ہم دسمبر ہی نہیں، سال کے بھی
آخری عشرے میں ہیں۔ موسم بدل گیا ہے۔ مایا کیلینڈر کی رُو سے جس قیامت کو
آنا تھا وہ نہ آکر گزر بھی گئی! قیامت کے انتظار میں شدید اضطراب سے دوچار
افراد کی اوٹ پٹانگ حرکتوں سے ماحول میں کچھ گرما گرمی پیدا ہوگئی تھی جو،
ظاہر ہے، اب نہیں رہی۔ فضا میں خُنکی بڑھتے بڑھتے اب باضابطہ سردی کی شکل
اختیار کرگئی ہے۔ ویسے تو بُرے حالات اور اُن سے بھی بُری منہگائی کے
ہاتھوں خود انسان کا یخنی سُوپ بن چکا ہے مگر خیر، سخت سردی میں چکن یخنی
سُوپ پینے کا کچھ اور ہی لُطف ہے۔ جس طرح کچھ لوگوں کو گرمی میں ”ٹھنڈی
والی کولڈ ڈرنک“ پیئے بغیر سُکون نہیں ملتا بالکل اُسی طرح کچھ شوقین ایسے
ہیں جو سردیوں میں دل و دماغ کو ”گرمائش“ بخشنے کے لیے ”مُرغی کا چکن سُوپ“
فریضہ سمجھ کر حلق سے نیچے اُنڈیلتے ہیں!
روشنیوں کے شہر میں قتل و غارت کے اندھیرے بانٹنے والوں کو تو ہم اب تک
پھانسی کے پھندے پر لٹکا نہیں پائے مگر مُرغیاں نہ بچ سکیں! اور کیسے بچتیں؟
علامہ اقبال کہہ گئے ہیں
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوٰی ہے ازل سے
ہے جُرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات!
|
|
جا بجا ٹھیلوں پر مُرغیاں اپنے کردہ و ناکردہ گناہوں کی پاداش میں لٹکی
ہوئی ہیں اور تھال میں اُبلتے ہوئے سُوپ کی حرارت سے ریزہ ریزہ پگھل کر
سُوپ کی لذت کا دائرہ وسیع فرما رہیں ہیں! عوام کو ٹھیلوں پر چکن یخنی سُوپ
پیتے دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی
عوام کا یخنی سُوپ اِسی طرح پیتے رہتے ہیں۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ اُن کے لیے
موسم کی قید نہیں!
چکن یخنی سُوپ بھی کیا سوغات ہے۔ سُوپ کے ٹھیلے پر ایک نظر ڈالیے تو اندازہ
ہو جاتا ہے کہ دُنیا کی مضبوط ترین اور ”زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد“ ٹائپ
کی مُرغیاں پاکستان میں پائی جاتی ہیں کیونکہ ایک ٹھیلے پر ایک مُرغی لٹکے
لٹکے پورا سیزن گزار دیتی ہے اور اُس کی ”تازگی“ کا سُورج غروب ہونے کا نام
نہیں لیتا! جس طرح سُوپ بیچنے والے خان صاحبان کا ”یک زبان ہوتا ہے“ بالکل
اُسی طرح اُن کے ٹھیلے پر لٹکی ہوئی مُرغیاں بھی اپنے موقف پر قائم رہتی
ہیں! لٹکی ہوئی مُرغیاں سُوپ کی بھاپ سے پگھل پگھل کر کچھ کی کچھ ہو جاتی
ہیں، کسی اور دنیا کی مخلوق دکھائی دینے لگتی ہیں، گوری چمڑی جلتے جلتے
عجیب و غریب رنگ کی ہو جاتی ہے مگر اللہ کی بندیاں ٹس سے مس نہیں ہوتیں
یعنی ختم نہیں ہونے کا نام نہیں لیتیں! ثابت ہوا کہ مُرغیاں ہوں یا عوام،
دونوں کا ایک سا حال ہے! دونوں ہی سخت نامساعد حالات کو جھیلنے کے باوجود
زندہ و سلامت ہیں اور ہر وقت تباہی کے دہانے پر کھڑے رہنے کے باوجود تباہ
نہیں ہوتے!
موسم نے پلٹا کھایا تو حالات بھی پلٹا کھانے پر مجبور ہوگئے۔ اور اِس اُلٹ
پَلٹ کی زد میں کوئی آیا ہے تو وہ ہے انڈا۔ بے زبان انڈوں کو بھی یقین نہیں
آتا ہوگا کہ اُنہیں فروخت کرنے کی آڑ میں لوگ اپنے محل تعمیر کرنے پر تُل
جائیں گے! اِس وقت بازار میں انڈے 135 اور 145 روپے فی درجن کے نرخ پر
فروخت ہو رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انڈے میں زردی ہوتی ہے اِس لیے
اُن کے نرخ اور سونے کے دام میں ہم آہنگی پیدا ہوگئی ہے! ہمارا خیال ہے
انڈوں نے طے کرلیا ہے کہ جب سُوپ کے نام پر پتلے سے گرم مشروب کا ایک پیالہ
پندرہ بیس روپے میں فروخت ہو رہا ہے تو وہ بھی خود کو سستا نہیں بیچیں گے!
یہ ساری باتیں تو بعد میں بھی ہوتی رہیں گی۔ اگر آپ سُوپ پینا چاہتے ہیں تو
فوراً گھر سے نکل کر ٹھیلے تک پہنچ جائیے۔ کراچی کی نام نہاد سردی کا کچھ
پتہ نہیں کب ختم ہو جائے۔ سائبیریا میں سب کچھ جم جاتا ہے تو تھوڑی بہت لہر
بلوچستان تک آتی ہے۔ اور پھر جب کوئٹہ کی ہوا چلتی ہے تو ہم بھی کچھ ٹھٹھر
لیتے ہیں۔ سُوپ کے ٹھیلے بھی سردی کی مختصر سی لہر تک ہیں! کوئٹہ کی ہوائیں
بند ہوئیں تو پھر کون سے ٹھیلے اور کیسا سُوپ؟
(فوٹو گرافی : عمران علی) |