اسلم، اکرم، نشا اور لالو چاروں
آپس میں بہت گہرے دوست تھے۔وہ سب مل جل کر رہتے تھے۔ ایک دن ان کے شہر میں
ایک جادوگر آیا۔ اس جادوگر نے اپنے تھیلے سے ایک چھوٹا سا بندر نکالا ۔ اس
چھوٹے سے بندر کے بچّے نے جادوگر کے کہنے پر خوب اچھا کرتب دکھلایا۔ اُس کے
بعد جادوگر نے پھر سے بندر کو تھیلے میںبند کردیا۔ اسلم، اکرم، نشا اور
لالونے دیکھا کہ بندر جب باہر تھا تو ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بہت زیادہ
اُداس ہے اور اس نے جو بھی کرتب بتائے جیسے وہ جادوگر کے ڈر سے زبردستی
کررہا ہو۔
لالو نے تھیلے کے قریب جاکر پوچھا:’’ بندر بندر ! تم اتنے اُداس کیوں ہو؟‘‘
اس پر بندر نے خاموشی سے کہا:’’ اس طرح رسّیوں سے بندھے ہوئے تھیلے میں رہ
کر بھلا کوئی خوش رہ سکتا ہے؟‘‘ سب بچّوں کی آنکھوں میں بندر کی اُداسی
اور اس طرح اس کا قید میں رہنا دیکھ کر آنسو بھر آئے ۔ جادوگر لوگوں سے
کرتب دکھانے کا پیسہ جمع کرنے میں مصروف تھا ۔ لالو نے موقع غنیمت جان کر
تھیلے کی رسّی کھول دی ۔ اس طرح بندر آزاد ہوگیا۔ اور وہاں سے چھلانگ
لگاتا ہوا دور جنگل کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔
جب جادوگر نے یہ ماجرا دیکھا تو وہ غصے سے آگ بگولہ ہوگیا۔ اُس نے اپنی
جادو کی چھڑی اٹھائی اور لالو کے سر پر لگائی دیکھتے ہی دیکھتے لالو بندر
میں بدل گیا۔
سب بچّوں نے جب اپنے ایک دوست کو بندر بنا ہوا دیکھا تووہ بھی آپے سے باہر
ہوگئے ۔ اور بدلہ لینے کے ساتھ ساتھ لالو کو اِس جادو سے نجات دلانے کے لیے
مشورہ کرنے لگے۔ اسلم جو اُن چاروں میں بڑا اور عقل مند تھا اس نے کہا
جادوگر کو سبق سکھانے کے لیے طاقت نہیں بل کہ عقل سے کام لینا پڑے گا۔
انھوں نے روتے ہوئے جادوگر سے التجا کی کہ وہ ہمارے دوست لالو کو دوبارہ
انسان میں بدل دو۔ لیکن ظالم جادوگر زور زور سے قہقہہ مار کر ہنستے ہوئے
کہنے لگا کہ :’’ جب تک تم لوگ میرا بندر واپس نہیں کرو گے مَیں تب تک
تمہارے دوست کو بھی واپس نہیں کروں گا۔‘‘
اسلم، اکرم اور نشا جنگل کی طرف روانہ ہوئے ۔ جیسے ہی وہ جنگل میں پہنچے تو
انھیں وہ بندر دکھائی دیا۔ بندر کے بچّے نے ان لوگوں کو پہچان لیا اور اپنے
ماں باپ سے سارا ماجرا کہہ سنایا کہ اِن بچّوں نے اس کو جادوگر کی قید سے
چھڑایا ہے ۔ بندر نے پوچھا :’’ دوستو! تم چار تھے ، جس نے مجھے قید سے
آزاد کیا تھا وہ کہاں ہے؟‘‘
تب تینوں نے کہا کہ :’’ جادوگر نے اُسے اپنی جادو ئی چھڑی سے بندر بنادیا
ہے اور کہا ہے کہ جب تک ہم تمہیں پکڑ کر اس کے حوالے نہیں کریں گے تب تک وہ
لالو کو دوبار ہ انسان میں نہیں بدلے گا۔‘‘
یہ باتیں سُن کر بندر کے ماں باپ نے کہا :’’ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ،
چلو ہم راج کماری مورنی کے پاس چلتے ہیں وہ ضرور اس کا کوئی حل بتائیں
گی۔‘‘
