کھانا ہے تو ٹھوک ڈال

ابھی کل تک کھانے کی تقسیم پر جو دھماچوکڑی مزارات کے ماحول کا خاصہ ہوا کرتی تھی وہ اب سیاسی جلسوں میں در آئی ہے۔ معاملہ دونوں جگہ مَنّت ہی کا ہے۔ جن کی مُراد پوری ہوتی ہے وہ مزاروں پر لنگر تقسیم کرواتے ہیں۔ اور سیاسی جلسوں میں بھی اہل سیاست مُن کی مُراد پانے ہی کے لیے بریانی کی دیگیں عوام کی نذر کرتے ہیں! فرق صرف یہ ہے کہ بابا کے نام پر لنگر مَن کی مُراد بَر آنے پر تقسیم کیا جاتا ہے اور سیاست دان ووٹرز کو بہلانے پُھسلانے کے لیے pre-emptive strike کے طور پر کھانا تقسیم کرواتے ہیں!

مزاروں پر لنگر کی تقسیم ہو یا سیاسی جلسوں کے اختتام پر کھانے کی بندر بانٹ، دونوں ہی معاملات میں لوگوں کا بھرپور جوش و خروش دیکھ کر خیال آتا ہے کہ کاش ہم ملک کو سنوارنے کے معاملے میں بھی ایسے ہی پُرجوش ہوا کرتے! توبہ ہے صاحب، ہم بھی کھانے پینے کے تذکرے میں کہاں ملک کو سنوارنے کی بات لے بیٹھے!

ہماری سیاست میں کھانا پینا کوئی نئی بات نہیں۔ ہر سیاست دان کھانے اور پینے میں ایسی مہارت رکھتا ہے کہ دنیا کے بہترین تربیت یافتہ آڈیٹرز بھی گڑبڑ کا سُراغ پانے میں ناکام رہتے ہیں! یہی کلچر اب سیاسی جلسوں میں آگیا ہے۔ پنجاب کے بیشتر سیاسی جلسوں میں شرکاءکے لیے کھانے کا اہتمام بھی کیا جانے لگا ہے۔ یہ سب کچھ بہت عجیب سا لگتا ہے۔ مگر پھر خیال آتا ہے کہ اب اِس ملک میں کسی بھی معاملے کو عجیب سمجھنا بجائے خود بہت عجیب بات ہے!

جلسوں کے آخر میں کھانے کی تقسیم بعض ایسے مناظر کو جنم دے رہی ہے جو ہمیں کچھ کچھ قیامت کی یاد دلاتے ہیں۔ لوگ جس طرح کھانے پر ٹوٹتے ہیں وہ منظر سیکیورٹی فورسز کے جوانوں کو بھی دکھایا جانا چاہیے تاکہ وہ دشمن کو زیر دام لانے کے نئے طریقے آسانی سے سیکھ سکیں! سیاست دان جلسوں میں کھانا تقسیم کرکے کون سا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، یہ اب تک معلوم نہیں ہوسکا۔ کیا وہ کھانے کی لوٹ مار دیکھ کر قومی خزانہ لوٹنے کے نئے طریقے سیکھنا چاہتے ہیں؟ یا اپنے طور طریقوں سے عوام کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں؟ ہم تو اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وسائل کی بندر بانٹ کے نتیجے میں خستہ حالی کو پہنچے ہوئے عوام سیاست دانوں اور متوقع حکمرانوں کو قومی خزانے پر شب خون مارنے کے نئے طریقے سِکھانے پر تُلے ہوئے ہیں! آپ سوچیں گے عوام کیا سکھائیں گے؟ بات یہ ہے کہ صاحب کہ جلسوں کے آخر میں کھانے کی تقسیم کے وقت ہڑبونگ سے کھانے کا خانہ خراب ہو جاتا ہے۔ اِس سے اہل سیاست کو یہ تحریک ملتی ہے کہ قومی خزانے کی بندر بانٹ کا وقت آئے تو ویسا کچھ نہیں کرنا جو عوام کرتے ہیں۔ اِس طرح تو کھانا کھایا کم جائے گا اور خراب زیادہ ہوگا۔ اچھا ہے کہ مفاہمت کی سیاست کے ذریعے حلوائی کی دکان پر فاتحہ ذرا ڈھنگ سے پڑھی جائے یعنی قومی خزانے کی دیگ کو بے ہنگم طریقے سے ٹھکانے لگانے کے بجائے طے شدہ حصوں کے مطابق کھایا جائے تاکہ کوئی ایک آدھ چھیچھڑا لگی بوٹی بھی ضائع نہ ہو!

