ لگنے میں کِتنی آسانی ہوتی! |
|