ذرائع ابلاغ جو لوگوں کو
خبروں،معلومات،تفریح اور دوسری چیزوں سے باخبر رکھنے کا نام ہے۔ڈرامہ ہو یا
فلم،گانا ہو یا شو ذرائع ابلاغ کے زمرے میں آتے ہیں اور یہ کسی علاقے،قوم
کے ثقافت،تہذیب،اور رسم ورواج کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں آج
کے جدید دور میں جہاں ذرئع ابلاغ نے بہت حد تک ترقی کی ہے اس کو اگر معاشرے
کی بہتری اور مثبت چیزوں کو فروغ دینے کیلئے استعمال کیا جائے تو یہ اس
علاقے،قوم کی ترقی کا سبب بنتے ہیں اور اس قوم کو اپنی ثقافت،اور رسم ورواج
سے باخبر رکھنے میں اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہیں جب ذرائع ابلاغ ان مثبت
چیزوں کو فروغ دیتا ہے تو وہ معاشرہ،علاقہ،اور قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہو
جاتی ہے چونکہ میں ذکر پشتون ثقافت کے حوالے سے کرنا چاھتا ہوں لہذا سیدھے
موضوع پر آجاتا ہوں کہ پشتونوں کی تاریخ بہت پرانی ہے اور تاریخ سے معلوم
ہوتا ہے کہ پشتونوں کے مختلف قبیلے اسرائیلی یعنی( قیس ) نامی شخص جو بعد
میں مسلمان بنا کہ تین بیٹوں سٹربن،بیٹ اور غورغشت سے اپنے آپ کو منسلک یا
ماخوز سمجھتے ہیں چونکہ عبدالرشید(قیس) اور اسکے ساتھی بطان(کشتی) کے نام
سے مشہور تھے یہی بطان پھر پٹھان کہنے لگا اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری و
ساری ہے ،پشتونوں کی ثقافت ،اقدار،اور رسم ورواج سے معلوم ہوتا ہے کہ پٹھان
غیرت مند،،مہمان نواز،نڈر اور عورتوں کو عزت دینے والے لوگ ہیں،بڑوں کی
عزت،اور اتفاق اور اتحاد سے رہنا ان کے اقدار میں شامل ہے۔ستراویں اور
اٹھارویں صدی عیسوی میں پشتون ثقافت کو دوسرے ثقافتوں کے مقابلے میں ایک
منفرد مقام حاصل تھا چونکہ برصغیر میں مختلف اقوام آباد تھی اور بعد میں
انگریز نے بھی اس سر زمین پر قدم رکھا ان مختلف اقوام کی ثقافتوں نے پشتون
ثقافت کو اثر انداز کر دیا اور یہ سلسلہ جاری رہا اور آج پشتون ثقافت
نے؛کثر علاقوں میں اپنا وہ منفرد مقام کھو دیا ہے لیکن پشتون ثقافت پر
پنجابی ثقافت کا اثر دوسرے قوموں کی نسبت زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ
پھٹانوں کے مختلف رسم و رواجوں میں پنجابی ثقافت کا عنصر پایا جاتا ہے ۔پشتون
ثقافت کے زوال میں ذرائع ابلاغ کیا کردار ادا کر رہی ہے شاید آپ سب اس سے
بخوبی واقف ہو پشتو کے جو ڈرامے سی۔ڈیزکیلئے بنائے جا تے ہیں شاید اس میں
پشتون ثقافت کو نظر انداز کر دیا جا تا ہے ایسے ڈرامے اور گانے شاید ایک
باشعور آدمی دیکھنا بھی گوارا نہیں کریں گا بنائے جا رہے ہےںمجھے خود ایک
دن یہ دیکھنے کاموقع ملا تو میں خوش تھا کہ گانے اور ڈرامہ دیکھ کر مزہ
دوبالا کیا جائے لیکن ڈرامہ اور گانے دیکھنے کے بعد مجھے حد درجے کا افسوس
