ڈرائی فروٹ؟ .... کیوں مذاق کرتے ہیں جناب

قدرت کی بخشی ہوئی نعمتوں کی ہم نے ایسی ناقدری کی ہے کہ جو ڈرائی فروٹ یعنی خشک میوے ہمیں آٹے دال کے بھاؤ پر مل جایا کرتے تھے وہ اب اِتنے مہنگے ہوگئے ہیں کہ دام سُن کر خون خشک ہونے لگتا ہے! دس پندرہ سال جس نرخ پر چلغوزے ملا کرتے تھے اُس سے تین گنا یا اِس سے بھی زائد نرخ پر اب بُھنے ہوئے چنے ملتے ہیں! اگر پاکستانی قوم نرخ ہوتی تو آج پتہ نہیں کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہوتی!

سُنا ہے چلغوزے بعض دیسی ادویہ میں استعمال ہوتے ہیں اِس لیے اِن کی قدر بڑھ گئی ہے۔ مگر صاحب! اب ایسی بھی کیا قدر دانی کہ چلغوزے کا دیدار کرنے کے بھی پیسے دینے پڑیں! صدر میں ایمپریس مارکیٹ کے سامنے سڑک پر چند خواتین ڈرائی فروٹ فروخت کرتی نظر آتی ہیں۔ معصوم بچوں کی نگہداشت کا فریضہ نبھانے والی اِن خواتین کی ہمت کو داد دیجیے کہ اچھے اچھوں کا بجٹ ٹکٹکی پر باندھنے والے اِس دور میں بھی عام آدمی کو ڈرائی فروٹ کے درشن تو کرا رہی ہیں! اِن خواتین ہی کی مہربانی سے ہم ڈرائی فروٹ کو اپنے قریب، بلکہ قدموں میں پاتے ہیں! یعنی چلتے چلتے رُکے، سُوکھے ہوئے پَھلوں اور پُھول جیسے بچوں پر ایک نظر ڈالیے اور اِس بات پر فخر کیجیے کہ ڈرائی فروٹ اِتنے نزدیک سے دیکھنے کا شرف حاصل کیا! دُکانوں میں تو یہ ڈرائی فروٹ شاندار شو کیسز میں اِس طرح رکھے ہوئے ہوتے ہیں کہ اِن کی طرف ایک نظر دیکھنے کے لیے چند لمحات تک سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں دیکھنے کے تو چارجز نہیں لئے جائیں گے! کیا خریدنے والے اور کیا بیچنے والے، سبھی ڈرائی فروٹ کے سامنے خود کو خاک چاٹنے کی پوزیشن میں پاتے ہیں! جس طرح کِسی جابر سلطان کے سامنے حق پر مبنی کوئی بات کہنے سے ڈر لگتا ہے بس کچھ ویسا ہی خوف اب بادام، پستے، کاجو، اخروٹ، انجیر، چھوہارے وغیرہ کے دام پوچھتے وقت محسوس ہوتا ہے! دام سُن کر جسم و جاں میں سنسنی سی دوڑ جاتی ہے۔ کبھی کبھی حیرت بھی ہوتی ہے کہ اب خوش نصیب ہیں کہ مختلف نوعیت کے ڈرائی فروٹ اپنے سامنے دیکھ تو رہے ہیں۔ آنے والی نسلیں تو ڈرائی فروٹ کی تصاویر پر گزارا کیا کریں گی! اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کل کو آپ کے پوتے اپنے دوستوں کو بتائیں۔ ”ہمارے دادا بہت بہادر تھے، اُنہوں نے پچھلی صدی کے آخر میں کئی بار ڈرائی فروٹ کے دام پوچھے تھے!“
 

image

کچھ دن قبل گھر میں کھیر پکائی جانے لگی تو اُس میں ڈرائی فروٹ ڈالنے کی ضرورت پیش آئی۔ ہم نے دکاندار سے کہا پچاس روپے کے بادام پستے دے دو۔ اُس نے پچاس روپے میں بادام پستے کے نام پر چند دانے دھمادیئے۔ ہم حیران رہ گئے۔ سوچا شاید دکاندار مذاق کے موڈ میں ہے۔ پھر خیال آیا اُس سے ہمارا ایسا مذاق تو ہے نہیں۔ چاہا کہ ہمت کرکے پوچھ ہی لیں کہ کیا پچاس روپے میں بادام پستے کے پندرہ دانے ہی آتے ہیں۔ مگر پھر ہم کچھ پوچھنے سے باز رہے۔ سچ ہی تو ہے، اپنی عزت اپنے ہاتھ ہوتی ہے!

آج کل سب کچھ کچھ آن لائن ہوتا جارہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کل کو آپ پچاس گرام چلغوزوں کی آن لائن خریداری کریں اور آپ کے اِن باکس میں پیغام آئے کہ جناب! پچاس گرام چلغوزے کھانے ہیں تو کم از کم ڈیڑھ سو گرام کا آرڈر دیجیے کیونکہ سو گرام چلغوزے تو آن لائن کی پائپ لائن ہی میں اپنا وجود کھو بیٹھتے ہیں! چھوہاروں کا یہ حال ہے کہ خریداری کے خواہش مند اُن کے دام سُن کر چھوہارے جیسا منہ لیکر رہ جاتے ہیں! اخروٹ بھی اب کیا خریدیں؟ سخت خول توڑیے تو وہی اپنے دماغ جیسی گری نکلتی ہے! چند برس پہلے تک انجیر بھی عام آدمی کے بجٹ کی دسترس میں تھے۔ مگر اب اُن کے بھی دام اِتنے بڑھ گئے ہیں کہ اُنہیں کھانے کا صرف سوچا جاسکتا ہے۔ متنوع ڈرائی فروٹ ملکی پیداوار ہیں۔ انجیر بھی ان میں شامل ہے۔ مگر اب مونگ پھلی جیسی چیز 280 روپے کلو کے نرخ پر فروخت ہو رہی ہے تو انجیر اور چھوہاروں کو کیا روئیں؟ اگر صاف سُتھرے، معیاری انجیر 500 روپے کلو کے نرخ پر مل جائیں تو اللہ کا شکر ادا کیجیے کیونکہ پاک سرزمین پر یاروں نے اسپغول کی بُھوسی جیسی عام سی چیز کے دام بھی اب ہزار روپے فی کلو کی منزل تک پہنچا دیئے ہیں۔ یہ سِتم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ڈرائی فروٹ کے دام پر سُن کر معدے میں گڑبڑ محسوس ہوتی ہو تو اُس گڑبڑ کو ختم کرنے والی چیز زیادہ مہنگی مل رہی ہے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524502 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More