وہ سب راج کماری مورنی کے گھر پہنچے اور سارا ماجراکہہ سنایا ۔ مورنی نے
کہا :’’ بچّو! مجھے بہت خوشی ہوئی کہ تم نے ہمارے جنگل کے ایک جانور کو
ظالم جادوگر کی قید سے آزاد کرایا ۔ مَیں تمہیں ایک طلسمی پنکھ دیتی ہوں ،
اس پنکھ کی یہ خاصیت ہے کہ یہ جس کے ہاتھ میں ہوتا ہے اُس پر کوئی بھی جادو
اثر نہیں کرتا۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے راج کماری مورنی نے طلسمی پنکھ اسلم کو
دیتے ہوئے کہا کہ :’’ بہادر بچّے! یہ پنکھ اپنے پاس رکھنا اور اس جادوگر سے
جادوئی چھڑی چھین کر اُس کے سر پر لگادینا بس وہ فوراً بندر بن جائے گا اور
پھر تمہارے دوست لالو جسے جادوگر نے بندر بنادیا ہے اس کے سر پر لگادینا وہ
دوبارہ انسان میں بدل جائے گا۔‘‘
بچّوں نے راج کماری مورنی کا شکریہ ادا کیا اور اپنے گاؤں کی طرف روانہ
ہوئے۔ ابھی شام ہونے میں کافی دیر تھی ۔ بچّوں نے فوراً جادوگر کے پڑاو کی
طرف رُخ کیا اورکہا کہ ہمارے دوست لالو کو انسان میں بدل دو ورنہ ہم سے
مقابلے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ جادوگر نے غصے سے کہا جب تک تم میرا بندر واپس
نہیں کردیتے مَیں تمہارے دوست کو بندر ہی بنائے رکھوں گا۔ بچّوں نے اشاروں
ہی اشاروں میں کچھ بات کی اور تھوڑا دور ہٹ گئے ۔
تھوڑی دیربعداسلم نے راج کماری مورنی کا دیا ہواطلسمی پنکھ ہاتھوں میں لے
کر جادوگرکومقابلے کے لیے للکارا ۔ جادوگر نے اپنی جادوئی چھڑی اس کے سر پر
لگائی ، لیکن اسلم پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ جادوگر نے جب اپنی جادوئی
چھڑی کاوار خالی دیکھا تو مزید غصے سے لال پیلا ہوگیا اب وہ بجاے اسلم کے
اکر م اور نشا کی طرف بڑھنے لگا۔
اسلم نے بڑی پھرتی سے اسے زور کا دھکا دے کر گرا دیا ۔اس کی چھڑی دور بالکل
اکرم کے پیروں کے پاس جاگری ۔ اکرم نے جلدی سے چھڑی اٹھائی اور اسلم کو دے
دی۔ جادوگر تیزی سے اسلم کو مارنے اور اس سے جادوئی چھڑی چھیننے کے لیے
جھپٹا ۔اس سے پہلے کہ وہ اسلم کو کچھ نقصان پہنچاتا ۔ پیچھے سے اکرم اور
نشا نے ایسی زور کی لات رسید کی کہ اسے دن میں تارے نظر آنے لگے۔ وہ بُری
طرح بوکھلا اٹھا ۔ تب ہی اسلم تیزی سے آگے بڑھا اور جادوگر کے سر پر
جادوئی چھڑی لگادی ، دیکھتے ہی دیکھتے جادوگر بندر بن گیا۔ تینوں نے زور
زور سے تالی بجائی اور اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بندر بن گئے جادوگر کو
رسیوں سے بُری طرح جکڑ لیا۔
پھر اسلم نے بندر بنے لالو کے سر پر جیسے ہی چھڑی لگائی ، لالو پھر سے ان
کے سامنے موجود تھا۔ سب ہی بچّے لالو سے گلے ملے اور زور زور سے
کھلکھلاکرہنس پڑے۔
بندر بنے جادوگر کو ایک درخت سے باندھ دیا اور دوسرے دن جنگل میں اسے
گھسیٹتے ہوئے لے گئے جہاں جنگلی جانوروں نے اُس کی خوب پٹائی کی ، آخر میں
بچّوں نے جادوئی چھڑی کو آگ میں ڈال کر جلا دیا۔ |