ہوا کہ ایسے بیہودہ ڈرامے اور گانے بنائے جا رہے ہیں جس کا پشتون ثقافت سے
کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا پشتون ثقافت کو غلط رنگ دیکر پیش کیا جا رہا
ہے،ڈراموں کے اسکرپٹ ،کہانی اور مکالموں میں ثقافت نامی چیز کا نام تک نہیں
،بندوق،دشمنی،قتل،بدلہ،انتقام،ڈرامے کے مرکزی خیال ہوتے ہیں تعلیم نامی
کوئی چیز کا اس میں پتہ ہی نہیں چلتا کہ تعلیم کیا( بلا) ہو تی ہے،سٹیج پر
کھڑے ہو کر گانوں کے ساتھ ساتھ ناچنا تو آج کے گلوکاروں اور گلوکاراؤں کی
پسندیدہ عادت بن چکی ہے ،لڑکی پیبٹ پہنی ہوئی کھیتوں میں ناچتی ہوئی نظر
آرہی ہوتی ہے جناب یہ کہاں اور کن پشتونوں کی ثقافت ہے،کیا آپ نے کبھی
پشتون معاشرے میں یہ دیکھا ہے ان بیہودہ اور بے حیائی کے ڈراموں نے پشتون
ثقافت کو خاک میں ملا دیا ہے عجب بات ہے کہ پشتو کے کچھ نامور اداکار اور
گلوکار خود بھی پشتون ثقافت کے دشمن بنے ہوئے ہیں ایسی ڈراموں میں کام کرتے
ہوئے نظر آتے ہیں جس کا ثقافت سے تعلق ہی نہیں ہوتا کچھ خیال نہیں کیا جا
رہا کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے حالا ت کو دیکھ کر ایسے ڈرامے اور شوز پیش
کئے جا ئے جس سے پشتونوں کے ثقافت،رسم و رواج، اقدار، اور انکے امن پسند
ہونے کا ثبوت دیکر دنیا میں ان کے مقام اور آبرو کا تحفظ ممکن ہو سکے لیکن
افسوس صد افسوس سب پشتون ثقافت کی بربادی کے تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔پشتون
ثقافت سے بے خبر لوگ چند رپیوں کی خاطر پٹھانوں کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں
جس سے زیادہ نوجوان نسل متاثر ہو رہی ہے اور وہ ان سے جو سیکھ رہے ہیں اس
سے اس معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے جس کا اندازہ آپ اخبارات میں جرائم
کی خبروں سے لگا سکتے ہیں کہ بیٹے نے ماں کو ،بیٹے نے والد کو ،بھائی نے
بھائی کو جائیداد کیلئے قتل کر دیا ۔تعلیم کی بجائے نوجوان نسل آوارہ
گردیوں، اور سگریٹ نوشی میں مبتلا ہو رہی ہے ۔دوسر ی طرف پی،ٹی،وی پشاور
بھی ایسی سرگرمیاں کرتی ہوئی نطر نہیں آرہی جو لوگوں کی توجہ اپنی طرف
مبذول کر سکے تاکہ بے ہودہ اور بے حیائی کے ڈراموں اور گانوں سے متاثرہ
لوگوں کے مستقبل کو روشن بنایا جا سکے ۔اس مسلئے کو حل کرنے کیلئے محکمہ
اطلاعات کو قوانین بنانے ہو گے جس سے غیر معیاری چیزوں پر پابندی لگانی ہو
گی ۔پی ،ٹی،وی پشاور اور اے ،وی،ٹی خیبر سمیت ہم سب پشتونوں کو اپنا کردار
ادا کرنا ہوگا کیونکہ ہمارا صوبہ ویسے بھی بارود میں جل رہا ہے اور یہ اور
شعلے بھڑکنے میں لگے ہوئے ہے جو مستقبل میں ڈرون حملوں سے بھی زیادہ خطرناک
ثابت ہونگے جس سے ہمارا معاشرہ اثر انداز ہو گا اور پشتون ثقافت اسی طرح دن
بدن ذلیل و خوار ہوتا رہے گا اور ہم سب تماشائی اسی طرح تماشا ہی دیکھتے
رہینگے ۔ |