ملک میں کون ہے جو کھانے پینے کا شوقین اور عادی نہیں۔ کھانے کو کچھ اور نہ ملے تو لوگ گھنٹوں ایک دوسرے کا دماغ چاٹتے رہتے ہیں! رات دن ساتھ اُٹھنے بیٹھنے والے موقع ملتے ہی ایک دوسرے کو چُونا لگانے سے نہیں چُوکتے! ہم من حیث القوم کھانے پینے میں مصروف ہیں اور وطن کو دیگ سمجھ رکھا ہے!

سیاسی جلسوں میں کوئی بریانی کا تَسلا لے بھاگتا ہے تو کوئی قورمے کی پوری ڈِش لے اُڑتا ہے۔ کوئی کوئی تو پوری دیگ اُٹھاکر چمپت ہو جاتا ہے! بعض منچلے تو بریانی سے بھرے ہوئے تَسلے اُٹھاکر درختوں پر چڑھ جاتے ہیں! یہ تمام مناظر دیکھ کر اب قوم کو مزاحیہ ڈرامے الگ سے دیکھنے کی ضرورت نہیں رہی! اِس سے بڑھیا کامیڈی کوئی کرکے تو دِکھائے۔

ہماری سیاست خاصی پژ مُردہ ہو چلی تھی۔ ایسے میں کوئی نیا ٹرینڈ درکار تھا۔ کھانا پینا سدا بہار ٹرینڈ ہے جو کبھی ختم ہوگا نہ چمک دمک ماند پڑے گی۔ اچھا ہے کہ کھانے کی تقسیم کے نام پر نیا ٹرینڈ متعارف ہوا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے تک سیاسی جلسوں میں کُرسیاں لے بھاگنے کا ٹرینڈ چل رہا تھا۔ سیاست دانوں کے لیے یہ خاصا حوصلہ شکن ٹرینڈ تھا اِس لیے اُن سے برداشت نہ ہوسکا۔ سیاست کی دنیا میں جو کچھ بھی آپا دھاپی اور مارا ماری ہوتی ہے وہ کُرسی کے حصول ہی کے لیے تو ہے! ہر سیاست دان کُرسی کا دیوان ہے۔ اگر کُرسیاں عوام لے بھاگیں تو؟ اہل سیاست شاید یہ چاہتے ہیں کہ اور سب کچھ ہو، عوام کُرسیوں کی طرف نہ آئیں! توجہ کرُسیوں سے ہٹانے کے لیے ہی عوام کو لنگر کی تقسیم کے مرحلے تک لایا جارہا ہے!

اِنسان کِس طرح زندہ رہتا ہے؟ کھا کر، ٹھیک ہے نا؟ پھر اگر لوگ کھانا دیکھ کر اپنے حواس پر قابو نہیں رکھ پاتے تو حیرت کی بات کیا ہے؟ آپ سوچیں گے کھانے پینے کی اشیاءسامنے پاکر حواس کھو بیٹھنا اِنسانیت کی توہین ہے، تحقیر ہے کیونکہ اپنے سامنے چارا دیکھ کر جانور بھی پاگل نہیں ہوتے۔ آپ کی رائے سے ہمارا متفق ہونا لازم نہیں۔ جانور اگر چارا دیکھ کر خوشی سے پاگل نہیں ہو جاتے تو اِس میں ہمارے لیے شرمندگی کا کوئی پہلو نہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جانوروں کے جذبات اور احساسات نہیں ہوا کرتے! اور اگر ہم بھی کھانے پینے کی اشیاءدیکھ کر جانوروں کی طرح اپنے حواس قابو میں رکھا کریں تو ہمارا شُمار بھی جانوروں ہی میں ہوا کرے گا! کھانا دیکھ کر پاگل ہو جانا خود کو جانوروں کے زُمرے میں شمار ہونے سے بچانے کی کوشش کے سِوا کچھ نہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 486470 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More